پانچ فروری کا دن اپنئے دامن میں ایک ایسی خونچکاں داستان لئے ہو ئے ہے جس کے ہر ایک صفحے پر خون کے دھبے ہیں، سفاکیت اور جبر و ستم کی لکیر یں ہیں ،بے گناھوں کی آہیں اور سسکیاں ہیں، مائوں،بہنوں اور بیٹیوں پر نہ ختم پہونے والی ایسی پر تشدر روداد ہے جو ہر انسان دوست کے سینے میں زہر آلود خنجر کی مانند پیوست ہو چکی ہے۔ تقسیمِ ہند کے فارمو لے کے مطابق مسلم اکثریتی صوبوں کے علاقے پاکستان میں شامل ہو نے تھے اور ہندو اکثریت کے علاقے بھار ت میں شامل ہو نے تھے ۔اس فارمولے کے تحت کشمیر چونکہ مسلم اکثریت علاقہ تھا لہذا اس لا الحاق پاکستان کے ساتھ بنتا تھا لیکن کشمیر کے مہا راجہ گلاب سنگھ نے بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہروسے ایک سازش کے تحت کشمیریوں کی خواہش اور تقسیمِ ہند کے فارمو لے کے بر خلاف کشمیر کا الحاق بھارت سے کرنے کے اعلان کر کے کشمیر کو ایک ایسی آگ میں دھکیل دیا جو آج تک سرد نہیں ہو سکی اور جسکا ایندھن ہزاروں انسانی جانیں بن چکی ہیں۔٥ فروری ١٩٤٨ میں بھا رت نے اپنے جا ر حانہ عزا ئم کی تکمیل اور تو سیع پسندانہ عزا ئم کے حصول کی خا طر کشمیر میں فو جیں بھیج کر اس پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ۔ وادی کے لوگ بھا رت کے اس غا صبانہ قبضے کے خلاف سرا پا احتجاج بن گئے ۔ وہ پچھلے کئی عشروں سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں لا کھو ں لوگ شہید ہو چکے ہیں لیکن بھا رت کشمیر یو ں کی یہ آواز سننے کیلئے با لکل تیار نہیں ہے۔ آجکل مقبو ضہ کشمیر میں ایک دفعہ پھر آزادی کی تڑپ نے پو ری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ بھا رتی فوج سنگینو ں کے سا ئے میں کشمیر یو ں کی جدو جہدِ ِ آزا دی کو کچلنے میں مصروف ہے لیکن آزا دی کی یہ تڑپ ایک جوا لہ مکھی کا روپ اختیار کرتی جا رہی ہے جسے پو ری دنیا محسوس کر رہی ہے۔نہتے نوجوانوں کے گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال ایا گیا اور بہت سے حریت پسندوں کی زندگی کے چراغ گل کئے گئے تاکہ آزادی کی یہ لہر کسی طرح سے کم ہو سکے لیکن ایسا ہو نہیں سکا کیونکہ آزادی کی تحریکیں یوں دم نہیں توڑا کرتیں۔ آزاد میڈیاکے اس دور میں لوگو ں کو اپنی خواہشات کا غلام بنا نا اور ان پر ریاستی جبر سے حکومت کرنا اب ممکن نہیں رہا ۔ لوگوں کو سنگینوں کے سائے میں ڈرانے اور دھمکا نے کا انداز بے اثر ہو چکا ہے ۔آہنی شکنجے میں مخالفین کو تہس نہس کرنے کی روائیت کا دور قصہِ پارینہ بن چکا ہے۔ریاستی امور کو سفاکیت کی روش سے چلانے کا نداز فرسودہ ہو چکا ہے ،جنو نیت کا خناس دم توڑتا جا رہا ہے اور دنیا میں ایسے جمہو ری دور کا آغاز ہو چکا ہے جس میں عوامی رائے کی قوت و اہمیت کو تسلیم کئے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔دنیا کی سب سے بڑی جمہو ر یت کا راگ الا پنے وا لا بھارت کشمیر یوں ں کو سنگینو ں کے سائے میں رکھنے کی انو کھی راہ کا انتخا ب کئے ہوئے ہے لہذا سکے جمہو ریت پسند ی کے سب دعو ے ملمع سازی کے علا وہ کچھ نہیں بھی نہیں ہیں۔ اس نے ایک ایسا سوانگ بھرا ہوا ہے جس میں صدا قت کا ہلکا سا بھی شا ئبہ نہیں۔ دنیا ا س وقت ایک گلو بل ویلج میں تبدیل ہو چکی ہے لہذا دنیا کے کسی بھی کو نے میں رو نما ہو نے والے واقعات چشمِ زدن میں پو ری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ آ ج کے آزاد میڈیا کا کمال یہ ہے کہ اب عوام کو ریا ستی جبر سے دبا نے اور اپنی سفا کیت کو چھپا نے کے سارے امکا نات با لکل معدوم ہو چکے ہیں ۔ جب یہ با ت ا ٹل ہے کہ اب دنیا کا کو ئی بھی ملک اپنی عوام کو اپنی جا برانہ خو اہشات کا غلام نہیں بنا سکتا تو پھر بھا رت کشمیر یو ں کو ریا ستی جبر کا غلام بنا نے جیسے گھ نا ئونے کھیل میں کیسے فتح یاب ہو سکتا ہے؟ مشرقِ وسطی کے حالیہ واقعات حریت پسندوں کے لئے روشنی کی مانند ہیں جو انھیں حوصلہ عطا کر رہے ہیں کہ عوامی قوت سے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور اپنے حقوق کا حصول ممکن بنا یا جا سکتا ہے۔یہ انقلابات در حقیقت ایک ایسا انوکھا واقع ہیں جو آزادی کی تحریکوں کو نیا جذبہ عطا کررہے ہیں اور محکومی کی زنجیروں کو کاٹنے کیلئے حریت پسندوں کو ہمت و جرات عطا کررہے ہیں اور ان میں اس احساس کو ابھار رہے ہیں کہ عزمِ مصمم قربا نیوں بغاوت اور جہدِ مسلسل سے آزادی کو یقینی بنا یا جا سکتا ہے۔ کشمیری پچھلے کئی عشروں سے بھا رتی ظلم و ستم کے سامنے سینہ سپر ہیں، آزادی کی عظیم جنگ کا ایک ایک ورق اپنے لہو کی سرخی سے لکھ رہے ہیں، عظیم قربا نیوں کی نئی داستان رقم کر رہے ہیں، شمعِ آزادی کو اپنے لہو سے سینچ رہے ہیں اور عالمی را ئے عا مہ کو اپنی قربا نیو ں سے بیدار کر رہے ہیں لیکن بھا رت انکی ان قربا نیو ں کو ریاستی جبر سے کچلنے کی پا لیسی پر گا مزن ہے۔ایک جنگ ہے جو سچ اور جھوٹ کے درمیان جا ری ہے قربا نیو ں اور فریب کے درمیان جا ری ہے، ظلم اور صبر کے درمیان جا ری ہے بہا دری اور بزد لی کے درمیان جا ری ہے، انصاف اور بے انصا فی کے درمیان جا ری ہے لیکن آخر ی فتح حق کا مقدر ہو تا ہے یہی قا نونِ فطرت ہے ۔ لہو کے داغ مٹا نا کسی کے بس میں نہیں ہو تا۔ جب لہو پکار اٹھتا ہے تو اس کی پکار پر سر فرو شو ں کی پیشقدمی کو روکنا کسی قوت کے بس میں نہیں ہوتا وہ آگے بڑ ھتے چلے جا تے ہیں اور اند ھیر و ں سے سحر لے کر نمو دار ہو جا تے ہیں۔ راستہ نہی ملتا مجمد اند ھیرا ہے ۔۔پھر بھی با وقار انسان اس آس پہ زندہ ہے سورج کے نکلنے میں پو بھٹنے کا وقفہ ہے ۔اس کے بعد سورج کو کون روک سکتا ہے (احمد ندیم قا سمی) ١٩٤٨ میں جب بھا رتی فو جیں کشمیر میں دا خل ہو ئیں تو پو ری عالمی برادری نے بھارتی جا رحیت کی مذمت کی اور اسے وادی سے اپنی فو جیں نکا لنے کیلئے مجبور کیا۔ سلا متی کو نسل نے ایک قرارداد کی منظور ی دی کہ کشمیر کے مقدر کا فیصلہ کشمیر ی عوام کی مرضی سے کیا جا ئے ۔ بھارتی وز یرِ اعظم پنڈ ت جوا ہر لا نہرو نے سلا متی کونسل کی ان قرارد ادو ں پر سرِ تسلیم خم کیا اور د نیا کواستصو ا بِ را ئے کرا نے کی یقین دہا نی کر وا ئی لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ یقین د ہا نی آج تک حقیقت کا روپ اختیار نہیں کر سکی کیو نکہ بھا رت اپنے استصوا بِ را ئے کے وعدے سے مکر چکا ہے ۔کو ئی ملک چا ہے جتنا بھی طا قتور ہو جا ئے عوامی را ئے عامہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ لو گو ں کو ان کی خوا ہشات کے خلاف انھیں اپنا غلام نہیں بنا سکتا ، کشمیر کشمیر یو ں کا ہے اور انھیں اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کا مکمل حق حا صل ہے بھا رت ریا ستی جبر سے کشمیر یوں کو یہ حق دینے کو تیار نہیں ہے وہ انھیں ان کے اس حق سے محروم کرنے کی سا زش کر رہا ہے جسے کشمیری ہرحال میں نا کام بنا نے کا عہد کئے ہو ئے ہیں۔کشمیر جل رہا ہے اور اسکا وا حد حل استصوا بِ را ئے ہے ۔جب تک ایسا نہیں ہو گا کشمیر جلتا رہیگا ۔ وقت آگیا ہے کہ عا لمی برادری کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے آگے بڑھے اور وادی کو آگ وخون کے اس کھیل سے بچا ئے جس میں روزا نہ سینکڑو ں لوگ اپنی جا نو ں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ سلامتی کو نسل کو اپنی قرار دادوں پر عمل در آمد کو یقینی بنا نے کیلئے بھا رت کو مجبو ر کرنا ہو گا کہ وہ وادی میں استصوابِ رائے کا اہتمام کرے تا کہ اس مسئلے کا حل کشمیر کے لو گو ں کی منشا اور مرضی کے مطابق تلاش کیا جا سکے۔ بابائے قوم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا جس کیلئے ذولفقار علی بھتو نے ہزار سال تک لڑنے کا عزم دھرایا تھا اسی لئے حکومتِ پاکستان٥ فروری کو یومِ یکجہتی کے نام سے میں منا تی ہے اور نہتے کشمیر یوں سے اپنی حمائت کا اعادہ کر تی ہے۔ پچھلے ٦٥ سالوں سے پاکستان کشمیریوں کیلئے اپنی اخلاقی اور سیاسی امداد جاری رکھے ہو ئے ہے۔ اس نے عہد کر رکھا ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں آزمائش کی گھڑیوں میں کشمیری عوام کو تنہا نہیں چھوڑیگا۔ کشمیریوں کی حمائت کرنے پر بھارت پاکستان پر کئی دفعہ جارحیت کا ارتکاب کر چکا ہے لیکن پاکستان نے کشمیریوں کی حما ئت کے اپنے اصولی موقف سے کبھی بھی پسپائی اختیار نہیں کی اور اپنے اصولی موقف پر کبھی بھی لچک کا مظا ہرہ نہیں کیا۔ کشمیر کشمیریوں کا ہے اور ا نھیں اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہوناچا ئیے۔ عالمی برادری بھی اصولی طور پر اس موقف کی حمائت کرتی ہے لیکن بھارت کی فسوں سازی، شر انگیزی، مکاری ،دغا بازی اور مکرو فریب کے آگے انکی ایک نہیں چل رہی ۔عا لمی برادری کی حمائت کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت کی خاطر ڈٹ جا نے کا عزم عطا کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کشمیر کے مسئلے کو ہر فورم پر اٹھا کر کشمیر کی آزادی کو یقینی بنا نا چاہتی ہے۔ وادیِ کشمیر جنت نظیر ہے لیکن خون کے دھبے اس کی خوبصورتی کو لہورنگ بنا رہے ہیں لیکن وہ دن دور نہیں جب یہ وادی بھارت کے چنگل سے آزاد ہو کر آزادی کی نعمت سے سرفراز ہو گی اور کشمیر کی آزاد اور خوبصورت فضا ئیں اسے ایک دفعہ پھر حقیقی معنوں میں جنت نظیر بنا دیں گی۔ سچ تو یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے لہو سے آزادی کی داستان رقم کرنے کا عہد کرتی ہے ،اپنے جذبوں سے غلامی کی زنجیریں توڑنے کا عزم کرتی ہے اور اپنے عشق سے قندیلِ وفا کو روشن ر کھنے کا اظہار کرتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس سے آزادی اور حریت پسندی کا گہر چھین نہیں سکتی ۔ ایسی قوم ہمیشہ آزادی کی نعمت سے سرفراز ہو تی ہے اور اقوامِ عالم میں ایک خوددار ،دلیر،غیرت مند اور آزاد قوم کی حیثیت سے ز ند ہ رہتی ہے۔ سفرِ زندگی میں جب روحِ انساں ڈٹ گئی ۔۔ جبر کی زنجیرِ آہن خود بخود ہی کٹ گئی میں نے فقط کہا تھا یہ وہ چراغِ راہ ہے۔۔پھر نہ جانے کیا ہوا تیرگی سب چھٹ گئی تحریر : طارق حسین بٹ(چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم یو اے ای)