جدید ٹیکنالوجی، معلومات کے سیلاب اور میڈیا کی چکا چوند ترقی نے دُنیا بھر میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس تیزی سے بدلتی سائنسی اور ثقافتی یلغار نے جنگ،دفاع،امن،دوستی،صنعت وتجارت اور کھیل تک کے منظر کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے ۔ ہم گزشتہ 65 سالوں میں اپنے سماجی تانے بانے کو اتنا مضبوط نہیں کر سکے کہ ہم تیزی سے بدلتے حالات میں دنیا کا مقابلہ کر سکیں۔ بلکہ ہم اپنے لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں تک فراہم نہیں کرسکے۔اگر قبائلی علاقوں سمیت پورے ملک میںصرف شعبہ تعلیم پر توجہ دی جاتی، لوگوں کی پسماندگی کو معیاری تعلیم کے ذریعہ سے کم کرنے اور باعزت روزگار فراہم کرنیکی سنجیدگی سے کوشش کی جاتی تو شاید آج حالات اتنے بدترین نہ ہوتے۔آج ہمارے لئے دہشت گردی اور خودکش حملہ آور سب سے بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں جن کے حملوں سے مقبول ترین لیڈر، دفاعی اداروں کے ملازمین سمیت ہزاروں بے گناہ شہری اپنی قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں۔دہشت گرد کارروایوں سے حفاظتی اور دفاعی ادارے بھی محفوظ نہ رہ سکے ۔ملک معاشی طور پر تباہ حال ہو چکا ہے۔ ایک وقت تو ایسا آگیا تھا کہ ہمارے دشمنوں نے یہاں تک کہنا شروع کردیا تھا کہ جو مملکت اپنے شہریوں کے جان ومال کا تحفظ نہیں کرسکتی تو ایسی ناکام ریاست کے پاس موجود ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کی پہنچ سے کیسے بچ پائیں گے۔
Ghauri Missile
دشمن کا تو کام ہی منفی پراپیگنڈہ کے ذریعہ سے نفسیاتی طور پر ہراساں کرنا ہے۔الحمد للہ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ایٹمی اثاثے نہ صرف دہشت گردوں کی پہنچ اور سوچ سے بھی بہت دور ہیں بلکہ دنیا کی ہر طاقت کے ہر قسم کے شر سے محفوظ ہیں۔ لیکن ہمیں صرف اسی بات کے فخر میں نہیں رہنا چاہیے ۔بلکہ ہمیں ملک میں امن وامان کی خراب صورت ِ حال کو بہتر کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کو تحقیقی اور پیشہ وارانہ خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ تاکہ آنے والی نسل نئے دور کے جدید تقاضوں پر پورا اُتر سکے۔کیونکہ اب دور خطرناک اور مہلک ہتھیاروں سے بہت آگے جا چکا ہے ۔ دنیا اب ایٹمی ہتھیاروں سے بچائو ، ان ہتھیارو ں کو لیزر کے ذریعہ سے فضاء ہی میں منجمد اور ناکارہ بنانے کی ٹیکنالوجی پر بڑی تیزی سے کام کررہی ہے ۔ لیکن حکومتی اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ زمینی حقائق کو سمجھنے سے قاصرہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک تعلیمی میدان میں کوئی انقلابی قدم نہ اُٹھا سکے۔
Terrorism
موجودہ دور میں ہمیں تعلیم کے شعبہ کو بہتر کرنے کے لئے تربیت یافتہ اور اعلی تعلیم یافتہ افرادی قوت کے ساتھ ساتھ جدید دور کے تقاضوں کو مد ِنظر رکھتے ہوئے جامع منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور ایسا لائحہ عمل اپنانا ہوگا جس کو بروئے کار لاکر ہم وسائل کو مسائل کے حل کیلئے خرچ کر سکیں ۔ ہمیں تعلیم اور معیار تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے دیگر مسائل بے روزگاری ، جمہوریت،سیاسی استحکام اور دہشت گردی جیسے مسائل کے برابر اہمیت دینی ہوگی۔تاکہ معاشرے کے سُدھارکی کوشش کے بہترین نتائج حاصل ہوسکیں۔ہماری پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ تعلیم کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا بلکہ ہم نے اس شعبہ کو کبھی قومی دھارے کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا۔سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔حکومتی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی ادارے مقررہ اہداف سے بہت دور ہیں۔اساتذہ کی صورت حال بھی پسندیدہ نہیں۔ اساتذہ جن سے قوم کا مستقبل وابستہ ہے معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو عدم توجہی کا شکار ہیں۔اساتذہ کی کفالت اور ان کو تحفظ دینے کے مناسب اقدام نہیں ہوئے۔ معاشرے نے انہیں مناسب مقام دیا نہ ہی احترام۔ بلکہ اب تو ملک کے مختلف حصوں میں اساتذہ کو ٹارگٹ بنا کر قتل کیا جا رہا ہے ۔سال میں ایک دن ٹیچر ڈے منانے سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے حق ادا کردیا ہے۔ ہر پل بڑھتی مہنگائی کے مقابلے میں ان کی تنخواہیں بہت کم ہیں۔
drone attacks in pakistan
جس کی وجہ سے اساتذہ اپنے فرائض خوش دلی سے ادا کرنے میں قاصر نظر آتے ہیں۔ ریاست کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود ، امن اور تحفظ کی ضمانت دینا ہوتا ہے۔ لیکن موجودہ سیاسی ابتری ، بے روزگاری، معاشرتی ناہمواریوں اور جہالت نے لاقانونیت کو جنم دیا ہے۔ ان حالا ت میں سربراہ ِ مملکت کی طرف سے یہ مشورہ کہ اگر عوام اتنے ہی تنگ ہیں تو پاکستان چھوڑ کیوں نہیں دیتے ۔ مملکت ِ پاکستان جہاں ایک طرف آسمان سے ڈراؤن حملوں میں بے گناہ شہری مارے جا رہے ہیں تو دوسری جانب پورے ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال ہے ۔ اپنے ہی ملک میں لوگ ایک دوسرے کی جانوں کے دُشمن ہیں ۔رہی سہی کسر حکمرانوں نے اداروں کے ساتھ ٹکراؤ جیسے مسائل پیدا کرکے پوری کردی ہے ۔ جنہوں نے ملک کو اس قدر انتشار کا شکار کردیا ہے کہ ہر شخص قدم قدم پہ خوفِ رہزن ،زمین بھی دُشمن فلک بھی دُشمن جیسے حالات سے تنگ اور نااُمیدی کے دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔
آج عام شہری مستقبل سے مکمل طور پر مایوس ، سخت پریشان حال ، مشکلات اور عدم تحفظ کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنی پاک سر زمین چھوڑنے پرآپ کے مشورہ سے پہلے ہی مجبور اور تیار ہے ۔ حکومت کوچاہیے کہ اپنی عوام کو ملک چھوڑنے کا مشورہ دینے کی بجائے معاشرے سے جہالت ختم کرنے کے لئے شعبہء تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے سیاسی عزم کے ساتھ قدم اٹھائے اور معاشرے کے پریشان حال اور محروم طبقے کے لئے کچھ کرے۔ہم نے گزشتہ سالوں میں حکومت سمیت تما م سیاسی جماعتوں اور راہنماؤں کو معاشرے میں بہتری لانے، اداروں کو مضبوط اور ان کی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے، اداروں کے ساتھ ٹکرائو اور مہم جوئی کرتے دیکھا ہے۔ ہمیں اس مہم جوئی کے ذریعہ اپنے ہی ملک اور اس کے اداروں کو فتح کرنے کی روایت کوترک کرنا ہوگا۔تعلیمی شعبے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی بہتری کے لئے اقدامات کے ساتھ ساتھ اس کے انتظامی شعبوں کو درست کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ تعلیم کے شعبہ سے غفلت اور لاپرواہی کی اس روش کو ترک کرنے ہی سے ملک کو محفوظ، مستحکم ، خوشحال اور ایسا پاکستان بنانے کی ذمہ داری نبھانا ممکن ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ جہاں نہ نظریاتی تصا دم ہو اور نہ ہی بدامنی ہو۔