اسلام آباد (جیوڈیسک) پرویز مشرف نے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کے لئے تشکیل دی جانے والی خصوصی عدالت، ججز، اور پراسیکیوٹر کی تقرری کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ تین درخواستیں دائر کیں جن کی سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل انور منصور خان نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت کے پاس خصوصی عدالت کی تشکیل کا اختیار ہے۔
صدر مملکت کے علاوہ کوئی آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا اختیار نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت یہ قانون بنایا گیا اس وقت تین ہائی کورٹس تھیں اب پانچ ہیں جن ججز کو تعینات کیا گیا وہ جانبدار ہیں۔ ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ تمام کور کمانڈرز کی مشاورت کے بعد ہوا تھا۔
صرف پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کیوں کی جا رہی ہے۔ قواعد کے بغیر مشرف کے خلاف کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے پرویز مشرف کی تینوں درخواستیں مسترد کر دیں۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری ہو گا۔ پرویز مشرف کے وکلاء نے اسلام آباد ہائیکورٹ سنگل بنچ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل جلد دائر کر دی جائے گی۔ خصوصی عدالت، ججوں اور پراسیکیوٹر کی تقرری اور مشرف کے ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جائیگا۔
ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت میں غداری ٹرائل کے خلاف درخواست کی سماعت بھی ہوئی۔ مشرف کے وکیل ایڈووکیٹ خالد رانجھا نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی۔ خصوصی عدالت میں سابق آرمی چیف کا ٹرائل نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے خلاف کارروائی صرف آرمی ایکٹ کے تحت ہو سکتی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام شامل کرنے کے خلاف درخواست کو نمٹاتے ہوئے درخواست گزار کو حکومت کی متعلقہ اتھارٹی سے رابطہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوسری طرف پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے 31 جولائی کے حکم نامے کیخلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی جس میں انہیں غداری کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ تین نومبر کو ایمرجنسی کا نفاذ اور پی سی او کا اجراء ہو چکا تھا اس لئے 7 رکنی بنچ کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ عدالت اس فیصلے کو کالعدم قرار دے۔