ہم آندھیوں کے بَن میں کسی کارواں کے تھے

Aandhi

Aandhi

ہم آندھیوں کے بَن میں کسی کارواں کے تھے
جانے کہاں سے آئے ہیں جانے کہاں کے تھے

اے جانِ داستاں! تجھے آیا کبھی خیال
وہ لوگ کیا ہوئے جو تری داستاں کے تھے

ہم تیرے آستاں پہ یہ کہنے کو آئے ہیں
وہ خاک ہو گئے جو ترے آستاں کے تھے

مل کے تپاک سے نہ ہمیں کیجیے اُداس
خاطر نہ کیجئے کبھی ہم بھی یہاں کے تھے

کیا پوچھتے ہو نام و نشانِ مسافراں
ہندوستاں میں آئے ہیں ہندوستاں کے تھے

اب خاک اُڑ رہی ہے یہاں انتظار کی
اے دل یہ بام و دَر کسی جانِ جہاں کے تھے

ہم سے چھِنا ہے ناف پیالہ تیرا میاں
گویا ازل سے ہم صنفِ لب تشنگاں کے تھے

صد یاد یاد جون وہ ہنگامہ دل کے جب
ہم ایک گام کے نہ تھے پر ہفت خواں کے تھے

جون ایلیا