اٹھارہ سو تہتر کی کساد بازاری نے مزدوروں کے حالات کو ناقابل برداشت حد تک سنگین بنادیا، بھوک و افلاس کا شکار مزدور روٹی، کپڑا اور مکان کے حصول کیلئے مظاہرے کرنے لگے، 8گھنٹے کی لیگ کے قیام سے امریکہ بھر میں تنظیموں کا وجود عمل میں آیااور 1880ء کے دوران یورپ ،شمالی اور لاطینی امریکہ، جاپان، آسٹریلیا و دیگر ممالک میں بھی مزدور اپنے حقوق کے تحفظ اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے سرگرم ہو گئے، 1882ء میں جاپان کی ٹراموے ورکرز کی ایک بہت بڑی ہڑتال ہوئی مزدور لیڈر ”گومبرس”نے دنیا بھر کے مزدوروں کو ایک ہو جائو مزدورو کا نعرہ دیا، اس کی فیڈریشن نے اجتماعی جدوجہد کے باقاعدہ آغاز کیلئے 1884ء میں ایک بڑا کنونشن شکاگو میں طلب کیا، اس موقع پر کی جانیوالی ہڑتال دنیا کی پہلی سب سے بڑی عام ہڑتال ثابت ہوئی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ یکم مئی1886ء سے مزدوروں کے اوقات کار 8گھنٹے مقرر کئے جائیں ، یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اس مطالبہ کو پورا نہ کرنے کی صورت میں یکم مئی 1886ء کو بھی عام ہڑتال ہو گی۔
اس منعقدہ کنونشن 1884تا 1886ء کے دوران امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ایک لاکھ سے زائد کارکنوں نے 22ہزار مختلف جگہوں پر3092ہڑتالیں ہوئیں جبکہ صرف امریکہ میں 5ہزار ہٹرتالیں کی گئیں، جن میں تقریباً 3لاکھ 50ہزار مزدور حصہ لے رہے تھے ، ماسکو میں 1885ء اور فرانس میں 1886ء میں ہونیوالی ہڑتالیں بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھیں مگر اس وقت کی حکومتوں نے مزدوروں کے ان مطالبات کو نہ تو کوئی اہمیت دی بلکہ مزدوروں کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے ہڑتالیںختم کرنے کیلئے ایسے اقدامات اٹھائے کہ جن سے مزدوروں کی اپنے حقوق کیلئے جاری پر امن تحریک اشتعال انگیزی کا شکار ہوتی چلی گئی، یکم مئی 1886ء میں ہڑتال کا آغاز اسکارپک ہاروسٹر کمپنی شکاگو سے ہوا ان دنوں شکاگو ایک بڑا صنعتی شہر ہونے کے باعث مزدور تحریکوں کا مرکزتھا یکم مئی کے اس مظاہرے میں 80ہزار مزدوروں نے حصہ لیا۔
سرمایہ داروں نے ہڑتال کو ناکام بنانے کیلئے روائتی ہتھ کنڈے استعمال کئے، مگر ہڑتال کئی روز تک کامیابی سے جاری رہی اور باٹی مور، واشنگٹن، نیویارک اور ہوسٹن جیسے بڑے شہروں میں لاکھوں مزدوروں نے سڑکوں پر آ کر احتجاجی مظاہرے کرنے کے ساتھ اپنے حقوق کیلئے جلوس نکالے، ان احتجاجی مظاہروں میں سرمایہ داروں اور حکومتی ایما پر پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی فائرنگ سے متعدد مزدور وں نے اس اہم کاز کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ دیاجبکہ سینکڑوں زخمی ہونیوالے مزدوروں کی بڑی تعداد فوری اور موثر علاج معالجہ نہ ہونے کے باعث معذوربھی ہوئے اس صورت حال کے باوجود سرمایہ دار اور حکمران مزدوروں کو حقوق کی فراہمی کیلئے قطعی تیار نہ تھے جو ان کی اس سوچ کی عکاسی تھی کہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی مزدور طبقہ انکے قریب کتنی اہمیت کا حامل ہے،تاہم استحصال زدہ مزدور طبقہ بھی کسی صورت اپنے حقوق کی جنگ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا، تیسرے روز یعنی 3مئی کو شکاگو میں لاکھوں مزدور احتجاجی اجتماع میں شریک تھے جنہیں منتشر کرنے کیلئے پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کر دی جس کی زد میں آکر 4مزدور ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
اس واقعہ کے خلاف بھی 4مئی کو یوم احتجاج منایا گیاجس کے اختتام پر ایک پولیس آفیسر نے وہاں پہنچ کر احتجاج ختم کرنے اور پرامن منتشر ہوجانے کا حکم دیا بات بنتی دیکھائی نہ دی تو پولیس کی طرف سے مبینہ طور پر احتجاجی اجتماع میں دستی بم پھینکا جس سے پولیس کا اپنا ہی ایک سپاہی مارا گیا بعد ازاں پولیس نے اس واقعہ کو جواز بنا کر مزدوروں کی پر امن ریلی پر فائرنگ کردی جس کے نتیجہ میں شکاگو کی سرزمین ان غریب محنت کش اور نہتے مزدوروں کے خون سے لہو رنگ ہو گئی جبکہ سینکڑوں مزدوروں کو گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا گیا، ستم بالائے ستم کہ اس واقعہ کی بھی ذمہ داری محنت کشوں پر ڈالتے ہوئے گرفتار شدہ 5مزدور رہنمائوںکو پھانسی اور دو کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، شکاگو کی جیل بے گناہ مزدوروں سے کچھا کھچ بھر گئی، دوران قید مزدوروں پر اس قدر وحشیانہ جسمانی تشدد کیا گیا کہ ایک مزدور تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا جبکہ درجنوں مزدور اپاہج ہو گئے، آجر اور اجیر کے درمیان جاری اس کشمکش میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں مگر ان کی قربانیوں نے مزدوروں کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھی۔
سانحہ شکاگو کی باز گشت پوری دنیا تک پہنچی اور دنیا بھر کے مزدوروں نے امریکی مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جس پر بعدازاں حکومت نے اپنے اٹھائے گئے مذموم اور پر تشدد اقدامات پر مزدوروں سے معافی مانگی اور مزدور رہنمائوں کو پولیس اہلکار کے قتل میں سنائی گئی پھانسی و عمر قید کے فیصلے واپس لے لئے، 1888ء میں ہونیوالی ایک یونین کانفرنس میں 8گھنٹہ یومیہ کام کرنے کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، 1889ء میں کانگرس نے یکم مئی 1890ء کو مزدوروں کے دن کو بین الاقوامی سطح پر منانے کا فیصلہ کیا ، اپریل 1890ء میں چیکو سلواکیہ میں 30ہزار سے زائد کارکن ہڑتال کا حصہ بنے اور تا دم تکمیل مطالبات تک یہ سلسلہ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا، 1890ء میں تاریخ عالم کا پہلا یوم مئی مزدور ڈے کے حوالے سے منایا گیا جس میں دنیا بھر کے لاکھوں مزدوروں نے حصہ لیا اور اپنے بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کیا اور اس وقت سے لیکر اب تک یہ دن دنیا بھر کے مزدوریکم مئی عزم اور حوصلہ کے ساتھ مناتے ہیں اس جدوجہد کے نتیجہ میں 1919ء میں آئی ایل او کا وجود عمل میں آیا، اوقات کار روزانہ 8گھنٹے مقرر کئے جانے کیساتھ ساتھ محنت کشوں کے بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حقوق بھی تسلیم کئے گئے۔
عالمی سطح پر مزدور اور محنت کش شکاگو کی مزدورتحریکوں میں ہلاک ہونیوالوں کی یاد میں یکم مئی کو لیبر ڈے کے طور پر منا کر نہ صرف اظہار یکجہتی کرتے ہیں بلکہ مزدوروں کے حقوق کی فراہمی کیلئے بھی شعور و آگہی فراہم کرتے ہیں ، یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک ہر سال یکم مئی کو ملک بھر کے مزدور ہر دور کی برسر اقتدار حکومتوں کے خلاف احتجاج کے طور پر مناتے آرہے ہیں جس کی بڑی وجہ مزدوروں کیلئے کوئی خاطر خواہ مراعات کی فراہمی و اقدامات کا نہ اٹھایا جانا ہے آج پاکستان کا مزدور دو وقت کی روٹی کیلئے مارا مارا پھر رہا ہے، غربت و افلاس کے باعث اجتماعی و انفرادی خود کشیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے، ہوشربا مہنگائی نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے، مفت تعلیم سمیت دیگر اقدامات کے دعوے مزدوروں کیلئے حکومتی طفل تسلیوں کے مترادف ہیں ، مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کئے جانے کی بجائے کئی کئی ماہ کی اجرت ہی ہڑپ کرلی جاتی ہے اور احتجاج کرنیوالوں کو نشان عبرت بنانے کیلئے ناصرف کام سے فارغ کردیا جاتا ہے بلکہ مختلف ہتھکنڈوں سے زباں بندی پر مجبور کیا جاتا ہے، محنت کش طبقہ کسی بھی دور میں حکمرانوں کی توجہ کا مرکز نہیں رہا، بلند و بانگ دعوے اور عوامی ریلیف کے وعدے کرنے والے حکمران مزدوروں اور محنت کشوں کے ووٹ کے حصول کے بعد انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑتے آئے ہیں جس نے مزدوروں میں نا امیدی اور مایوسی کو جنم دیا ہے، موجودہ حالات میں ہر مزدور بازبان شاعر یہ کہنے پر مجبور ہے کہ۔
صرف ست ہزار تنخواہ اے میری تاں سوچاں فکراں نے جند گھیری اوور ٹائم لان لئی گھردی کہندی ناں لگے تے کھان نوں پیندی اٹھ تو ںاٹھ پہلاں ای کرناں جین لئی میں روز ای مرناں بیگم کہندی ایویں مغز نہ کھا ہانڈی ٹکر ہن توں آپ پکا سوچناں بال میں کم تے پاواں اینی مہنگائی وچ کنج پڑھاواں شاپر دے وچ ویکھ کے آٹا شریکا ہسدا پے گیا اے گھاٹا ہٹیاں والے وی ہن کہندے پا پچھلا کھاتا پہلوں صاف کرا دس دن بعدای مہینہ آجاوے کرایہ دا سن پسینہ آجاوے سانوں وی اپنا گھر توں دے ربا! بھاویں اوہدے ڈگن لے ہر دم ٹینشن وچ میں رہندا کوئی نہ مینوں متھ کے بیہندا سجھ نئیں آئوندی جاواں کتھے ہن اپنا منہ لکاواں کتھے جتیاں کپڑے میں لینا بھل گیا غمی خوشی وچ بہینا بھل گیا بجلی دا بل ویکھ کے روواں غصے دے نال بوہا ڈھواں اتوں پانی دا وکھ ہوئے سیاپا چوکیدار وی منگے سو دا پاپا تنخواہ لئی ساحر ریلی تے کڈاں لبنی نئیں اگوں جے پچھلی چھڈا
غریب مزدور اور کسانوں کی پارٹی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی و چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو شہید نے یکم مئی 1972ء کو مزدوروں اور محنت کشوں کی معاشی سیکٹر میں اہمیت و کردار اور خدمات کے اعتراف میں یکم مئی لیبر ڈے کے سلسلہ میں عام تعطیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ مزدور اور کارکن ہماری ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور مزدور طبقہ طاقت و ترقی کا حقیقی سرچشمہ ہیں جسے مدنظر رکھتے ہوئے حکومت زراعت و صنعت کے شعبوں میں بنیادی اصلاحات لارہی ہے جن کا مقصد کارکن طبقے کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے ، آج خود کو مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار پی پی پی کی حکومت ہے جو اپنے دور اقتدار کے پانچویں آخری بجٹ کی تیاری کررہی ہے۔
مگر افسوس صد افسوس کہ ایک طرف حکومتی پلیٹ فارم سے مزدوروں کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات اٹھائے نہیں گئے تو دوسری طرف ملک کی اکثریتی صنعتیں اور کارخانے بند ہونے اور فیکٹریوں میں مزدوروں کیلئے روزگار کے مواقع بہت کم میسر ہونے کے باعث مزدوروں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑچکے ہیں، کیا فائدہ ایسی حکومت کا جس میں محنت کش اور مزدور طبقہ غربت و افلاس کی وجہ سے خود کشیوں پر مجبور ہے ، البتہ موجودہ حکمرانوں سے مہنگائی کو کم کرنے اورمزدور طبقہ کو در پیش مسائل کے حل کی امید تو دیکھائی نہیں دیتی مگر پھر بھی اپیل ہے کہ 18کروڑ عوام کیلئے اس بجٹ کو پہلا اور آخری سمجھتے ہوئے یادگار بناجائیں تاکہ اگر جینا آسان نہیں کرسکتے تو کم از کم مرنا ہی آسان کر دیں۔