تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم جس طرح ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے مُلکی معیشت اور قوم کی حالتِ زار کو بہتراورمستحکم کرنے اور اِسے ہر سال ملک میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاکر اُوجِ ثریاسے بھی اُونچالے جانے کے خاطرجو آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے کئی گنا زائد سود کے ساتھ واپسی کی شرائط پر اُدھار اور قرضوں کی مدمیں جتنے ڈالرز بٹورے ہیں ..؟؟اَب تک اِنہوں نے اِن قرضوں کاکیاکیا ہے..؟؟ اَب جس پر میں یہ کہناچاہوں گاکہ اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کہ اِس جھوٹ اور اِ ن کی ساری دکھاوے کی کارکردگی کی قلعی تو مُلک میں 2010سے 2015تک آنے والے سیلابوں کی تباہ کاریوں سے کھل جاتی ہے، اور سیلاب کا پانی قوم کے سامنے وہ سب کچھ عیاں کرکے چلاجاتاہے جس سے متعلق سال بھر ہمارے حکمران اور سیاستدان ہر سال قوم کی حالتِ زار بہتربنانے اور قوم کوسیلاب اور زلزلے جیسی دیگر قدرتی آفات سے بچاو¿ اور مُلکی معیشت کے ترقی اور استحکام کے بڑے بڑے دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔
یوں قوم کو لگ پتہ جاتاہے کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان قوم کی ترقی اور مُلکی معیشت کے استحکام کے خاطر عالمی سودخورآئی ایم ایف اور ورلدبینک جیسے اداروں سے لاکھوں ،کروڑو ، اربوں اور کھربوں ڈالرز کے اُدھار اور قرضے کئی گنازائد سودکی ادائیگی کی شرائط پر لے کر اِن قرضوں کی مدمیں ملنے والے ڈالرز کو اپنے کن ذاتی اور سیاسی مقاصد کے تحت استعمال کرتے ہیں اور اور کس طرح قوم کو آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے لئے گئے سودنماقرضوں میں جکڑکر مزے لوٹتے ہیں،اورپھرقرضوں کی ادائیگیوں کے لئے قوم پر مہنگائی اور ٹیکسوں کے کیسے کیسے دردناک عذاب نازل کرتے ہیں آج کونساایساغریب پاکستانی ہوگاجو حاکم الوقت کے مہنگائی اور ٹیکسوں کے کربناک عذاب کی زدمیں نہ آیاہواور وہ حکمران الوقت کے مہنگائی اور ٹیکسوں کے بھرمار مظالم سے تلملانہ گیاہومگردوسری طرف ہمارے حکمران ہیں کہ جیسے اِنہیں قرضوں پر کی جانے والی عیاشیوں اور اللے تللے نے اِن کی غیرت کا جنازہ نکال کر اِنہیں بے حس بنادیاہے،اور یہ اُدھاریا قرض کی قباحت کوسمجھے بغیربے غیرت سے بن گئے ہیں۔
آج اِسے میںمجھے اپنے حکمرانوں ،سیاستدانوں اور قومی ا داروں کے سربراہان کی عالمی سودخور آئی ایم ایف اورورلڈبینک جیسے اداروں سے قرض مانگنے کی عادت پرایک قرض کی ادائیگی سے پہلے دوسرے ،تیسرے اور چوتھے اور پھرقرضوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں پر حضرت شیخ سعدی ؒ کی ایک ایسی حکایت یاد آئی گئی ہے جِسے میں چاہتاہوں کہ میں یہاں اپنے پڑھنے والوں کے لئے ضرور بیان کروںتاکہ عوام کو اندازہ ہوکہ جس طرح باربارگناہ کرنے سے دل سیاہ اور ذہن اچھائی برائی کی تمیزختم کردیتاہے یکدم اُسی طرح مقروض قرض خواہ کا تقاضاسُن کر کان رکھ کر بھی ایک خاموش مقروض ڈھیٹ کس طرح بغیرت بہرابن جاتاہے کہ جیسے اُس کی سُنننے اور بولنے کی صلاحتیںہی ختم ہوگئیں ہیں، حضرت شیخ سعدی ؒ اپنی حکایت میںبیان کرتے ہیں کہ :۔ چندصوفیوںنے بنیے سے اُدھارلے لیالیکن افسوس کہ وہ وقت پرنہ چکاسکے،بنیاہر روزتقاضاکرتااُن کو بڑاذلیل کرتااور بدسلوکی سے پیش آتا،مگر صوفی اِس کی پوچ گوئی پر نہایت خستہ خاطرتھے لیکن اِن کے پاس سوائے خاموشی کے کوئی چارہ نہ تھاایک صاحب ِ دل نے اُنہیں یوں ذلیل ہوتے دیکھاتو اُن سے کہا”جس طرح تم لوگ بنیے کی گالم گلوچ سُنتے ہواور اِسے ٹال دیتے ہواُدھارنہ لیتے تواتنی ذلت نہ اُٹھاتے“۔
IMF
اگرچہ افسوس ہے کہ آج میرے دیس کے حکمران اور سیاستدان اور ہمارے قومی اداروں کے سربراہان بھی شیخ سعدی ؒ کے اُن مقروض صوفیوں کی طرح سے ہوگئے ہیں جو قرض خواہ آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے تقاضے سُن کر خاموش ہوتے ہیں مگر اِسے اتنا ضرور کہتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کی شرائط عائد کرکے ہمیں مزیدقرض دے دے توہم وقت پر اداکردیں گے یوں عالمی سود خودآئی ایم ایف اور ورلڈبینک جیسے ادارے اپنے کاروبار کو چمکانے اور اِسے تقویت دینے کے خاطر ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو قرض دے دیتے ہیں اور پھر مانگتے ہیں تو ہمارے حکمران خاموشی سے اِن کی سُن رہے ہوتے ہیں اور وہ اِنہیں سُنارہاہوتاہے اور یہ باادب ہاتھ باندھے اِس کی سُن رہے ہوتے ہیں،اوریہ لوگ مُلک وقوم کی ترقی و خوشحالی کے نام پرتوعالمی سودخودآئی ایم ایف اور ورلڈبینک اداروں سے قرض پہ قرض لئے جاتے ہیں مگراِنہیں اِن قرضوں سے اپنی عیاشیوں اور اللے تللے کے سواقوم کی حالتِ زاربہتربنانے کا ذرابھی خیال نہیں آتاہے۔
جب ہی تواِس مرتبہ بھی بارشوں اور سیلابوں نے مُلک میں تباہ کاریوں کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑڈالے ہیں ، ہنوز مُلک کے طول و ارض میں بارشوں اور سیلابوں کی شدت جاری ہے اور تباہ کاریاں بڑھتی ہی جارہی ہیں اور سیلابی پانی کھڑی فضلیں اور شہریوں کے گھروں کو تباہ وبربادکرتے ہوئے آگے کی جانب بڑھتاہی جارہاہے جس پر ایسالگتاہے کہ جیسے ابھی ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور اداروں نے 2010سے 2015تک مُلک میں آنے والے سیلابوں سے کچھ بھی نہیں سیکھاہے اورابھی تک اِنہوں نے نہ ہی اپنی ایسی کوئی منصوبہ بندی کی ہے کہ جس سے یہ اندازہ ہوکہ جب اگلے سالوں میں مُلک میں ہونے والی مون سون کی بارشوں سے آنے والے سیلابوں میں شدت آئے تومُلک کے معصوم اور غریب شہریوں کی جانوں اور مال مویشیوں اور فصلوں کا کم سے کم نقصان ہو اور شہری سُکھ کا سانس لیں۔
اگرچہ اِس سے انکار نہیں کہ ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی نااہلی اور سیلابوں سے بچاو¿ سے متعلق عدم دلچسپی کے باعث اِن کی ناقص اور فرسودہ حکمتِ عملی کی وجہ سے مُلک میں آنے والے موجودہ سیلابوں نے خیبرپختونخواہ سمیت پنجاب اور سندھ کے بیشتر بڑے حصے کو بُری طرح سے متاثرکررکھاہے، اوراِس پر ہمارے حکمران اور سیاستدان ہیں کہ یہ مُلک اور قوم کو سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بچانے اور متاثرین سیلاب کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے یہ ایوانوں میں سر جوڑے بیٹھے اپنی اقتداری سیاست کو بچانے اورایک دوسرے سے اپنااپناسیاسی قداُونچاکرنے میں لگے ہوئے ہیں حالاںکہ اِنہیں قوم کو درپیش اِس مصیبت کی گھڑی میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرہ افراد کی دادرسی کے خاطر اِن کی دہلیزوں پر جاناچاہئے تھا تاکہ اِنہیں اپنے درمیان پاکر قوم کو تنہائی کا احساس نہ ہومگر آج یہ ایسانہیں کررہے ہیں ،جیسی کہ اِن سے موجودہ حالات میں عوام نے اُمیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔
Nawaz Sharif in Chitral
اَب ایسے میں اپنے حکمرانوں اور وسیاستدانوں کے روکھے پھیکے اور اجنبیوں والے رویوں کی وجہ سے متاثرین سیلاب خود کو بے یارومددگارمحسوس کررہے ہیں جبکہ ایسے میں متاثرین سیلاب کے ساتھ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا روارکھاگیاایسا رویہ کسی بھی صورت مناسب نہیں ہے،آج یہی وجہ ہے کہ اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی جانب سے بے حسی اور لاپرواہی کے مسلسل ہونے والے مظاہروں کودیکھتے ہوئے متاثرین سیلاب خود کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاو¿ کے لئے اپنی مددآ پ کے تحت کمربستہ دکھائی دیتے ہیں اور یہ اللہ کے بعد پاک فوج کو اپنا سب سے بڑامسیحاجان کر اِنہیں اپنا مددگار سمجھ رہے ہیں اور اپنے حکمرانوں سیاستدانوں اور عوامی سہولیات باہم پہنچانے والے صوبائی اور وفاقی اداروں کی لاپرواہی اور ناقص کارکردگی پر بددُعائیں دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔
دہائیاں دیتے پھر رہے ہیں کہ مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی اور سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بچانے کے نام پر آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے اربوں ڈالرزقرض لینے والے حکمرانوں اور سیاستدانوں کچھ تو خداکا خوف کرو،قوم کی حالتِ زار بہتربنانے کاکہہ کر عالمی اداروں سے قرض تم تولے لیتے ہومگر اِس قرض کو مُلک اور قوم کی ترقی و خوشحالی اور معیشت کے استحکام پر خرچ کرنے کے بجائے اُلٹا قرض کی شکل میں ملنے والے اربوں ڈالرزکوآپس میں بانٹ لیتے ہواور اپنی عیاشیوں اوربیرون ممالک کھولے گئے اپنے بینک کھاتوں میں منتقل کرلیتے ہو۔
اگرتم یہی قرض جو مُلک کے غریبوں کی حالت کو ٹھیک کرنے ، سڑکیں بنانے ، بجلی و گیس کے بحرانوں کے خاتمے، بہترین علاج ومعالجہ جدیدسفری سہولیات اورہر سال مُلک میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاو¿ کے لئے خرچ کردو تو مُلک بھی ترقی کرے اور قوم کی حالتِ زار بھی بہتر ہوجائے۔ مگرآج افسوس ہے کہ تمہیں تو اِن قرضوں کے عوض ملنے والے ڈالرزسے اپنی عیاشیوں اور قرضوں کی ادائیگیوں کے لئے قوم پرمہنگائی اور ٹیکسوں کے عذاب نازل کرنے سے ہی فرصت نہیں ہے توتم لوگ کیا قوم کی بہتری اور مُلک کی ترقی اور خوشحالی سے متعلق کچھ سوچو گے۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com