وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کو قومی اسمبلی کی سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی رولنگ نے اپنے منطقی انجام تک پہنچا دیا ہے۔ پچھلے دو سالوں سے یہ مقدمہ ہر کس و ناکس کی زبان پر تھا اور بہت سے دل جلوں کی تفریحِ طبع کا سامان بھی مہیا کر رہا تھا۔کچھ لوگوں کو سپیکر کی رولنگ سے بڑی تکلیف پہنچی ہے کیونکہ اس فیصلے سے ان کی خوابیدہ خواہشوں کی تکمیل نہیں ہو سکی ۔ ان کی نفرت کے زہر میں بجھی ہوئی تمام خواہشیں وقت کی بے رحم چٹا نوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی ہیں اور وہ اوندھے منہ گر گئے ہیں۔ انھوں نے اس مقدمے سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں لیکن اس مقدمے کا انجام انکی خوہشات کے جس طرح بر عکس نکلا ہے اس نے انھیں نیم دیوانہ کر دیا ہے۔انھیں یقینِ کامل تھا کہ سید یوسف رضا گیلانی توہینِ عدالت کے وار سے بچ نہیں سکیں گئے اور ان کی سیاسی موت ہو جا نے سے پی پی پی کی حکومت کا بوریہ بستر گول کرنے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی لیکن الٹی ہو گئی سب تدبیریں دل نے کچھ نہ کام کیا کہ مصداق و سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود سید یوسف رضا گیلانی اب بھی پاکستان کے وزیرِ اعظم ہیں اور دنیا ان کی اس آئینی آئینی حیثیت کو تسلیم کرتی ہے۔
سپیکر کی رولنگ سے ایسے گروہوں کی بے تاب امنگوں کا جس بے دردی سے خون ہوا ہے اس پر مجھے ان کے ساتھ دلی ہمدردی ہے کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے ان کے ساتھ اسی طرح کا بے رحمانہ سلوک ہو ریا ہے لیکن ان کی ہمت کی بہر حال داد دینی پڑتی ہے کہ وہ پھر بھی ہمت نہیں ہارتے بلکہ ہر دفعہ جوتے کھانے کے بعد تازہ دم ہو کر پھر میدان میں اتر آتے ہیں اور نئی امیدوں کے ساتھ حکومت کے خاتمے کی کوششیں شروع کر دیتے ہیں۔
اپنی بے تاب خواشوں کی تکمیل کی خاطر وہ اس حقیقت کو فرا موش کر دیتے ہیں کہ قانون و انصاف کی عدالت میں ارمانوں اور خواہشوں کاکوئی وجود نہیں ہوتا وہاں پر دلیل، منطق، قانون ، اصولوں اور ضابطوں کی حکمرانی ہوتی ہے اور عدالت کو اپنے پنے ہر فیصلے کو کسی بنیاد اودلیل سے حق بجا نب قرار دینا ہو تا ہے اور جب عدالت بھی ایسی کسی ٹھوس بنیاد کودکھانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر وہ فیصلہ عوامی عدالت میں پذیرائی حاصل نہیں کر پاتا۔ پاکستان میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں جب عدالتوں کے فیصلے عوامی تائید سے محروم رہ گئے اور وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالتی فیصلہ بھی انہی چند فیصلوں میں ایک فیصلہ ہے جو عوامی حمائت سے محروم ہے۔
supreme court
سپیکر کے فیصلے کے خلاف تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر دی ہیں تا کہ سپریم کورٹ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو ان کے عہدے سے بر طرفی کا حکم صادر فرمائے۔ سپر یم کورٹ کے ٢٦ اپریل کے فیصلے کی روشنی میں حکومت کے پاس اپیل کا حق موجود تھا لیکن حکومت نے اس حق کو استعمال نہیں کیا جس کی وجہ سے آئین کے مطا بق سپیکر قومی اسمبلی کو ٣٠ دن کے اندر سپریم کو رٹ کے فیصلے پر اپنی رولنگ دینی تھی تا کہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیت کے بارے میں حتمی رائے قائم کی جا سکے۔ قومی اسمبلی کی سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنی رائے کو جس طرح دلائل اور نظا ئر سے پیش کیا ہے اس نے ہر قسم کے سقم کو ختم کر دیا ہے۔ ان کی رائے میںپیش کردہ نظائر اتنے واضح ہیں کہ ان پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ بہر حا ل گیند ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ کی کورٹ میں ہے اور دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ اس پر اپنا ردِ عمل کس طرح ظاہر کرتی ہے۔ قانونی ماہرین کی ایک غالب اکثریت اس رائے کی حامل ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے کے خلاف کسی قسم کی ا پیل دائر نہیں ہو سکتی سپیکر قومی اسمبلی کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور اس پر مزید قانونی کاروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی لیکن کچھ قانونی ماہرین اس نکتہ نظر سے اختلاف کرتے ہیں جس کا واضح ثبوت وہ چند پٹیشنیں ہیں جنھیں سپریم کورت میں داخل کروا دیا گیا ہے دیکھتے ہیں کہ ان پٹیشینوں کے مقدر میں کیا آتا ہے۔
ویسے بھی پاکستان میں کسی بھی چیز کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ عدالتیں کس مقدمے پر کیا رویہ اختیار کریں گیں کیونکہ یہاں پر اہم فیصلے خفیہ ہاتھووں کے اشاروں پر عمل میں آتے ہیں۔ مارشل لائوں کو جائز قرار دینا بھی انہی ہاتھوں کا کرشمہ ہوتا ہے لہذا یہ کہنا کہ سپریم کورٹ سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کو خاموشی سے تسلیم کر لے گی درست معلوم نہیں ہو تا۔اگر چہ الیکش کمیشن کا تازہ بیان میری نظر سے گزرا ے کہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے مقدمے کی فائل اب بند ہو چکی ہے لیکن کون جانے کہ کونسی فائل کب کھل جائے اور کس کو کس وقت سرِ دار کھینچ دینے کا حکم صادر ہو جائے لہذا ہمیں سپریم کورٹ کے آخری فیصلے کا سب کو انتظار کرنا ہو گا۔
میری ذاتی رائے ہے کہ کموں (سندھ) کے ایک دور افتادہ گائوں میں چند روز قبل پی پی پی کے جلسے نے ساری صورتِ حال کو سمیٹنے اور منطقی انجام تک پہنچانے میں بڑا کلیدی رول ادا کیا ہے۔ کموں کا یہ جلسہ وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کیلئے منعقد کیا گیا تھا اور اس جلسے میں لاکھوں کی تعداد میں عوام کی شرکت نے سارے اندازوں کو باطل قرار دے کر سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا ہے۔میں نے خو د ٹیلیو یژن پر یہ جلسہ دیکھا ہے اور اسے دیکھنے کے بعد میں بھی دم بخود رہ گیا تھا کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا یہ سمندر وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی حما ئت میں کہاں سے نکل پڑا ہے۔
ppp pakistan
وہ لوگ جو پی پی پی کی مقبولیت کے خاتمے کی نوید سناتے رہتے ہیں اس جلسے کے بعد ان کی آنکھیں کھل جا نی چائیں اور انھیں اندازہ ہو جانا چائیے کہ پی پی پی ایک ایسی سیاسی جماعت کا روپ اختیار کر چکی ہے جو سیاسی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے خاندان کی شکل اختیار کر گئی ہے جس کی بقا کے لئے جیالے ہر حالت میں متحد رہتے ہیں۔ جیالے اپنے قائدین کی قربانیوں سے اور ان کے لہو سے غداری کا تصور بھی نہیں کر سکتے لہذ ہمہ یاراں دوزخ ہمہ یاراں جنت کی ضرب المثل پر یقین رکھتے ہوئے پارٹی کا پر چم بلند رکھتے ہیں۔انھیں اس بات کا پختہ یقین ہے کہ پی پی پی ایک ایسی پارٹی ہے جو ترقی پسند ہے اور عوام کی حقیقینمائندہ ہے اور عوامی خواہشات کی آئینہ دار ہے ۔ مسائل کے انبار کے نیچے پھنسی ہو ئی قوم کیلئے یہی جماعت وفاقِ پاکسان کے اتحاد کی علامت ہے اور پورے ملک میں واحد وفا قی پارٹی ہے جس کی جڑیں چاروں صوبوں میں ہیں لہذا اس کا وجود پاکستان کی سالمیت اور بقا کا ضا من ہے۔
جیالے ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی بنائی گئی اس پارٹی کا دامن چھوڑ دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور کموں کا عظیم لشان جلسہ اسی بات کا غماز تھا حا لا نکہ اس جلسے میں کسی بھی مرکزی قائد نے شرکت نہیں کی تھی لیکن پھر بھی لاکھوں لوگوں کا اجتماع پارٹی کی قوت کا مظہر تھا اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھا کہ پارٹی کے جیالے ہر حال میں اپنی قیادت کے ساتھ ہیںاور یہی وہ پیغام ہے جسے پاکستان کے طاقت ور حلقوں نے سمجھ لیا ہے تبھی تو وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف تند و تیز شمشیریں فی لحا ل نیام میں واپس چلی گئی ہیں۔
PPP Government
جلسے کے دو پہلو تھے ایک یہ کہ عدلیہ کا یہ فیصلہ عوامی خواہشات کا ترجمان نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ عوام اس فیصلے کو قبول نہیں کرتے ۔اس جلسے میں عدلیہ کے خلاف کچھ جذباتی نعرے بھی شامل تھے جس سے عدلیہ کی توقیر پر حرف آرہا تھا جسے جمہوری معاشروں میں مستحسن نہیں سمجھا جاتا اور جس کی کسی بھی صورت میں حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چائیے ۔ پاکستان میں ایک خاص طبقے کی رائے ہے کہ عدلیہ ہمیشہ کی طرح پی پی پی کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔ ہر اس مقدمے کی شنوائی کا فیصلہ کرتی ہے جس میں اس کے ملوث ہو نے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں حا لا نکہ اس ملک میں حکمران تو اور بھی بہت سے لوگ ہیں لیکن انھیں جان بوجھ کر ہاتھ نہیں لگا یا جا تا۔ اس کی بہتر توجیح تو ایسا سوچنے والے ہی دے سکتے ہیں لیکن بادی النظر میں ایسا نظر ضرور آتا ہے کہ عدلیہ کا نشانہ پی پی پی کی حکومت ہے۔ آئی ایسی آئی کے خلاف اصغر خان کی پٹیشن پچھلے کئی سالوں سے التوا میں پڑی ہو ئی تھی اور بحالتِ مجبوری اسے سننے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس کا کوئی سرا پکڑائی نہیں دے رہا ۔ عوام اس میں ملوث افراد کا محاسبہ چا ہتے ہیں اور ان کی دیرینہ خوا ہش ہے کہ ایسے قومی مجر مو ں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے ان سے آئین سے بغاوت کا حساب لیا جائے لیکن وہ تو پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں اور آئین و قانون کے ما مے بنے ہوئے ہیں۔
وہ اپنے آپ کو اس طرح پیش کر رہے ہیں کہ لگتا ہے ان سے زیادہ آئین کا وفادار ااور ان سے زیادہ محبِ وطن کوئی دوسر اشخص نہیں ہے۔ وہ حب الوطنی ثا بت کرنے کیلئے تبھی تو وہ ہر دوسرے روز حکومت کو گرانے کے لئے لانگ مارچ کی دھمکی دیتے رہتے ہیں حالانکہ سچ یہی ہے کہ یہی لوگ ہیں جنھوں نے انصاف و قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا ہوا ہے اور ان کے اس کھلواڑ پر عدا لتوں نے بھی خاموشی کی چادر تان رکھی ہے۔یہ سچ ہے کہ آئی ایس آئی نے پی پی پی کا راستہ روکنے کے لئے پی پی پی مخالفین کو فنڈز جاری کئے تھے اور پی پی پی کے خلاف ایک متحدہ محاذ (اسلامی جمہوری اتحاد) تشکیل دیا تا کہ پی پی پی کی شاندار فتح پر بند ھ باندھا جا سکے ۔ اب ہر وہ شخص جو اس میں ملوث تھا اس نے آ ئینِ پاکستان سے غداری کی تھی لیکن کیا اس میں ملوث جرنیلوں میں سے کسی ایک جرنیل کو بھی آئین سے بغاوت کا نوٹس دیا گیا اور اسے عدالت میں ملزم کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ بالکل نہیں اور مستقبل قریب میں بھی ایسا ہونے کے مکا نات بہت کم ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ یہ مقدمہ ہمیشہ کی طرح ایک دفعہ پھر سرد خانے میں ڈال دیا جائے گا یا اسے اس طرح ہینڈل کیا جائے گا کہ اس مقدمے سے عوام کی د لچسپی ہی ختم ہو جائے گی ۔ستم بالائے ستم یہ ہے عوام کے منتخب وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی توہینِ عدالت کیس میں عدالتوں میں بلا بلا کر خوب درگت بنائی جاتی ہے لیکن اسلامی جمہوری اتحاد بنانے والے جرنیلوں کی جانب کسی کی نگاہ ہی نہیں اٹھتی۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں ایجنسیوں کے سر بر اہوں پر ہاتھ ڈالنے کی کوئی روائت موجود نہیں ہے لیکن اگر انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں تو پھر یہ روائت ڈالنی ہو گی تا کہ عوام کو یقین ہو جائے کہ قانون واقعی اندھا ہو تا ہے۔ تریر : طارق حسین بٹ