ہر سال ویلنٹائن ڈے قریب آتے ہی موبائل کمپنیوں کی طرف سے ٹیکسٹ میسجز آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ اپنے چاہنے والوں کو پیار بھرا پیغام بھیج دیجئے، الیکٹرانک میڈیا پر اس دن کے حوالے سے تذکرے ہوتے ہیں، ڈرامے اور ٹیلی فلمز دکھائی جا رہی ہوتی ہیں اور خاص مہمان جوڑوں کو بلوایا جاتا ہے۔ ٹی وی چینلز پر اس دن کے حوالے سے خبریں کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں کہ ”ویلنٹائن ڈے پر نوجوان اپنی محبت کا اظہار اور ایک دوسرے کو پرپوز کرتے ہیں” جبکہ خبر کیساتھ جو فوٹیج دکھائی دیتی ہے اس میں لڑکے پھول لیئے لڑکیوں کے کالج کے باہر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ موبائل فون کمپنیاں اس دن کے حوالے سے نئی نئی ترغیبات دے کر اپنے صارفین کے بیلنس پر ہاتھ صاف کر رہی ہوتی ہیں جبکہ ٹی وی چینل والوں کو اپنے ناظرین کو بے وقوف بنانے کاایک اور موقع مل جاتا ہے۔ آخر ویلنٹائن ڈے کی کتنی حقیقت ہے کہ ہر سال دنیا بھر کے لوگ ایک پادری کی یاد میں اس دن کو بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ کیا دنیا میں یہی وہ پہلا شخص تھا جس نے محبت کے لیئے جان دی؟ شائد نہیں بلکہ ہماری اپنی تاریخ بھی ہیر رانجھا، شیریں فرہاد، سسی پنوں کی داستانِ محبت سے بھری پڑی ہے لیکن چونکہ مغرب میں چودہ فروری کو ویلنٹائن ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے اور ہم ٹھہرے مغرب کے پیروکار جو بنا سوچے سمجھے بڑے جوش اور جذبے سے اُن کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔ شائد ہم لوگ اپنے قومی تہوار بھی اس جوش و جذبے سے نہیں مناتے جیسے ویلنٹائن ڈے منا یا جاتا ہے۔ پچھلے چند برسوں سے ویلنٹائن ڈے کو اسلامی ممالک میں جس جوش و خروش سے منایا جا تا ہے اس سے ہماری ثقافتی اقدار کا تحفظ سخت خطرے میں پڑ گیا ہے۔ نوجوان نسل کے جوش و جذبے کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کوئی نہایت ہی معتبر اور ہردلعزیز تہوار ہے۔ اس روز آوارگی، اوباشی، بے حیائی، بے ہودگی اور فحاشی اپنے عروج پر ہوتی ہے جبکہ ہماری اسلامی اقدار و روایات مُنہ چھپاتی نظر آتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں رائج بہت ساری رسومات کا اسلامی مذہب سے قطعی تعلق نہیں ہے اور انہی رسومات میں سے ایک ویلنٹائن بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”آپ سے یہود و نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ اُن کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں۔” محبت کا جذبہ اتنا ارزاں نہیں ہے کہ کسی مخصوص دن ہی اس کا اظہار کیا جائے۔ اسلام ہمیں اللہ تعالی، اسکے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اور پوری انسانیت سے محبت کا درس دیتا ہے جس کے اظہار کے لیئے ہمارے پاس سال کا ہر دن اور ہر لمحہ موجود ہے اور یہ اظہار ویلنٹائن ڈے پر سرخ پھول اور تحائف دیکر نہیں بلکہ احکامِ الٰہی اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے سے ہوتا ہے۔ جو غیر مسلموں کا تہوار مناتے ہیں ان کا انجام روزِ حشر ان ہی اقوام کیساتھ ہوگا۔ مسلمانوں کو ویسے بھی یہ دن نہیں منانا چاہئے کیونکہ اس میں غیر مذہب کی تقلید موجود ہے جسے اسلام سختی سے منع کرتا ہے۔ اس وقت حکومت اور عوام دونوں ایک ہی ڈگر پر چل نکلے ہیں جس کا نتیجہ اخلاقی بگاڑ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس طرح کے تہوار وہ لوگ مناتے ہیں جن کی اپنی کوئی تہذیب یا ثقافت نہیں ہوتی لیکن الحمد اللہ ہماری تہذیب و ثقافت موجود ہے۔ ویلنٹائن ڈے جہاں ایک غیر مذہب کی ثقافت کو رواج دینے کی چال ہے وہاں نوجوان نسل کو بے حیائی کی طرف دھکیلنے کی ایک سازش بھی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم غیر مسلموں کے تہواروں کی تقلید کریں۔ قرآن کی رو سے اسلام ہی سچا دین ہے اور مسلمان قوم ہی دنیا کی دیگر اقوام سے ہر لحاظ سے افضل و برتر ہے لیکن افسوس کہ ہماری قوم کے اکثر افراد غیر مسلموں کی تقلید کرکے خود کو کمتر ثابت کر رہے ہیں۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم کس مذہب کے پیروکار، کس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت اور کس قوم سے وابستہ ہیں۔ ہمیں ہر معاملے میں صرف اور صرف اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھنا چاہئے اوراسلامی تہواروں کو خاص اسلامی طریقے سے منانا چاہئے۔ یہی ہمارے لیئے باعث فخر ہے نہ کہ بسنت اور ویلنٹائن جیسے غیر اسلامی تہواروں کو منانا اور فروغ دینا۔ ہمیں اپنا امتیاز، اپنی پہچان اور اپنا وقار قائم رکھنے کے لیئے ہر قسم کے غیر اسلامی تہواروں کو منانے سے گریز کرنا چاہئے۔ اگر اظہارِ محبت ہی کرنا ہے تو اپنے ماں باپ سے کیجئے، بچوں سے کیجئے، بہن بھائیوں سے کیجئے، اساتذہ سے کیجئے، ہسپتالوں میں پڑے بیماروں سے کیجئے، اپنے وطن سے کیجئے، اپنے اللہ اور رسول ۖسے کیجئے۔ محبت صرف یہی نہیں جس کا اظہار دو غیر محرم جنسوں کے درمیان ہو بلکہ محبت کے اور بھی بہت سے رُخ ہیں کبھی اس طرف بھی سوچئے! آج ہم اس دن کو ایک پادری اور اُس کی محبت کی یاد میں بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں جبکہ ہیر رانجھا، سسی پنوں، شیریں فرہاد کی داستانیں بھولتے جا رہے ہیں۔ میری معلومات کی حد تک ویلنٹائن ڈے کا آغاز شادی کے ارادے کو مضبوط بنانے کے لیئے کیا گیا تھا جسے بعد میں یومِ محبت کے لیئے خاص کر لیا گیا۔ اگر چودہ فروری کا دن منانا اتنا ہی ضروری ہے تو پھر اس کا نام بدل کر ”یومِ نکاح” رکھ لیں اور پھر شادی شدہ جوڑے اس دن کو یومِ محبت کے طور پر منائیں جبکہ غیر شادی شدہ افراد کی اجتماعی شادیاں ہوں۔تحریر: نجیم شاہ