پاکستان کو بچانے اور اس کی سالمیت کا دفاع کرنے کا ایک ہی سنہری اصول ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر شخص کو آئین ، قانو ن اور انصاف کے ترازو میں تولا جائے اور ایسا کرتے وقت کسی سے کوئی رو رعائت نہ برتی جائے۔ہر وہ شخص جو گناہ گار ثابت ہو جائے اسے اس کے گناہوں کے مطابق سزا دی جائے تا کہ کسی دوسرے کو جرم و گناہ کا ارتکاب کرنے کی ہمت نہ ہو سکے۔٢٦ نومبر کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے دوران ٢٦ جوانوں کی شہادت ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے جس سے صرفِ نظرنہیں کیا جا سکتا۔اگر ہماری چیک پوسٹوں پر اسی طرح کی جارحانہ کاروائیاں ہوتی رہیں تو بھر بحثیتِ قوم ہماری غیر ت و حمیت خا ک میں مل جائے گی اور ہم ایک خودار اور آزاد قوم کی حیثیت سے دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟کیا ہم اپنے دفاعِ وطن سے غا فل تھے یا جن لوگوں کو یہ اہم فریضہ سونپا گیا تھا انھوں نے اس میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے؟یہ بھی ممکن ہے کہ ہم نے اپنے طور پر یہ فرض کر لیا تھا کہ ہماری مضربی سرحدیں محفوظ ہیں اور ہمیں وہاں سے کسی قسم کی جارحیت کا کوئی شائبہ نہیں ہے لہذا میٹھی نیند سو لیا جائے۔ پاکستانی قوم جاننا چاہتی ہے کہ دفاعِ پاکستان کا ذ مہ دار کون ہے؟ کیا فوج کا کام ملکی سر حدوں کی حفا ظت کرنا نہیں ہے ؟ اگر واقعی یہ ان کا کام ہے تو پھر دفاعِ وطن سے غفلت کی سزا بھی تو ہوتی ہے ۔ کیا دفاعِِ وطن سے غافل ہونا غداری کے جرم کا ارتکاب نہیں ہے؟ حقیقت کچھ بھی ہو ہمیں اس واقعے کے تمام پہلو ئوں کا جائزہ لے کر ذ مہ داروں کا تعین کرنا ہو گا تا کہ خطا کاروں کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔٢ مئی کو بھی امریکہ نے ایبٹ آباد میں ایک اپریشن کیا تھا اور اسامہ بن لادن کو قتل کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ کراچی نیول بیس پر حملے بھی اسی سال کے واقعات ہین جس میں ہماری فوجی قیادت کو ہزیمت اٹھا نی پڑ ی تھی ۔ دفاعِ پاکستان کے تناظر میں حا لیہ دنوں میں فوجی قیادت عوامی توقعات پر پوری نہیں اتر رہی۔ اس کی وجہ اگر یہ ہے کہ فوجی جنتا دفاعِ وطن سے زیادہ سیاسی معاملات میں دلچسپی لے رہی ہے اور جمہوری حکومتوں کی الٹ پلٹ میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کر رہی ہے تو فوجی جنتا کو اپنے اس کردار پر غور کرنا ہو گا ۔ ملکی معاملات چلانا سیاست دانوں کا کا کام ہے اور فوجی جنتا کو چائیے کہ وہ انھیں یہ کام آزادی کے ساتھ سر انجام دینے دے ۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا اور اس ملک کی سالمیت کا دفاع کرناہے اور یہی فریئضہ انہیں سر انجام دینا ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا فوجی جنتا اپنے ان پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری میں سر خرو ہے؟ یہ ایک انتہائی بہت اہم سوال ہے کیونکہ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی بقا اور جمہوریت کا دارو مدار ہے۔۔
میمو گیٹ کے حوالے سے منصور اعجاز کی پریس کا نفرنس نے بہت سے اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔اس نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ فوجی جنتا اور جنرل احمد شجاع پاشا نے مئی میں ھکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کر لیا تھا ار اس سلسلے میں اس نے عرب ریاستوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا تھا لیکن بعد میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جس سے جنرل پاشا نے اپنا یہ منصوبہ بدل دیا اور اور حکومت کو کمزو کرنے اور س پر اپنے فیصلے تھوپنے کی نئی پالیسی کا آغا ز کر دیا۔ حکومت اس وقت مختلف بحرانوں کی زد میں ہے اور وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی پرا سمبلی توڑنے کا سخت دبائو ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی اس دبائو کو داشت کر لیں گئے یا جرنیلی ہدایات پر وہ کچھ کر گزریں گئے جس سے جمہوریت مزید کمزور ہو جائے گی اور اس پر وہ کاری وار ہو جائے گا جس کا فوجی جنتا منصوبہ بنا کر بیٹھی ہوئی ہے ۔ابھی حکومت اس دبائو سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہ کہہ کر کہ میمو گیٹ ایک حقیقت ہے اور اس میں میں ایسے شواہد موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت ملک کے خلاف ایک سازش کر رہی تھی پوری فضا کو مکدر کر دیا ہے۔کیا آرمی چیف کو ایک منتخب حکومت کے خلاف اس طرح کا عدالتی انداز اپنانے کا اختیار حاصل ہے ؟ آرمی چیف جنرل اشفاق پر ویز کیانی کی طرف سے اس طرح کا بیان حکومت کیلئے بلیک وارنٹ سے کم نہیں ہے۔ معاملہ عدالت اور پارلیمانی کمیٹی کے روبرو ہے لہذا کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس معاملے پر اپنا فیصلہ صادر فرما کر اس کی کاروائی پر اثر انداز ہو۔ میمو گیٹ پر فیصلہ کرناعدلیہ اور پار لیمانی کمیٹی کا کام ہے لیکن آرمی چیف جنرل اشفاق پر ویز کیانی کا بیان لوگوں کے شکوک و شبہات کو تقویت دینے کا باعث بنا ہے جو کہ انصاف کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ہے،۔ جب تک میمو گیٹ پر عدلیہ اور پار لیمانی کمیٹی کوئی حتمی فیصلہ نہیں دے دیتی سب کو اپنی اپنی رائے سے اجتناب کرنا چائیے۔۔ ساری دنیاجانتی ہے کہ خارجہ امور اور دفاعی امور مکمل طور پر آرمی کے کنٹرول میں ہیں اور ان میں میں حکومت کی رائے بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے سارے اہم فیصلے آرمی چیف جنرل اشفاق پر ویز کیانی خود کرتے ہیں اور اس میں حکومت بالکل مداخلت نہیں کرتی اور اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آرمی چیف کے اشاروں پر تیار ہوتی ہے توبے جا نہ ہوگا۔وقت آگیا ہے کہ حکومت خا رجہ امور کے فیصلے خود کرے تا کہ حکومتی پالیسی سازی میں فوجی مداخلت کے امکانات کم سے کم تر ہو تے جائیں ۔ شروع شروع میں حکومت کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن آخرِ کار حکومت فوجی جنتا کے خوف کے سائے سے باہر نکل آئے گی جو کہ جمہوری رویوں کی مضبوطی کی غماض ہو گی۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کسی ایک حکومت کو اس ضمن میں پہل کرنی ہو گی۔ عوامی جماعت ہو نے کے ناطے پی پی پی کو اس کا آغاز کرنا ہو گا اور اس مشکل کام کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گا۔اسٹیبلشمنٹ کی جماعتوں سے اس کارِ خیر کی توقع رکھنا بنجر زمین میں فصل اگانے کی آس لگانے کے مترادف ہو گا۔ان سیاسی جماعتں کی تو ساری سیاسی زندگی فوجی جنتا کی نرسری سے شروع ہو کر وہی پر ختم ہو جاتی ہے۔فوجی جنتا ہی انھیں سیاست میں لاتی ہے اور وہی انھیں اقتدار کے ایوانوں میں اہم رول بھی عطا کرتی ہے۔ ایسے سیاست دانوں کی عوام میں پذیرائی نہ ہونے کے برابر ہو تی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے سہاروں پر سیاسی رول ادا کرنے والے یہ سیاستدان فوجی جنتا سے کہاں الجھ سکتے ہیں۔ فوجی جنتا کے نام پر تو ان کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں لہذا ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ آزادا نہ خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھیں گئے احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہو گا۔پی پی پی ایک ترقی پسند جماعت ہے اور عوامی جذبات و احساسات کی حقیقی ترجمان ہے لہذا اس مشکل کام کو کرنے کا مشکل فریضہ اسے ہی انجام دینا ہو گا اور وہ یہ کام بخوبی کرسکتی ہے کیونکہ اس کی تاریخ عوانی حقوق کی جنگ لڑتے ہو ئے گزری ہے۔ پارلیمنٹ میں ساری جماعتوں کی نمائندگی ہو تی ہے لہذا ان کی سفارشات کی روشنی میں جو بھی خا رجہ پالیسی تشکیل پائے گی وہ قومی امنگوں کی ترجمان ہو گی اور فو جی جنتا کے اثر سے آزاد ہو گی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ پی پی پی اپنے اس مشن میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر آتی ہے اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے لہذا اسے ہی قانون سازی اور پالیسی سازی کا مکمل ا ختیار ہوتا ہے ۔ ریاست کے تمام ادارے اپنی اپنی حدود و قیود میں رہ کر حکومت کی معا ونت کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں لیکن پالیسی سازی کا اختیار انھیں بالکل نہیں ہو تا پالیسی بنانا پارلیمنٹ کا کام ہوتا ہے۔ وزیرِ اعظم پارلیمنٹ کی اکثریت کا منتخب نما ئندہ ہونے کی حیثیت سے فیصلے کرنے کا مجاز ہو تا ہے۔ وہ ایک کیبٹ تشکیل دیتا ہے جو کہ فیصلوں میں اس کی معاونت کرتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹیاں مختلف معاملات میں حکومت کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں اور ان کی پیش کردہ تجاویز پر فیصلے کرنے کاکلی اختیار وزیرِ اعظم کے پاس ہوتا ہے جو اپنے فیصلوں کو کیبنٹ کے ذریعے رو بعمل لاتا ہے۔ وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی اس لحاظ سے منفرد حیثیت کے مالک ہیں اور پاکستانی تاریخ میں وہ پہلے وزیرِ اعظم ہیں جو بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں اور جن پر پوری پا رلیمنٹ نے اظہارِ اعتماد کیا ہے ۔ پورے ہائوس کے اعتماد کی وجہ سے ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ ساری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مفاہمانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کریں تاکہ ہر جماعت یہ محسوس کرے کہ وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی انھیں اعتماد میں لے کرفیصلے کرتے ہیں۔ ابھی تک کی وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی ڈپلومیسی تو یہی رہی ہے کہ انھیں جب بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ اپوزیشن کو اعتماد میں لے لیتے ہیں جس کا بھر پور مظاہرہ آل پار ٹیز کانفرنس میں دیکھا گیاتھا ۔ امریکی جارحیت کے خلاف پوری قوم کی امنگوں کی وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جس موثر انداز سے ترجمانی کرکے بون کانفرنس کا با ئیکاٹ کیاوہ قابل ستائش ہے ۔شمسی ائر بیس کا امریکی فوجوں سے خالی کروانا ایک ایسا بڑا واقعہ ہے جس پر وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو داد و تحسین سے نوازا جانا انتہائی ضروری ہے۔ کئی سالوں کے انتظار کے بعد شمسی ائر بیس پر پاکستانی پرچم کو لہر اتے دیکھ کر قوم کی شادمانی اور مسرتو ں کا اندازہ لگا نا چنداں دشوار نہیں ہے۔ شمسی ائر بیس کو خالی کروانا بڑے د ل گردے کا کام تھا اور وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے واقعی ایسا کر کے بڑی جرات کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے پوری قوم ان کی صلاحیتوںکی معترف ہو گئی ہے۔ نیٹو سپلائی کی بندش سب سے مشکل کام تھا لیکن موجودہ حکومت نے یہ ناممکن کام بھی کر دکھایا ہے۔ امریکہ اور اس کئے حواریوں کیلئے حکومت کا یہ انداز بالکل نیا اور غیر متو قع تھا جس کی انھیں بہت تکلیف ہو رہی ہے ۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کو ان کی اوقات یاد دلا نے کے لئے نیٹو کی سپلائی روکنا انتہائی ضروری تھا تا کہ مستقبل میں وہ ہماری سرحدوں پر سلالہ چیک پوسٹ جیسی بزدلانہ کاروائی کرنے کا تصور نہ کر سکیں ۔ پاکستان سب کچھ بر داشت کر سکتا ہے لیکم اپنی خوداداری اور غیر ت کا سودا نہیں کر سکتا اور وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے حالیہ اقدامات نے پاکستانیوں کے انہی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے دل جیت لئے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اسی وزیرِ اعظم کو توہینِ عدالت کے الزامات کا سامنا ہے جس سے موجودہ حکومت کی بے بسی کا با آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔طارق حسین بٹ