چھبیس اپریل کا عدالتی فیصلہ پاکستان میں جمہوریت پر ایسا کاری وار ہے جسکی گہرائی کا ادراک شائد بہت دیر کے بعد ہو گا۔جمہوریت کی تاریخ میں یہ واحد فیصلہ ہے جس میں توہینِ عدالت کے مقدمے میں کسی بھی وزیرِ اعظم کو سزا سنائی گئی ہے جسکی وجہ سے اسکی اہلیت پر سوالیہ نشان پڑ گئے ہیں۔ اس فیصلے کا مقدر بھی ذولفقار علی بھٹو کے خلاف دئے گئے فیصلے سے مختلف نہیں ہو گا کیونکہ عوام کی اکثریت نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے وزیرِ اعظم کو ہٹانے کا اختیار صرف اور صرف پارلیمنٹ کے پاس ہو تا ہے کیونکہ پارلیمنٹ ہی اسے منتخب کرتی ہے لیکن ہمارے ہاں چونکہ جمہوری روا یات کی جڑیں زیادہ مضبوط نہیں اس لئے یہاں پر عدالتوں کے فیصلے بھی بڑے انوکھے اور منفرد ہو تے ہیں یہ کبھی مارشل لائوں کو جائز قرار دیتی ہیں ،کبھی جمہوری حکومتوں کی بساط لپیٹنے میں دستِ تعاون پیش کرتی ہے اور کبھی منتخب وزیرِ اعظم کو سرِ ِ دار کھینچ دینے میں اپنا زور صرف کرتی ہیں ۔ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے اسکی پیشا نی پر آمریت کا ساتھ دینے اور مارشل لائوں کو تحفظ دینے کے بڑے بڑے جھومر لٹک رہے ہیں جو ان کی ناز ک پیشا نی کو کبھی کبھار زخمی بھی کر دیتے ہیں ۔عد لیہ اپنے دامن کو اپنے ان غیر آئینی رویوں سے جتنا بھی پاک و صاف کرنے کی کوشش کرے یہ داغ اس کی پیشانی سے مٹ نہیں سکتے کیونکہ ان داغوں کو دھو نے کیلئے جتنی آزاد ا نہ سوچ کی ضرورت ہے اسکا ابھی تک مکمل اظہار نہیں ہو رہا۔محمد علی احمد کردکا تجزیہ بڑا بر محل ہے کہ وہ ججز جنھیں بڑی کاوشوں کے بعد عدلیہ کی مسند پر بٹھایا گیا تھا ان میں سے پیشتر خود فرعون بن بیٹھے ہیں۔
کسی کو اس بات میں رتی برابر بھی شک نہیں ہونا چائیے کہ پاکستان میں جمہوری جنگ کی داستان صرف اور صرف پاکستان پیپلز پارٹی نے رقم کی ہے اور اپنے لہو سے رقم کی ہے۔ جمہوریت کیلئے اس نے اپنے قائدین کی قربانیاں دی ہیں۔ قائدین بھی وہ جن کی صلاحیتوں کی دنیا معترف ہے ۔ ہر شخص کو بخوبی علم ہے کہ عدالتِ عظنی نے جب ٤ا پریل ١٩٧٩ کو ذولفقار علی بھٹو کو سرِ دار لٹکا دیا تو اس نے پا کستا ن کی ترقی اس کے استحکام، اس کی مضبو طی اور اس کے ا تحاد کو پھانسی پر لٹکایا تھا۔ جنرل ضیال الحق اور اس کے حاشیہ بردار ا اپنی ھٹ دھرمی سے باز نہ آئے اور عدالتِ عظمی سے یہ مکروہ فعل سر انجام دلوا کر دم لیا۔ اس بات کا عتراف تو خود عدلیہ کے معزز جج صاحبان نے بھی کیا ہے کہ ان پر ذوالفقار علی بھٹو کو سرِ دار لٹکانے کیلئے سخت دبائو تھااور یہ وہی مقدمہ ہے جسے دنیا عدالتی قتل سے تعبیر کرتی ہے۔ حیران کن بات یہ تھی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفین نے گلے پھاڑ پھاڑ کر اعلان کیا تھا کہ عدالتِ عظمی نے جو فیصلہ دیا ہے وہ انسانی تاریخ کا نادر فیصلہ ہے اور اس فیصلے کو انسانی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائیگا کیونکہ عدالتِ عظمی نے ملک کے مضبو ط ترین شخص ذوالفقار علی بھٹو ت کو سزائے موت دی ہے اور ایسا مشکل فیصلہ کوئی باجرات عدلیہ ہی کر سکتی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سزا پر بڑے جشن برپا کئے گئے تھے اور مخالفین نے ڈھول ڈھمکے اور باجے تاشوں میں اپنی اس فتح کا جشن منایا تھا۔ بڑے بڑے جلوسوں کی شکل میں شہر شہر اس بات کا ڈ ھنڈورا پیٹا گیا تھا کہ ایک آمر اپنے عبر ت ناک انجام کو پہنچ گیا ہے۔ پریس کانفرنسیں بھی برپا کی گئی تھیں بالکل ویسے ہی جیسے آج کل سید یوسف رضا گیلانی کی سزا پر پریس کانفرنیں منعقد ہو رہی ہیں۔وہی انداز، وہی دلائل،وہی سوچ، وہی مخاصمت اور وہی سٹائل لیکن وقت کے یہ سارے ڈ ھنڈ ورچی آخر کار ذلیل و خوار ہوئے اور فتح کا تاج ذولفقار علی بھٹوکے سر پر سج گیا۔
ضمیر فروشوںکیلئے ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی انکی زندگی کی خوش بختی کا سب سے قیمتی لمحہ تھا کہ سب سے بڑا دشمن بھی ملیا میٹ ہو گیا تھا اور جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں وزار تیں ِ بھی سنبھا ل لی تھیں اس وقت تو انکی پا نچو ں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑا ہی میں تھا۔ اقتدار انکی مٹھی میں بند تھا اور مخالفین کا مقدر جیلیں کوڑے اور پھانسی گھاٹ بنے ہو ئے تھے۔ راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ نہ کوئی ضمیر کی خلش اور نہ ہی کو ئی اخلاقی اصولوں کا خوف تھا۔ دشمن کو مارنا ہو تو پھر محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو کو صفحہِ ہستی سے مٹا نے کیلئے ہر ناجائز حربہ جائز قرار پایا تھا۔ اقتدار ان کے پاس تھا، طاقت انکے پاس تھی لہذا بے گناہ مجرم قرار پائے اور گناہ گار اقتدار کی راہداریوں میں موج میلہ کرتے رہے۔ لیکن ایک بات بڑی صاف واضح تھی کہ تاریخ کے فیصلے کو بدلنے کا انھیں اختیار نہں تھا اور تاریخ کا فیصلہ یہی ہے کہ آخری فتح سچ کی ہوا کرتی ہے اور سچ کی اس میزان میں صرف ذولفقار علی بھٹو ہی پورا اترا تھا باتی سارے خس کم جہاں پاک کی مثال بن گئے تھے یہ لوگ بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے تھے جنکا واحد مقصد اپنے دشمن پر حملہ آور ہو کو اسے لہو لہان کر کے موت کے گھاٹ اتارنا تھا اور یہی سب کچھ انھوں نے کیا تھا لیکن انکی مکا ری کی داد دینی پڑتی ہے کہ اپنی ان گھنائونی حرکات کو چھپانے کیلئے کبھی اخلاقیات کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، کبھی مذہب کا لبادہ پہن لیتے ہیں اور کبھی شرافت کو شور مچا یتے ہیں ۔ انکا یہ مکروہ کھیل آج بھی اسی طرح جاری ہے اور وہ نئے نعروں کے ساتھ عوام کو دھوکہ دینے کیلئے میدان میں اترے ہو ئے ہیں ۔
جنر ل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے وہ سارے دست و بازو جنھوں نے عدلیہ کو معزول کیا تھا پابندِ سلا سل کیا تھااور اس پر حملہ کیا تھا آج آزاد عدلیہ کی بحالی کا علم تھامے نعرہ زن ہیں اور اخلاقیات، پارسائی اور جمہوریت کے سرٹیفکیٹ تقسیم کر رہے ہیں حالانکہ عدلیہ کی رسوائی کے یہی لوگ ذمہ دار ہیں لیکن اسکا الزام دوسروں کے سر تھوپ کر خود برالذمہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔۔ہے نہ بالکل ہی انوکھی بات۔ بقولِ شاعر
دامن پہ کوئی داغ نہ آنچل پہ کوئی دھبہ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
جب کبھی بھی مارشل لاء نافذ ہوا ہماری عدلیہ نے اسے آئینی اور قانونی جواز مہیا کرنے میں کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ آئینی چھتری مہیا کرنے میں ہماری عدلیہ بڑی فراخدل واقع ہو ئی ہے۔ جو نہیں مانگا جاتا وہ بھی عنائیت کر دیتی ہے لیکن جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کانام آتا ہے اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ خون نہ اترا ہو تا تو ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی کے تختے پر کیوں لٹکا د یا جاتا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف دو دفعہ کرپشن کے مقدمات میں فیصلے کیوں صا در ہوتے اور آصف علی زرداری گیارہ سال زندانوں کی بے رحم ساعتوں کے حوالے کیوں ہوتے۔ عجیب اتفاق ہے کہ جن کے لہو سے جمہوریت کا چراغ روشن ہے انھیں ہی ہمیشہ تختہ مشق بنا یا جاتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو بالکل ا حساس نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ آئین و قانون کے پیچھے چھپ جانا بڑا آسان ہے لیکن جب میدان میں نکل کر آئین و قانون کی جنگ لڑنے کا مرحلہ درپیش ہو تاہے تو پھر بڑے بڑو ں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے ۔کوئی لندن کی راہ لیتا ہے اور کوئی سعودی عرب کے محلات میں چھپ جاتا ہے۔ اس وقت ساری اخلاقی حدود و قیود یوں فراموش ہو جاتی ہیں جیسے ان کا وجود تھا ہی نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی میدان میں تنہا ڈٹی رہتی ہے اور جمہوریت کی اس جنگ کو اپنے لہو سے توانائی عطا کرتی رہتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں موجودہ عدلیہ کے ججز تو حراست میں تھے اور لاکھ کوششوں کے باوجود ان خار دار تاروں کو بھی نہیں ہٹوا سکے تھے جنھیں جنرل پرویز مشرف نے ان کی ر ہا ئش گاہوں کے باہر لگوا رکھا تھا یہ تو سید یوسف رضا گیلانی تھے جنھوں نے ان خار دار تاروں کو ہٹوایا تھا اور ججز کو رہا کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا لیکن اس نیکی کا جس طرح کا بدلہ موجودہ عدلیہ نے دیا ہے اس کی مثال بھی کہیں نہیں ملے گی۔ بقولِ شاعر
ہمارے ہی خون سے چمن کے پھول مہکے اور ہمیں کو چن لیا صیاد نے شکار کے لئے
سوال یہ ہے کہ عدلیہ فوجی جنتا کے خلاف فیصلے دینے میں کیوں ہچکچاتی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوری حکو مت کے خلاف فیصلے دینے میں کیوں اتنی جارح ہو جاتی ہے مارچ ١٩٩٣ میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت کی بحالی کا فیصلہ اسی عدلیہ کے ہا تھوں ہوا تھااور پھر جنرل مشرف کے مارشل لاء کے بعدمیاں محمد نواز شریف دس سالہ معاہدے کے تحت سعودی عرب چلے گئے تھے۔ اپنے اس معاہدے کا اعتراف تو خود میاں محمد نواز شریف نے بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ معاہدہ دس سال کا نہیں بلکہ پانچ سال کا تھا بلکہ غلطی سے دس سال لکھ دیا گیا ہے لیکن عدالتِ عظمی نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اوریو ں میاں محمد نواز شریف کو ریلیف عطا کر دیا گیا تھا۔ طیارہ ہائی جیکنگ کیس جس کی بنا پر میاں محمد نواز شریف کی حکومت بر خاست ہو ئی تھی اور جس میں میاں محمد نواز شریف کو عمر قید کی سزا ہو ئی تھی اور اسی سزا سے بچنے کے لئے میاں محمد نواز شریف سعودی عرب میں جلا وطن ہو ئے تھے۔ نو سالوں کے بعد ان کی وطن واپسی ہو ئی اور مسلم لیگ (ن) نے میاں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی وہ اپیل سنی گئی اور میاں محمد نواز شریف کو طیارہ اغواء کے مقدمے سے بری کر دیا گیا ۔
عدالتِ عظمی نے میاں محمد نواز شریف کو کس قانون کے تحت اس مقدمے سے بری کیا تھا یہ سوال ابھی تک تشنہ جواب ہے۔ انھیں سزا ہو چکی تھی اور وہ انتخاب لڑنے کے اہل نہیں تھے لیکن عدالتِ عظمی نے ان کا یہ مسئلہ انتہائی عجلت میں حل کر دیا انھیں تمام الزامات سے بری قرار دے دیا اور یوں وہ بالکل پاک صاف اور کلین ہو گئے حالانکہ آئین کی رو سے ایسا بالکل نہیں ہو سکتا تھا لیکن ایسا ہوا۔ قانون کی نظر میں وہ نا اہل تھے اور کوئی انھیں اہل قرار نہیں دے سکتا تھا لیکن یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا اور میاں محمد نواز شریف نا اہلیت کی منزل سے اہلیت کی منزل پر پہنچا دئے گئے لیکن جب پاکستان پیپلز پارٹی کی باری آئی تو پھر عدالتِ عظمی کو آئین میں لکھی ہوئی شقیں بھی غیر ضروری محسوس ہو نے لگیں جبکہ میاں محمد نواز شریف کو آئین سے ماورا ر یلیف دے دیا گیا۔ ان کی ریلیف کو آئینی رو سے ثابت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ آئین ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی آئین کی کسی شق کا حوالہ دیا جا سکتا ہے کیونکہ آئین میں ایسا کچھ بھی د رج نہیں ہے لیکن کسی دوسرے سائل کو اپنے تحفظ کیلئے آئینی شق کا حوالہ دینے کیلئے زبان کھولنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی اور جو کوئی ایسا کرنے کی جسارت کرتا ہے اس پر توہینِ عدالت کا قانون لاگو کر کے سزا سنا دی جاتی ہے۔