سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان کا یو اے ای میں سفیرِ پاکستان کی حیثیت سے تقرر اکتوبر 2010میں ہوا تھا اور یوں یو اے ای میں بسنے والے بارہ لاکھ پاکستانیوں کا مقدر ان کی ذ ات کے ساتھ منسلک کر دیا گیا تھا۔ انھوں نے اس تعلق کو کس انداز میں نبھا یا ،انھیں کون سی ٹھوس بنیادیں فراہم کیں اور کمیونیٹی کیلئے کون سے کار ہا ئے نمایاں سر انجام دئے جن کی بدولت وہ کمیونیٹی کی آنکھوں کا تارا بن گئے میری آج کی تحریر کا بنیادی نکتہ ہے ۔ سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان بے پناہ پناہ علمی وجاہت، جراتمندی ،فکرو دانش اور اور ذہانت کے مالک ہیں۔ علم و ادب سے انکی محبت اور شعرو سخن سے انکی وابستگی اس بات کی بین دلیل ہے کہ تصورِ جاناں سے انکا دل اب بھی دھڑکتا ہے اور وہ شعر کی لطافتوں سے بھر پور لطف اٹھاتے ہیں۔ انسانیت کا درد، اس کا احساس، اس کا احترام اور انسان دوستی کے اعلی و ارفع جذبات کی خوشبو ان کے لہو میں رچی بسی ہے جو انھیں محبوبِ خلائق کی مسند پر جلوہ افروز ہو نے میں انکی معاونت کرتی ہے۔
اپنے انہی بے مثال جذبوں کی مکھ وکھائی اور لاج رکھنے کیلئے انھوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں اور او صافِ حمیدہ سے کمیو نیٹی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کا آغاز کیا ایک مختصر سے عرصے میں کمیونیٹی کو در پیش مسائل سے چھٹکارا د لوا کر اپنے بہترین منتظم ہو نے کا ثبوت دیا۔ مجھے سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان کی تعینا تی کے ا بتدا ئی ایام میں انھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا۔ اگر چہ ان سے میری ملاقاتوں کا ایک بڑا طویل سلسلہ ہے جو تا حال جاری ہے لیکن ان سے میری پہلی ملاقات نے ان کی شخصیت کے حوا لے سے جو انمٹ نقوش میرے ذہن پر نقش کئے تھے وہ انتہائی دلکش،خو شنما اور گہرے تھے۔ میرے انہی خیالات نے ان کے بارے میں مجھے غیر جانبدارانہ رائے قائم کرنے میں میری راہنمائی فرمائی تھی۔
اپنے انہی بے مثال جذبوں کی مکھ وکھائی اور لاج رکھنے کیلئے انھوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں اور او صافِ حمیدہ سے کمیو نیٹی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کا آغاز کیا ایک مختصر سے عرصے میں کمیونیٹی کو در پیش مسائل سے چھٹکارا د لوا کر اپنے بہترین منتظم ہو نے کا ثبوت دیا۔ مجھے سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان کی تعینا تی کے ا بتدا ئی ایام میں انھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا۔ اگر چہ ان سے میری ملاقاتوں کا ایک بڑا طویل سلسلہ ہے جو تا حال جاری ہے لیکن ان سے میری پہلی ملاقات نے ان کی شخصیت کے حوا لے سے جو انمٹ نقوش میرے ذہن پر نقش کئے تھے وہ انتہائی دلکش،خو شنما اور گہرے تھے۔ میرے انہی خیالات نے ان کے بارے میں مجھے غیر جانبدارانہ رائے قائم کرنے میں میری راہنمائی فرمائی تھی۔
سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان نے جس زمانے میں سفارت کی ذمہ داریاں سنبھالیں اس زمانے میں حکومتِ پاکستان نے کمپیو ٹرازڈ پاسپورٹ بنا نے کا اعلان کر رکھا تھا لہذا مینول(دستی) پاسپورٹ پر مڈل ایسٹ کے کسی بھی ملک میں ویزہ نہیں لگتا تھا۔اس نئے قانون کی وجہ سے سفارت خانوں پر بے شمار رش ہو تا تھا کیونکہ سینکڑوں پاکستانی ہر روز اس قانون کی زد میں آتے تھے اور انھیں ویزہ لگوانے کیلئے نئے پا سپورٹ کی ضرورت ہو تی تھی جو ان کے پاس نہیں ہو تا تھا۔ ایک ہنگامہ تھا جو یہاں یو اے میں برپا تھا اور جس سے پاکستانی کمیونیٹی بری طرح سے متا ثر ہو رہی تھی۔ یو اے ای میں پاکستانی ایمبیسی جس زمانے میں تعمیر کی گئی تھی اس زمانے میں یہاں پاکستانیوں کی تعدادپانچ لاکھ سے کم ہو تی تھی لیکن اب بارہ لاکھ افراد کی آبادی کیلئے بھی وہی ایمبیسی ہے جو ماضی میں پانچ لاکھ افراد کی تعداد کو پیشِ نظر رکھ کر تعمیر کی گئی تھی۔اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ پاکستانیوں کو لمبی لمبی قطاریں بنا کر ایمبیسی کے باہر کھڑا ہو نا پڑتا تھا اور ایساروز کا معمول تھا۔ چھوٹے موٹے جھگڑے بھی ہو جاتے تھے کیونکہ سارا دن قطاروں میں کھڑ ے رہنے کی وجہ سے کچھ لوگوں کی باری نہیں آتی تھی اور انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
ستم بالائے ستم یہ کہ انھیں اگلے دن پھر اسی مشقت سے گزرنا پڑتا تھا۔ کچھ لوگ سحری کے وقت پاکستان ایمبیسی کے باہر آ کر ڈیرے ڈال لیتے تھے تا کہ انھیں پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے حصول میں مزیدتا خیر کا سامنا نہ کرنا پڑے۔بہر حال یہ ایسا منظر تھا جس نے سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان کو سخت پریشان کر رکھا تھا ۔ وہ پاکستانیوں کے سر پرستِ اعلی تھے اور ان کے سامنے کمیونیٹی کا ایسا حشر ہو رہا تھا جسے کوئی بھی ذ ی ہوش انسان برداشت نہیں کر سکتا لہذا سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان جیسی مشفق ہستی کیلئے اسے برداشت کرنا کہاں ممکن تھا۔
سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان نے اس اذیت سے نکلنے کیلئے نئے ہال کی تعمیر اور مزید سٹاف بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ۔انھیں اپنی راہ میں حا ئل مشکلات کا بخو بی اندازہ تھا لہذا سرخ فیتے کی فنکاریوں اور بیو و کریسی کی چالوں ے بچنے کیلئے انھوں نے خود اسلام آباد کے کئی چکر لگائے اور اپنے مجوزہ منصوبے پر متعلقہ حکام کی منظو ری حاصل کر کے اسے ایک مختصر مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچا یا۔ اب ایمبیسی میں لمبی لمبی قطاریں ختم ہو چکی ہیں۔ کڑھی دھوپ میں کھڑے رہنے کا اذیت ناک دور ختم ہو چکا ہے اور اب ہر پاکستانی ایمبیسی میں نہائت عزت و احترام سے اپنے پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور دوسری متعلقہ دستا ویزات بڑی آسانی اور سہولت سے بنوا سکتا ہے۔
پوری پاکستانی کیمیونیٹی سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان کی کاوشوں کو انتہائی استحسان کی نظر سے دیکھتی ہے اور انکی بے پایاں محبت پر ان کی ممنون و مشکور ہے۔ہال کی تعمیر اور سٹاف میں اضافے کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایمیسی کے سٹاف کو انتہائی مستعد کر دیاہے ۔ہر شخص کو جوابدہی کا پابند کر دیا گیاہے ۔ عوام کی خدمت اور ان کا احترام ایمبیسی کا نیا ما ٹو ٹھہراہے ۔سٹاف کیلئے لباس کا نیا کوڈ متعارف کروایا اور پابندیِ وقت اور ڈسپلن کو خصوصی اہمیت دی گئی جس سے ایمبیسی کا سارا ما حو ل یکسر بدل کر رہ گیا ہے ۔ انھوں نے خیبر ٹی وی پر سوا ل وجواب کے نئے اور منفرد پروگرام کاغاز کیا ۔ یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام ہے جس میں ایمبیسی کا سٹاف سوالات کے جوابات دیتا ہے ۔ اس پروگرام کیلئے ایمبیسی سٹاف نے جسطرح سے خود کو تیار کیا کوئی معمولی بات نہیں تھی ۔ سوال و جواب کے اس پروگرام نے سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان کو لوگوں کے مسائل کو بہتر انداز سے سمجھنے اور ان کے حل میں بڑی معاونت کی اور بہت سے ایسے گوشے ان پر بے نقاب ہوئے جن سے وہ پہلے آگاہ نہیں تھے۔
سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اانھوں نے زرِ مبادلہ کی ترسیل میں زبردست اضافہ کیا۔ اِس وقت یو اے ای زرِ مبادلہ بھیجنے والے ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پہلا نمبر سعو دیہ عرب کا ہے لیکن زرِ مبادلہ کی ترسیل میں ان دونوں ممالک کی ترسیل میں بڑا معمولی فرق ہے جو بہت جلد ختم ہو جائیگا۔سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان نے اس عزم کا کئی دفعہ اظہار کیا ہے کہ وہ یو اے ای کو پہلے نمبر پر لا کر دم لیں گئے اور زرِ مبادلہ کی ترسیل میں انھوں نے جس انداز سے اضافہ کیا ہے اس کے پیشِ نظر یہ بات یقینی ہے کہ وہ یہ ہدف جلد حاصل کر کے چھوڑیں گئے۔سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان نے ایمبیسی کے دروازے ہر پاکستانی کے لئے مکمل طور پر کھول دئے ہیں اور ان کی پوری ٹیم دل و جان سے کمیو نیٹی کی خدمات کیلئے خود کو وقف کئے ہو ئے ہے۔
سابق سفیرِ پاکستان خورشید احمد جو نیجو نے جس نئی عوامی روش کا آغاز کیا تھا سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان نے اس کو نئے افق عطا کئے ہیںاور کمیونیٹی کو یہ باور کروا دیا ہے کہ پاکستامی ایمبیسی ان کا اپنا گھر ہے اور ایمبیسی کا سارا سٹاف ان کی خدمت کے جذبوں سے سرشار ان کے مسائل کے حل کیلئے ہمہ وقت چوکس اور مستعد ہے ۔مجھے جب بھی ایمبیسی جانے کا اتفاق ہوا ایمبیسی کے ہر فرد نے مجھے اپنی بے پایاں محبت سے نوازا اور باہمی احترام کا بے مثال مظاہرہ کیا اور یہ سب کچھ میرے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے انکا یہ رویہ ہر پاکستانی کے ساتھ ایسا ہی ہے۔ سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان کی بے لوث محبت کا یہی دلنشین انداز ہے جو خوشبو بن کریو اے ای کی فضائوں کو معطر کر رہا ہے۔
سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک فوجی آفیسر سے کیا لیکن جلد ہی فوج سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔انھوں نے پھر پولیس فورس کو جوا ئن کیا اور اس میں کافی عرصہ تک اپنی خدمات سر انجام دیں۔اقوامِ متحدہ کے زیرِ کمان امن فورس میں بھی اپنی خدمات پیش کیں اور اپنی انتھک محنت اور لگن سے پاکستان کے نام کو ہر جگہ روشن کیا۔ انھیں لیبیا میں سفیرِ پاکستان کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے کا بھی اعزاز حاصل ہے جو انکے و سیع تجربے، مشاہدے اور فہم و فراست کا غماز ہے۔ مختلف ممالک کے ساتھ معاہدات کروانے میں انھوں نے حکو متِ وقت کی جسطرح سے معاونت فرمائی اسے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور انکی اسی حب الوطنی کی سوچ نے ستارہ امتیاز میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ۔ انھیں ادب سے بے پناہ محبت ہے جو انکے خطاب کے دوران محسوس کی جاتی ہے۔ انھیں خطاب میں ایک خاص ملکہ حاصل ہے اور اپنے دلکش، شستہ اور جاندار خطاب کو وہ خوبصورت اور بر محل اشعار سے مزین کر کے مزید پر کشش بنا دینے کا فن خوب جانتے ہیں۔ انکا اندازِ بیان نتہائی پر اثر اور دلنشین ہوتا ہے جسے سامعین انتہائی دلچسپی اور محویت سے سنتے ہیں۔
وہ اپنی تقریر میں احمد فراز کا ایک شعر اکثر و بیشتر دہراتے ہیں جو وطن سے انکی محبت اور دلی کیفیات کا آئینہ دار ہے اور قوم کو سرا پا با عمل بن جانے کی ترغیب دیتا ہے۔
شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا ۔۔ اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتیصدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی علالت کے دوران انھوں نے بڑی مستعدی سے اپنے فرائض سر انجام دئے ۔ انھیں روزانہ ابو ظبی سے دبئی جانا پڑتا تھا لیکن وہ عیادت کیلئے بڑی برق رفتاری سے دبئی پہنچ جاتے تھے۔ایک ایسی ہی شب جب میں اپنے دوستوں میاں منیر ہانس،میاں عابد علی اور شیخ واحد حسن کے ساتھ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی عیادت کیلئے دبئی ہسپتال میں موجود تھا تو سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان نے جسطر ح میرا تعارف کروایا اسے میں کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔
سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان کی شخصیت نفاست، خوش لباسی،خوش مزاجی، خوش اخلاقی اور شیریں کلامی کا حسین مر قع ہے۔ ان میں انسان دوستی،احترامِ انسانیت ،وطن کی محبت اور جمہوریت پر یقینِ محکم کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور یہ ساری خویباں باہم مل کر انکی شخصیت کی دل کشی میں چار چاند لگا دیتی ہیں اور ان پر بے اختیار پیار آنے لگتا ہے۔ انکی انہی خوبیوں اور خصائص کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے انھیں ستارہِ امتیاز کے اعزاز سے نوازا ہے جس پر یو اے ای کی پوری پاکستانی کمیونیٹی انتہائی فخر محسوس کرتی ہے۔ یو اے ای کی تاریخ میں وہ پہلے سفیر ہیں جو اس اعزاز سے سرفراز کئے گئے ہیں۔ آخر میں ایک رباعی پیش کر رہا ہوں جو انکی شخصیت کا مکمل احاطہ کر رہی ہے امید ہے آپ اسے شرفِ قبولیت بخشیں گئے۔تحریر : طارق حسین بٹ