دو ہزار چھ میں جب اُس وقت ملک پر کے ایک آمر حکمران کی حکومت تھی اِس نے جب کے ای ایس سی کو آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے دباؤ میں آکریہ سوچے سمجھے بغیرکے حکومت کیاکرنے جارہی ہے پرائیویٹائزکیاتھاتو اِسے بے پناہ ایسے سبزباغات نظرآتے تھے کہ یہ اِن باغات میں کھوکر رہ گئی تھی اور اِس نے ایک لمحہ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کے ای ایس سی جیسے حساس ادارے کی نج کاری کے بعد اِسے کس قسم کے نقصانات کا سامنہ کرناپڑسکتاہے اِس نے300ارب روپے کے ذاتی مالیات رکھنے والے ادارے کے ای ایس سی کو 15ارب86کروڑمیں1.65کے حساب سے (اونے پونے داموں)ایک ایسے بروکرکوجس کا خالصتاََکام کنسٹرکشن کا ہے اور جیسے پاور یوٹیلیٹی چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھااِسے فروخت کردی اِس کے بعد بھی اِس نان ٹیکنیکل بروکرپر حکومتی کرم نوازیاںکچھ کم نہ ہوئیں اور حکومت نے تقریبا43ارب روپے کے ای ایس سی کو دیئے اور یوں اعدادوشمار کے مطابق حکومت اب تک اِسے 33ارب روپے مزید سبسڈی کی شکل میں دے چکی ہے اور اِس کے باوجود بھی کہایہ جارہاہے کہ حکومت نے آئندہ بجٹ 2011-12میں بھی 47ارب سے زائد کی رقم کے ای ایس سی کے لئے رکھی ہے ۔اعلی عدلیہ اِس کا بھی احتساب کرے اور اُن حقائق کی بھی چھان بین کرے کے کیا کے ای ایس سی کی نجکاری صاف وشفاف عمل کے تحت ہوئی ہے….؟یا سابق اور موجودہ حکمرانوں نے دیدہ ودانستہ طور پر ملک کے اِس حساس توانائی پیداکرنے والے ادارے کو اونے پونے داموں میں فروخت کرکے ملک دشمن آقاؤں کی خوشنودی توحاصل کرلی مگر کراچی جیسے بین الاقوامی شہر کی ترقی اور خوشحالی کے راستے بندکرکے نہ صرف شہرکراچی بلکہ ملک کا بھی بیڑاعرق کردیا۔ اِس سارے منظر اور پس منظر کے بعد اگر یہ کہاجائے کہ اتنی ڈھیر ساری حکومتی مہربانیوں کے باوجود بھی کے ای ایس سی کی موجودہ انتظامیہ اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہر کئے ہوئے کہ اِس نے اِس سارے عرصے کے دوران حکومت سے بہت کچھ لینے کے باوجود بھی یہ اپنے معاہدے کے مطابق وہ کارکردگی نہیں دکھاپائی ہے جس کا اِس نے حکومت سے وعدہ کیاتھا اُلٹادبئی بیس کمپنی البرج جس کے تمام مالکان کا تعلق پاکستان سے اُنہوں نے دولت کمانے کے چکر میں پڑکر دبئی کو تو روشن کررکھاہے مگر اپنے ہی ملک پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی اور صنعتی مرکزی شہرکراچی میں بجلی کا مصنوعی بحران پیداکرکے اِس کی ترقی کے اور خوشحالی کے تمام راستے بندکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی رکھی ہے اِس نے اِس ادارے سے بجلی فراہم نہ کرکے بھی اپنامنافع کمانے کے لئے ہر وہ ناجائز طریقہ اختیار کیا ہواہے جِسے دنیاکا کوئی بھی قانون درست قرار نہیں دے سکتاہے۔ مگر اِس کے باوجود بھی ستم ظریفی یہ ہے یہ ادارہ مسلسل اپنے ٹیرف میں اضافہ کئے جارہاہے اور حکومت ہے کہ وہ مصالحتوں کا شکار ہونے کے باعث خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔جبکہ افسوسناک امر یہ ہے کہ کے ای ایس سی کی موجودہ انتظامیہ کی بے حسی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے شہر میں طویل عرصے تک ہونے والی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے شہرکراچی کی ہزاروں صنعتیں بندہوگئی ہیں جن میں کام کرنے والے7-8لاکھ مزرود بے روگار ہوگئے ہیں یوں کے ای ایس سی کی انتظامیہ کی بڑھتی ہوئی ہٹ دھرمی کے باعث لوڈشیڈنگ کے جِن نے شہر کراچی کو اندھیرے میں ڈبوکر اِس شہر کی رونق تباہ وبرباد کردی ہے تووہیں اِس نے شہر کراچی کے امن و سکون کو بھی داؤپر لگادیاہے آئے روز شہر کے درجن بھر علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث پانی کی عدم فراہمی سے ستائے افراد شہر کی سڑکوں پر مشتعل ہوکر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں اِن کے اِن احتجاجوں کی وجہ سے شہر کی شاہراہوں پر گھنٹوں ٹریفک جام رہنامعمول بن گیاہے جس کی وجہ سے شہر کا معاملات زندگی بھی بری طرح سے مفلوج ہوکر رہ جاتاہے اور اِس پر ستم طریفی یہ کہ شہر کے اکثرجلدباز وہ افراد جنہیں اپنے کاموں اور گھروں پر پہنچنے کی بہت جلدی ہوتی ہے وہ الٹے سیدھے راستوں حتی کہ فٹ پاتھوں پر بھی اپنی سواریاں چڑھاکر شاہراہوں پر رینگتااور سسکتاہواٹریفک جام کرنے میں اپناکردار اداکرکے شیطان کے اُس کام کی تکمیل کرتے ہیں کہ ”جلدی کا کام شیطان کا ”اور وہ اپنے اِس عمل سے یہ ثابت کردیتے ہیں کہ وہ انسانیت کے دائرہ کار سے نکل چکے ہیں اور وہ اَب شیطان کی اُس صف میں شامل ہوچکے ہیں جنہیں دیکھ کر اَب یقینی طور پر کوئی انہیں انسان کہہ کر انسانیت کے توہین کرے گا ۔ بہرحال ایسے افراد جو شہر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں مجبور اور بے کس عوام کے احتجاجوں کے باعث اپنی منزلوں پر جلدی پہنچنے کے خواہشمند ہوں اُنہیں چاہئے کہ وہ الٹے سیدھے راستے سے جلدی نکلنے کے چکر میں اپنی موٹرسائیکلوں ،کاروں اور دوسری سواریوں کو سٹرکوں پر پھنسانے سے اجتناب برتریں اور اُس ٹریفک قانون کے مطابق اپنی گاڑیاں چلائیں جس کی انہیں قانون اجازت دیتاہے اِن کی ایک ذراسی غلطی سے ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر ایمبولینسوں میں نہ جانے اتنی مریض ایسے ہوتے ہیں جو اسپتال تک پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں موت کے ہاتھوں اپنی زندگی ہارجاتے ہیں۔ جبکہ شہر بھر میں بجلی کی لودشیڈنگ کے باعث ہونے والے احتجاجوں کے باوجود بھی کے ای ایس سی کی انتظامیہ کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اِن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے اُلٹا اِس نے اپنی تما م کوتاہیوں اور نالائقیوںکا ذمہ دار اپنے ادارے کے اُن ملازمین کو ٹھیرادیاہے جنہیں یہ مختلف بہانوں سے پریشان کرنے کے ساتھ ساتھ ڈرادھمکاکر اور جبری طورپر نوکری سے نکالنے کا بھی ایک ایساسلسلہ شروع جاری رکھے ہوئے ہے جس کی وجہ سے بھی شہر میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھاہے حالانکہ اِس ساری سازش کے پیچھے بھی صرف یہ ہی ایک منصوبہ کارفرماہے کہ کسی بھی طرح سے ادارے کو زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہوجبکہ اِسی ادارے کے سو سے زائد ڈائریکٹرزکی تنخواہ دس لاکھ سے 65لاکھ تک ہیںجن کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ وہ لوڈشیڈنگ کے نت نئے طریقے متعار ف کرائیں ناکہ وہ طریقے سوچیں جن سے کے ای ایس سی کو بجلی پیداکرنے میں مہارت حاصل ہوجائے اور یوںکے ای ایس ہی کی انتظامیہ نے اپناسارانزلہ گریاہے اِن غریب محنت کشوں پر جن کے گلوں پر آج چھری پھیر کر کے ای ایس سی کی مقامی اور دبئی میں بیٹھی انتظامیہ دولت کا مینار بلندکرنچاہ رہی ہے۔ اِن حالات میں بالآخر گزشتہ پانچ سالوں سے بالعموم اور تین ساڑے تین ماہ سے بالخصوص بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کاعذاب جھیلتے اور ذہنی اور جسمانی اذیتیں برداشت کرتے اہلیان کراچی کے دکھوں کا مداوا اُس وقت ہوہی گیاجب کے ای ایس سی انتظامیہ اور احتجاجی ملازمین کے درمیان تنازع کے المناک نتائج سامنے آنے کے بعد بجلی بحران کے حل کے لئے گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العبادخان اورصوبائی وزیرداخلہ منظوروسان نے سی بی اے (یونین) کے نمائندوںاور اعلی انتظامی افسران سے علیحدہ علیحدہ مذاکرات کئے یوں اپنے مفادات کی جنگ لڑتی ضدی کے ای ایس سی انتظامیہ اورمحب وطن کے ای ایس سی کے احتجاجی ملازمین نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے علیحدہ علیحدہ مذاکرات کے بعد گزشتہ جمعرات کی درمیانی شب سے فیلڈآپریشنز بحال کرنے اور پیر25جولائی تک کورنرہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنامؤخرکرنے کا اعلان کیاجبکہ کے ای ایس سی انتظامیہ اور احتجاجی ملازمین کی گورنر سندھ سے ہونے والی ملاقات کے بعد جو صورت حال سامنے آئے گی اِس کا اندازہ تو بعد ہی میں ہوسکے گا ۔ جبکہ یہاں یہ امرقابلِ ستائش اور حوصلہ افزاضرورہے کہ گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان اور صوبائی وزیرداخلہ منظوروسان نے کے ای ایس سی کے مزدوروں کے مطالبات کو جائز اور قانونی تسلیم کرتے ہوئے جو پیر25جولائی تک اِن کے کے ای ایس سی کی انتظامیہ کے درمیان گھمبیرہوتے معاملات کے حل کئے جانے کی یقین دہائی یہ کہتے ہوئے کرائی ہے کہ 25جولائی سے قبل ہی کے ای ایس سی کے ملازمین اور کراچی کے شہری بجلی کے حوالے سے خوشخبری سُنیں گے تو یہاں ہماری بھی یہ دعاہے کہ اللہ گورنرسندھ اور وزیرداخلہ کی کوششوں کو ضرور قبول ومقبول فرمائے اور کے ای ایس سی کے ملازمین اور شہرکراچی کے عوام کا بجلی جیسے درینہ مسلے کا کوئی بہتر حل نکالے (آمین)جبکہ گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العبادخان اور صوبائی وزیرداخلہ منظوروسان کی اِن مثبت اور تعمیری کوششوں کے جواب میں کے ای ایس سی کی موجودہ انتظامیہ نے گورنرسندھ اور وزیرداخلہ کوباورکراتے ہوئے کہاہے کہ مزدوروں کے مطالبات کوتسلیم کرانے کے لئے حکومت سندھ کو دبئی بات کرنی ہوگی اِس کے بغیر کے ای ایس سی کی مقامی انتظامیہ نہ تو مزدوروں کے خود سے مطالبات تسلیم کرنے کے حق میں ہے اور نہ ہی شہر کراچی سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے ہی تیار ہوگی گوکہ کے ای ایس سی کی مقامی انتظامیہ کے اِس ٹکے سے جواب کے بعد ایسامحسوس ہورہاہے کہ جیسے کے ای ایس سی کی انتظامیہ اپنے تئیں خود سے کوئی بھی ایسامثبت کردار قطعااداکرنے کوتیار نہیں ہے جس سے شہر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہواور ملازمین کے مسائل حل ہوں۔ مگر اِس کے باوجود بھی وہ صارفینِ بجلی جوایک عرصے سے کے ای ایس سی کی ضدی انتظامیہ اور حق پر قائم احتجاجی ملازمین کی جنگ میں پس رہے تھے اُنہوں نے گورنرہاؤس میں ہونے والی ملاقات کو کسی حدتک شہرکراچی کے لئے خوش آئندہ قرار دیاہے اور اُمید ظاہر کی ہے کہ اِس کے عنقریب سودمند نتائج ضرور برآمد ہوں گے اور شہر کراچی جو ”روشیوں کا شہر کہلاتا ہے” ایک طویل سے اندھیرے میں ڈوب گیاتھایا کے ای ایس سی کی بجلی کو ذخیرہ کرنے والی انتظامیہ نے دیدہ و دانستہ طور پر چوری اور سینہ جوڑی مصداق وقتافوقتا کبھی فرنس آئل کی کمی اور کبھی گیس کی کم فراہمی کا بہانہ بناکر ایک طرف تو یہ کبھی لوڈشیڈنگ تو کبھی ٹکنیکل فالٹس کے سہارے شہر میں بجلی کا طویل تعطل پیداکرکے فرنس آئل اور گیس بچاتی رہی اور شہر میں اندھیراکرکے اِس روشنیوں کا شہر کہلانے والے شہر کراچی سے اِس کا یہ اعزاز چھین کراِسے اندھیروں کا شہر کہلانے پر مجبورکرتی رہی توکبھی اپنی نالائقیوں کو احتجاجی ملازمین کے سر تھونپ کر عوام کو بے وقوف بناتی رہی ہے اور دوسری جانب کے ای ایس سی انتظامیہ اپنی اِس پریکٹس پر بھی قائم رہ کر یہ بغیرکسی ٹھوس ثبوت کے بوکس طریقے سے ASSDاورAVGبلوں کی مد میں صارفین سے زائد بل بھی وصول کررہی ہے اِس سے بھی اَب شائد عوام کو نجات مل جائے گی۔اور اِس کے ساتھ ہی شہرکراچی میں کے ای ایس سی کی بے حس انتظامیہ کے رویوں کے پیش نظر مختلف ذرائع اِن خدشات کا بھی اظہارکررہے ہیں کہ کے ای ایس سی کی موجودہ انتظامیہ سے کسی بھی قسم کے لچک کے مظاہرے کی اُمیدنہیں کی جاسکتی ہے اور ممکن ہے کہ صدرمملکت آصف علی زرداری شہر کراچی کو اندھیرے میں ڈوبنے سے بچانے اور مزدوروں کی نوکریوں کو تحفظ فراہم کرنے اور کے ای ایس سی کو دوبارہ حکومتی تحویل مین لینے کے خاطر صدداتی آرڈینس جاری کردیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر واقعی صدرمملکت آصف علی زرداری نے اپنی ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوامی مشکلات اور کے ای ایس سی کے ملازمین کی نوکریوں کے تحفظ کے لئے ایساکوئی آرڈینس جاری کیا تو یہ نہ صرف ملازمین کے حق میں بہتر ہوگابلکہ شہرکراچی کے عوام کو کے ای ایس سی کو حکومتی تحویل میں جانے کے بعد جو ریلیف میسر آئے گا کراچی کے عوام اِسے بیان نہیں کرپائیں گے۔ اگرچہ اطلاعات یہ آئی ہیں کہ گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے (کے ای ایس سی کی انتظامیہ اور احتجاجی ملازمین )دونوں فریقین ہدایت کی ہے کہ وہ بجلی کی فراہمی میں تعطل کو دور کرنے میں اپنامثبت کردار اداکریںاور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے ملازمین کو بھی اِس بات کا پوراپورایقین دلایاکہ اِن کے تمام جائزمطالبات کی منظوری کے لئے اپناپورااثرورسوخ استعمال کریں گے جبکہ اُمیدافزاخبر یہ بھی ہے کہ گورنر نے کمشنرکراچی اورپولیس حکام کو بھی خصوصی ہدایت کی کہ وہ فیلڈآپریشنزمیں حائل تمام رکاوٹوں کو اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے فی الفور دور کریں ۔ آج اِس بات سے شائد ہر ذی شعور پاکستانی آگاہ ہوچکاہوکہ پاکستان میں توانائیوں کے بحرانوں کے پیچھے بھی یہود ہنود کے مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی وہ سازش کارفرماہے جس کے ذریعے وہ پاکستان کو معاشی اور اقتصادی لحاظ سے تباہ کرنا چاہتے ہیں اور اَب ملک کے موحودہ دگرگوں ہوتے حالات اور واقعات سے تو یہ اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ وہ اپنی اِس سازش میں بڑی حد تک کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں چونکہ یہ بات حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈبینک نے دنیا کے جن ممالک میں بھی اپنے قدم جمائے ہیں وہاں کی معیشت اور اقتصادی ڈھانچے کو اپنی ناقص اور فرسودہ پالیسیوں اور وہاں بجلی اور دیگر توانائی پیداکرنے والے اداروں کو پرائیویٹایز کرنے کے ساتھ ساتھ اَن اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں کم کرنے ،ریٹائرڈملازمین کی پنشن سے کٹوتی کرنے ،اوقات کار بڑھانے ،ملازمین سے نوکریوں کا تحفظ ختم کرنے اورمزیدبھرتیوں پر پابندی لگانے جیسی پالیسیاں متعار ف کرواکر اِن ممالک میں تباہ و برباد ہی پھیلادی ہے جن کی مثالیں یہ ممالک ہیںجن میں انڈونیشیا، ارجنٹائن اور تنزانیہ شامل ہیں ۔ یہاںہم اپنی اِس بات کو سمجھانے کے لئے طارق اسمعیل ساگر کی ایک کتاب کے باب” شیطانی کنیسہ SYNAGOGUEکابھیانک کردار” کو پیش کرناچاہیں گے جس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہودوہنوددنیااور بالخصوص مسلم ممالک کو معاشی اور اقتصادی اور سیاسی طور پر کس طرح سے تباہ کئے جانے کے عالمی منصوبے بنائے ہیں باب میں درج ہے کہ” ائنڈریوکیرنگٹن ہچکاک کا شمار دنیاکے بہترین تحقیقی کتابیں لکھنے والے مصنفین میں ہوتاہے 2006ء میں اُن کی اہم تصنیف THE SYNAGOGUE OF STATANجب منظرعام پر آئی تو اِس کتاب نے دنیابھر میں اہک بھونچال پیداکردیا تھا اِس لئے کہ ائنڈر یوکیرنگٹن نے اپنی اِس کتا ب میں دنیا کے امن وسکون کو تباہی کی بھینٹ چڑھانے والے اُن شیطانی گروہ کے گزشتہ بارہ سوسال کی کہانی انتہائی اختصار سے بیان کرتے ہوئے ساری دنیا میں اِس شیطانی گروہ کی سازشوں کوبے نقاب کیاتھا جس نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قیام کے بعد اِس کے ذریعے دنیا کی معیشت پر قبضہ کرنے اور اِسے اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا منصوبہ بنایاتھااور آج ہمارے ملک میں بھی یہودیوں کے یہ ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈبینک اپنی اُسی پالیسی پر عمل پیراہوکروہی کچھ کررہے ہیں جیسااِنہوں نے مندرجہ بالاممالک میں کیاہے لہذاآپ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت جس قدر جلد ممکن ہوسکے اِن ملک دشمن اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے چھٹکارہ حاصل کرے اور شہرکراچی کا کھویا ہوااِس کا یہ اعزاز کہ ‘ ‘کراچی روشنیوں کا شہر ہے” اِسے دوبارہ دلائیں اور کے ای ایس سی کو ملک دشمن البرج کمپنی سے واپس لے کر حکومتی تحویل میںدے مگر اِس کے ساتھ ہی ہم صارفین بجلی سے یہ عرض کریں گے کہ وہ بجلی چوری سے توبہ کریں اور ایمانداری کی بنیادوں پر اپنے بجلی کے بل مقررہ تاریخوں میں جمع کرادیاکریں اگر صارفین بجلی کی ایمانداری سے بجلی کے بل جمع کرانے کی پریکٹس جاری رہتی تو کسی میں دم نہیں تھا کہ کوئی کے ای ایس سی کو پرائیویٹائرکرتالہذاعوام کو بھی چاہئے کہ وہ KPS(کُنڈاپاورسپلائی) سے اجتناب برتیںاور چوری کی بجلی کے استعمال سے خود کو بچائیں اور یہ شیوہ چھوڑ دیں جیسا کہ شاعر نے عرض کیاہے کہہم مُسلمان ہیں، ہر لمحہ ہے دعویٰ اپنا اک خُدا ، ایک نبی، ایک ہے کعبہ اپناٹیکس سرکار کو دینانہیں عادت اپنی چوری بجلی کی یہ برسوں سے ہے شیوہ اپنا