یہ ایک ابدی اور غیر متبدل حقیقت ہے کہ سچائی کو شکست دینا کسی بھی انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ وقتی طور پر طاقت کے بل بوتے پر سچ کو دبا نے کی روائت بہت قوی اور پرانی ہے۔ لوگ طاقت کے نشے میں رنگی ہوئی عارضی جیت کو سچائی کی جیت تصور کر کے خود کو طفل تسلیاں دے لیتے ہیں لیکن انھیں خبر نہیں ہوتی کہ یہ جیت بہت ہی ناپائدار اور کمزور ہے کیونکہ جیسے ہی ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو جائے گا یا موت کا بے رحم ہاتھ ان کی زندگی کا خا تمہ کر د ے گا تو یہ جیت نقش بر آب ثابت ہو گی اور سچا ئی اپنی پوری قوت کے ساتھ منظرِ عام پر آکر ان کے قائم کردہ حصار کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گی اور اس وقت سچائی کو دبانے کی ان میں سکت نہیں ہو گی لہذا سچائی خود کو آشکار کر کے دم لے گی۔ یہ سچ ہے کہ علم کی طرح طاقت بھی ایک قدر ہے لیکن جب یہ قدر انصاف کیلئے استعمال ہوتی ہے تو دادو تحسین پاتی ہے لیکن جب یہ ظلم وستم اور جبر کو ہوا دیتی ہے تو ایک عذاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔بے رحم اور سفاک حکمرانوں کے نام ملک اور ادوار تو مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک ہو تی ہے اور وہ ہے ان کا ظلم و ستم۔تاریخ کے اوراق ان حکمرانوں کی سفاکیت، طاقت کے بے جا ا ستعمال اور بے گنا ہوں کے خون سے رنگین ہیں ۔آپ تاریخ کے کسی دور کو بھی اٹھا لیجئے ظالم حکمران آپ کو ہر دور میں ملیں گے اور ان کے ظلم و ستم اور عتاب کی داستانیں پڑھ کر آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں گے۔پاکستان میں وقفے وقفے سے مارشل لا ئی حکومتیں اس ملک کا مقدر بنیں اور مارشل لاء چونکہ قوت و طاقت کا مظہر ہو تا ہے لہذ ہمیں قوت و طاقت کے مظاہر بھی بہ امرِمجبوری دیکھنے اور برداشت کرنے پڑے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ ان سارے مارشل لائوں میں سفاکیت اور جبر کے لحاظ سے جنرل ضیاا لحق کا مارشل لا تمام حدود پھلانگ گیا تھا کیونکہ اس مارشل لا میں ہر مکتبہِ فکر کے لوگوں کو مشقِ ستم بنا یا گیا۔ طلبا، شعرا ،ادیب، اسا تذہ ،صحافی،کھلاڑی، سیاستدان ، ڈاکٹرز، وکلا، مزدور، کسان، فنکار اور اداکار مارشل لائی جبر کا نشنا نہ بنے۔ سچ کے اظہار میں تمام مکتبہ فکر کے لوگوں نے اپنے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور مارشل لائی جبر کے سامنے حق کی آواز بن کر ڈٹ گئے۔شاہی قلعے کے عقوبت خا نوں کے در ودیوار پر ان سر فروشوں کی جراتوں کی داستانیں آج بھی رقم ہیں اور سرِ عام سچائی کی گواہی دے رہی ہیں۔ شائد فیض احمد فیض نے اسی تنا ظر میں کہا تھا کہ قتل گاہوں سے لے کر ہمارے علم اور نکلیں گے عشاق کے قافلے۔ پھانسی گھاٹوں پر جس طرح بے گنا ہوں کو موت کے گھاٹ اتار کر خوف زدہ کیا گیا شائد وہ بھی اس محبت کو کم نہ کر سکیں جو ان مہتاب صفت لوگوں کو جمہوریت، سچائی اور آزادی کے ساتھ تھی۔ جنرل ضیا الحق کا مارشل لا ایک معرکہ تھا ذولفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق کے درمیان۔ ایک طرف سچائی تھی اور دوسری طرف اندھی طاقت تھی ۔بے پناہ طاقت کے سامنے وقتی شکست تو لازم ہوتی ہے ۔خون کو خاک میں مل جا نا ہو تا ہے لیکن اس خاک سے سچائی کے جو پھول کھلتے ہیں انکی جاذبیت کو کون روک سکتا ہے۔ ٤ اپریل ١٩٧٩ کی صبح ہیلی کاپٹر میں ایک لاش ڈالی گئی اور اسے گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں انتہائی سرد مہری اور خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا گیا ۔اقتدار کے سنگھا سن پر بیٹھے ہوئے بے رحم شخص نے سکھ کا سانس لیا کہ سب کچھ حسبِ خواہش طے پاگیا ہے۔ا سے شائد خبر نہیں تھی کہ میدانِ جنگ میں بہادری سے لڑتے لڑتے گرنے والا لاشہ کبھی نہیں مرتا۔کون ہے جو لہو سے لکھی گئی سچائی کو مٹا سکے۔بے رحم حکمران قتلِ عمد کے بعد لاشوں کی بے حر متی کرتے ہیں ا نھیں گھوڑوں کے ساتھ باندھ کر گھسیٹتے ہیں ۔لا شوں کا مثلہ کرتے ہیں اور کبھی کبھی انکا سر تن سے جدا کر کے نیز ے کی انی پر اٹھا لیتے ہیں تاکہ اہلِ جہاں کو خبر ہو جائے کہ ہم اپنے مخالفین کو کیسے درد ناک انجام سے دوچار کرتے ہیں ۔ یزید نے بھی تو یہی کیا تھا اندھی قوت کے نشے میں اس نے بھی امامِ عالی مقام کی زندگی کا چراغ گل کیا تھا لیکن کیا وہ چراغ گل ہوا، کیا سکی روشنی اور اسکا نور ظلم وجبر کی چیرہ دستیوں سے کم ہوا۔ کیا انکی قربانی اہلِ جہاں فراموش کر سکے ، کیا امام عالی مقام کی جراتیں حریت پسند وں کے دل سے نکل سکیں؟ وقت کا سب سے بڑا سچ یہی ہے کہ یزید لوحِ جہاں پہ حرفِ ملامت ہے اور امامِ عالی مقام علا متِ فخرو ناز ہیں حالانکہ میدانِ جنگ سے لاشہ تو امامِ عالی مقام کا اٹھا تھا ظاہرا َیز ید فتح یاب ہو تھا پھر یہ عزت و وقار کے معیار کیسے بدل گئے ہارنے والے ابدی فاتح کیسے قرار پائے ، ا نسا نیت کے ماتھے کا جھومر کیسے بنے اور جیتنے والے ہمیشہ کیلئے راندہِ درگاہ کیوں ہوئے۔ جنرل ضیا الحق کی بے رحم اور سفا کانہ حرکات کا ساتھ دینے کیلئے اس کے کچھ ساتھی بھی تھے جو اسکی تصویر سے ہمکلام ہوتے تھے،اس کے ہاتھ چومتے تھے، ا سے متبرک سمجھ کر اس کی دست بوسی کرتے تھے ۔اس کے قدموں میں لوٹ پوٹ جاتے تھے ۔اس کی بلائیں لیتے تھے، اسے امیر ا لمومنین کے لقب سے پکارتے تھے اور ایک قاتل بے رحم سفاک انسان کو فرستادہِ خدا تصور کرتے تھے۔اس سے منتیں مانتے تھے اسے اپنا حاجت روا تصور کرتے تھے اور شرفِ باریابی کے منتظر رہتے تھے۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے اس راہ پر سراپا انتظار بن کر کھڑے ہو جاتے تھے جہاں سے عالم پناہ کی سواری گزرنے کا ا حتمال ہوتا تھا کہ شائد عالم پناہ کی ایک نگاہِ کرم ان کا مقدر بدل کر رکھ دے۔کیا کیا تھا جو اس کی ذات سے انھوں نے وابستہ نہیں کر رکھا تھا۔ اسکی مورتی کو پرنام کرتے۔ اسکی آر تی اتارتے اور اس سے مرادیں مانگتے تھے ا نکا بس چلتا تو اسے خدائی مسند عطا کر دیتے ۔یہ تھی انکی کیفیت اور یہ تھی جنرل ضیا الحق کی طاقت کی پھیلی ہوئی کرشمہ سازیاں جس سے اسکے حاشیہ بردار فیض یاب ہو رہے تھے اور اسکی عظمتوں کے گن گا رہے تھے۔ جنرل ضیا الحق کا ایک منہ بولا بیٹا بھی تھا جس کے مقدر کا ستارا جنرل ضیا الحق کی آمریت میں بہت چمکا۔ جنرل صاحب حیات تھے تو پاکستان کی پوری اسٹیبلشمنٹ اس کے اشاروں پر ناچتی تھی اور اس پر فدا ہونے کو ہمہ وقت تیار رہتی تھی۔ ١٩٨٨ میں جب وزیرِ اعظم محمد خان جو نیجو کی حکومت کو برخاست کیا گیا تو منہ بولے بیٹے نے حقِ نمک ادا کیا اور اپنے و ز یرِ اعظم کو چھوڑ کر جنرل ضیا الحق کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں مسلم لیگ کی صدارت سے نوازا گیا ۔اسے بعد میں جنرل صاحب کے ساتھ وفا داری نبھانے پر وزارتِ عظمی تک کا سفر بھی کروایا گیا ۔لیکن جب اس نے خود ضیاا لحق ثانی بننے کی کوشش کی تو اس وقت کے صدرِ مملکت اسحاق خان سے اس کا ٹکرائو ہو گیاجو اس کی اقتدار سے ر خصتی کا باعث بنا لیکن جنرل ضیا الحق سے اس کی عقیدت میں کو ئی فرق نہ آیا ۔ وہ اب بھی اس کے مزار پر ١٧ اگست کو حاضری دیتا تھا اور جنرل صاحب سے اپنی عقیدت کا کھلے بندوں اظہار کرتا تھا لیکن جب ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ میں جنرل پرویز مشرف نے اس منہ بولے بیٹے کی حکومت پر شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تو تب اس بیٹے کی آنکھیں کھلیں اور اسے احساس ہوا کہ آمریت کیا ہوتی ہے، ریاستی جبر کیا ہوتا ہے اور جمہوری جدو جہدکی راہ میں قربان ہونا کتنا جان جوکھوں کا کام ہے ۔ بقولِ اسد اللہ خان غالب یارب زمانہ مجھ کو مٹا تا ہے کس لئے۔۔ لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میںحد چائیے سزا میں عقوبت کے واسطے۔۔آخر گنا ہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں ظلم و جبر کے جان لیوا لمحات میں میاں محمد نواز شریف کو ذولفقار علی بھٹو کی بہت یاد بہت آئی ہو گی کیونکہ وہی تو ایک شخص تھا جس نے آمریت اور جمہو ریت کے معنی سمجھائے تھے اور وقتِ ابتلا مر مٹنے کی راہ دکھا ئی تھی لیکن اس سچا ئی کا کیا کیا جائے کہ اسے تو خود اپنے آقا و مو لا کے ساتھ مل کر ایک سازش کے تحت پھانسی کے پھندے تک پہنچایا تھا تا کہ چند روزہ اور عارضی اقتدار کی طاقت اور لذتوں سے لطف اندوز ہوا جائے۔وقت کی سچائی بھی کیا چیز ہے کہ کبھی کبھی وہ لوگ جنھیں انسان اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پلاتا ہے وہی اس کے ہیروبن کر نمودار ہو جاتے ہیں۔ منہ بولے بیٹے پر بھی ایسی ہی سا عتیں آئی تھیں جن میںذولفقار علی بھٹو کا سراپا س کے سامنے کھڑا تھا اور منہ بولا بیٹا فرطِ جذبات میں اس کے سامنے دو زانو بیٹھا ہو ا تھا ۔ دل کی کچھ کیفیتیں بیان کرنے کیلئے نہیں ہوتیں بلکہ صرف محسوس کرنے کیلئے ہوتی ہیں اور عوام کے سامنے جن کا اظہار نہیں کیا جاتا۔اسے من کی دنیا کہتے ہیں۔ یہ من کی دنیا بھی بڑی عجیب و غریب چیز ہو تی ہے سچ کی حقیقی آماجگاہ جس میں مکر و ریا کا کوئی گزر نہیں ہوتا۔ من کی دنیا میں مستغرق رہنے اور حالِ دل چھپانے میں ہی اس کی ساری رعنائیاں پنہاں ہو تی ہیں کیونکہ اگر من کی دنیا کی کیفیت کو فاش کر دیا جائے تو نظامِ کائنات میں ارتعاش پیدا ہو جائے اور اس کا سارا نظم و نسق درہم برہم ہو جائے ۔ منصور حلاج نے من کی دنیا کی ایک جھلک انا ا لحق کے نعرے کی صورت میں دنیا پر آشکارہ کی تھی جس کی گونج کائنات میں آج بھی سنی اور محسوس جا سکتی ہے۔حیات کے رازدان (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال) نے اس کیفیت کو جس خوبصورت انداز میں قلم بند کیا ہے جی نہیں چاہتا کہ آپکو اس سے محروم کروں۔ سنئے اور اسمیں چھپے ہوئے حقائق تک پہنچنے کی کوشش کیجئے۔ من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کاراج۔۔من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن من کی دنیا من کی دنیا سوزو مستی جذب و شوق ۔۔ تن کی دنیا تن کی دنیا سود و سودامکرو فن
چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والوں کو سچ سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا انھیں اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے اور جب تک مفادت کا کھیل زندہ رہتا ہے صاحبِِ اقتدار شخصیت ان داتابنی رہتی ہے۔ اسکی مدح سرائی فرض قرار پاتی ہے۔منہ بولے بیٹے اور دوسرے حواریوں نے بھی یہی تو کیا تھا ۔ان لوگوں نے باہم مل کر جمہوریت کا نام لینے والوں کا وہ حشر کیا کہ الامان۔جنرل ضیا لحق کے برستے کوڑوں میں جمہو ریت پسند درد سے بلبلاتے تھے تو یہی تھے وہ لوگ جو جو واہ واہ کا شور بلند کرتے تھے اور جنرل ضیا الحق کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تھے کہ اس نے جن لوگوں کو سزائوں کے لئے چنا ہے وہ واقعی اس کے مستحق تھے۔ وہ ظلم و ستم کرتا رہا یہ دادو تحسین کے ڈھنڈورے برساتے رہے لیکن ایک دن اس کے بے پناہ ظلم و ستم کے کی گھڑیوں میں مقافاتِ عمل کی گھڑی آپہنچی اور ١٧ اگست ١٩٨٨ کو سفاک آمر کا جہاز ہوا میں آگ کے شعلوں کی نذر ہو کر پاش پاش ہو گیا اور خدائے ذولجلال نے بے ر حم آمر کو ایک جبڑے کی صورت میں باقی رکھا ۔ عبرت کی علامت اور نشانی کے طور پر تاکہ آنے والے اس سے سبق سیکھیں لیکن کیا آنے والوں حکمرانوں نے اس سے عبرت حاصل کی۔ بالکل نہیں کیونکہ بے پناہ طاقت کبھی بھی سبق نہیں سیکھا کرتی یہ منہ زور ہو تی ہے اور لوگوں کو اپنا غلام بنا نے کے خبط میں مبتلا رہتی ہے یہی ازل سے ہوتا آیا اور یہی ابد تک ہو تا رہے گا ۔ طاقت نہتے اور کمزوروں پر وار کرتی رہیگی انھیں اپنا غلام بنا تی رہیگی اور حریت پسند اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے سچائی کو زندہ ر کھتے رہیں گئے۔ تاریخ کا جبر تو ملا حظہ کیجئے کہ جسے فوجی سنگینوں کے سائے میں نہائت خاموشی سے منوں مٹی کے نیچے دبا دیا گیا تھا وہ آخرِ کار سچ کا سورج بن کر نمو دار ہوا۔وقت کی میزان میں جھوٹ اور فریب کے سکے نہیں چلتے ۔ وقت کی میزان میں صرف سچ کو تولا جاتا ہے۔اپنی انا کی سولی پر بھٹو کی لاش لٹکانے والے، اپنی محرومیوں کا اس سے بدلہ لینے والے، ذاتی مفا دات کا کھیل کھیلنے والے،جنرل ضیا الحق کی دست بوسی کرنے والے اور اسے امیرا لمومنین کا خطاب دینے والے وقت کی دھول میں گم ہو چکے ہیں اور کوئی ان کانام لیوا نہیں ہے لیکن وہ جو سچ کی علامت تھا تھا آج بھی زندہ ہے۔ تحریر: طارق حسین بٹ(چیرمین پاکستان پیپلز ادبی فورم)