ملک میں ہر طرف خون بہہ رہا ہے لوگ ناحق مارے جا رہے ہیں، ایسے میں انسانیت شرمسار ہے اور حیوانیت دانت بِسور رہی ہے۔ ملک بھر میں گولیوں کی شور کا راج ہے۔ جن جن کے گھروں میں ناحق خون بہہ چکا ہے ان کی آہ و بکا سے ملک گونج رہا ہے۔اب تو ملک میں حالت یہ ہے کہ ہسپتالوں کی ایمرجنسی بھی محفوظ نہیں ، وہاں بھی دہشت گردی جیسے واقعات رونما ہو رہے ہیں ، ظاہر ہے کہ اس کردار و عمل کے ساتھ ہم دنیا کی مہذب اقوام کی صفوں میں کس طرح کھڑے ہو سکتے ہیں۔ حکمرانوں کے دعوے جھوٹ کے پلندوں میں تبدیل ہو رہا ہے اور وزارتِ داخلہ کے اقدامات و بیانات صرف دکھاوا کے مترادف ہی لگ رہے ہیں۔ ایسے میں الیکشن بھی سر پہ آگئے ہیں ، بجائے اس کے کہ امن و امان بحال کیا جائے سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے منشور کے ساتھ میدانِ عمل میں اُتر چکی ہیں اور ہر جماعت بلند و بانگ دعوؤں کا ایک پہاڑ کھڑا کرنے میں محو ہیں۔ اس طرح کے معاملات کو درست کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا قابلِ عمل منشور سامنے لانا چاہیئے تاکہ الیکشن پُرامن ، بامعنی اور فلاح کے نئے دور کا آغاز کیا جا سکے۔
افسوس کا مقام ہے کہ اکھٹے آزاد ہونے کے بعد ہم پستی کی طرف جا رہے ہیں اور ہمارا پڑوسی اٹھان کی طرف جا رہا ہے۔ اس قصے کو بھی چھوڑیں ہمارے ہی ملک کو دو لخت کرنے کے بعد بنگلہ دیش بنایا گیا آج اسی ملک کو دیکھ لیں کہ کس قدر تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہیں۔ اگر ترقی کا راز ان دونوں ملکوں کو سمجھ آگئی ہے تو ہمیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتی ۔ آج ہم لوگ صرف اس سر زمین کے لئے جان دینے کے دعویدار ہیں مگر اس کی ترقی، بھلائی کے لئے ایک قدم بھی بڑھانے کو تیار نہیں۔ ہمارا سسٹم چل رہا ہے اور بس! اگر کوئی بھی یہ کہے کہ سسٹم میں کچھ خرابیاں ہیں تو اسے بلا اضطراب درست کرنے کی طرف گامزن ہونا چاہیئے کیونکہ اگر سسٹم ٹھیک ہوگا تو ملک بھی ترقی کے زینے کی طرف اپنا قدم بڑھا سکے گا۔ اور ملک ترقی کرے گا تو ہمارے عوام کو بلا شبہ فائدہ پہنچے کا۔ ووٹ ایک معتبر فریضہ ہے اس کی قدر کی جانی چاہیئے مگر ہمارے یہاں اس کی قدر نہیں کی جاتی۔
ہمیں یہ تو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کی سیاست میں دسمبر اور جنوری کے مہینے بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب کی بار جنوری پاکستانی سیاست میں کچھ مختلف رنگ دکھانے والا ہے۔ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ جنوری اس بار پاکستانی سیاست میں اپنے گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑ جائے گا۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق حکومتی اتحادی جماعتیں اسی ماہ میں الگ ہو سکتیں ہیں، اور اپنے اپنے منشور کے مطابق الیکشن میں حصہ لینے کے لئے صف آراء ہو نگی۔ ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان میں نئے الیکشن وقت پر ہونگے یا نہیں اس کا فیصلہ بھی اسی مہینے میں ہو جائے گا۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن تو وقتِ مقررہ پر ہو جائیں گے مگر ایک معلق پارلیمنٹ ہی وجود میں آئے گا۔
Quaid E Azam
کسی پارٹی کو دو تہائی اکثریت ملتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس لئے بہتر تو یہی ہو گا کہ مخالفت در مخالفت کے بجائے اصلاحات کی طرف خصوصی توجہ دیا جائے تاکہ عوام کو نظر آئے کہ واقعی سب سیاسی لوگ عوام کی بھلائی میں مصروفِ عمل ہو گئے ہیں۔ قارئین کرام کو اس بات کا تو یقینا علم ہی ہو گا کہ کسی بھی قسم کے قیمتی چیزکا حصول ایک الگ بات ہے جبکہ اس قیمتی چیز کی حفاظت اہم پہلو ہوتا ہے۔ مگر ہم لوگ آج بھی قائد اعظم کے پاکستان کو سنبھالنے سے قاصر ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اس قیمتی چیز کی حفاظت قطعی طور پر نہیں کر رہے ۔ کیوں نہیں کر رہے یا کیوں نہیں کر پا رہے یہ سب جاننا ہم سب کیلئے بہت ضروری امر ہے مگر اس پر بھی سوال اٹھ سکتا ہے کہ یہ سب ہمیں بتائے گا کون ، بہتی گنگا اور حمام میں تو سب ہی غوطہ زن ہیں اور اگر کوئی چاہتا ہے کہ قائد اعظم کا اصل پاکستان اصل اصلاحات کے ساتھ دوبارہ قائم ہو جائے تو اس کے راستے میں بھی روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ یہی ہمارے ملک اور ہمارے لوگوں کا المیہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ” ایک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا” ۔آج دو لخت ہونے کے بعد جو پاکستان ہمارے پاس اس دنیا پر قائم ہے مطلب باقی ماندہ پاکستان جو ہمارے پاس ہے اسے بھی توڑنے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔ روزانہ کا معمول ہے کہ دیڑھ سے دو درجن ناحق خون بہایا جا رہا ہے، پولیس سے لیکر دیگر ادارے تک کوئی بھی آج محفوظ نہیں ہے۔ ائیر بیس ہوں یا کوئی ہیڈ کوارٹر ہر جگہ حملہ آور با آسانی داخل ہوکر بربادی پھیلا رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ حشر ہم نے ہی کیا ہے قائد کے پاکستان کا۔ خدارا اب ہوش کے ناخن لو ورنہ داستاں بھی نہ ہوگی ہماری داستانوں میں۔ ناامیدی اور مایوسیوں کا دلدل روز بروز ہم پر حاوی ہوتی جا رہی ہے ان تمام حالات کو سنبھالنے کیلئے کوئی تو مسیحا پیدا ہونا ضروری ہے جو ہمارے پیارے پاکستان کی نیّا پار لگائے۔
ہم یہ تو کہتے ہیں کہ ملک میں گذشتہ پانچ برسوں سے ہمارا پارلیمنٹ شاد و آباد ہے، ساتھ میں اس کے ممبران بھی ہیں جو اپنے آپ کو عوامی نمائندہ کہتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں جمہوری نظام چل رہا ہے لیکن جب ہم اس پارلیمان کا جائزہ لیتے ہیں تو عوام الناس کو مکمل مایوسی کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ پارلیمان اور پارلیمان کے توسط سے قائم حکومت نے سب سے بڑا عوامی مسئلہ امن و امان کو ابھی تک حل نہیں کیا۔ دسمبر اور جنوری کے اس سخت ترین سردیوں میں بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے اور روزانہ کم از کم ساڑھے چار گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کر کے عوام کو اندھیروں میں ڈھکیل دیا گیا ہے، گیس پہلے اسٹیشنوں پر ناپید تھی آج گھروں کے چولہوں سے بھی اکثر مقامات پر غائب ہے، اور ان دونوں چیزوں کے ریٹ جنوری سے بڑھا بھی دیئے گئے ہیں۔ یہ ہے ہمارا نظام، امن و امان کی دگر گوں صورتحال کی وجہ سے عوام بے یارو مددگار ہو گئے ہیں۔
Suicide Attacks Pakistan
ملک کا کوئی بھی شہر دہشت گردوں سے محفوظ نہیں ، خود کش دھماکے، ریموٹ کنٹرول دھماکے اور اچانک بازاروں میں فائرنگ کے واقعات نے ملک کے ہر شہری کو عدم تحفظ کا شکار بنا دیا ہے۔ ہر جگہ حکومتی رِٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور حکومت بجائے عوام کا تحفظ کرنے کے مذاکرات کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے۔ یہ کہہ سکتے ہیں ہر طرف اندھیر نگری اور چوپٹ راج مچا ہوا ہے جس کا جو دل چاہتا ہے کرتا پھر رہا ہے۔ اربابِ اختیار کو چاہیئے کہ سب سے پہلے جمہوریت کے ثمر کے طور پر اپنے عوام کو امن و امان کا پھل پیش کرے تاکہ لوگ آزادی کے ساتھ گھوم پھر سکیں، دفتروں کو جا سکیں، اور اپنے تمام کاموں کو بغیر کسی خطرات کے انجام دے سکیں۔ کاش کہ ایسا ہو جائے۔
آخر کلام میں بس اتنا ہی عرض کروں گا کہ احتجاج ضرور کریں ، قوم کے مستقبل کو ضرور سنواریں، اصلاحات ضرور لائیں ، پیچیدگیاں ضرور دور کریں، سسٹم ضرور تبدیل کریں، مگر احتجاج کے پیچھے ملک اور عوام کے املاک کا نقصان نہ کیا جائے۔ ویسے بھی انقلاب لانے کیلئے کچھ قربانی تو دینی ہی پڑتی ہیں تب ہی انقلاب آتا ہے اور آنے والی نسلیں اپنے اسلاف کو تب ہی یاد رکھتی ہیں۔ صرف کمروں میں یا ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اب احتجاج کرنے کے زمانے بیت گئے، اب تو یہ حال کہ سڑکوں پر نکل کر لڑائی لڑنے سے بھی اپنا حق لوگوں کو نہیں ملتا۔ بہر حال ضرورت اس بات کی ہے کہ سبھی علمائ، خطبائ، سیاسی رہنما، دانشور ایک پلیٹ فارم پر آکر کوششیں کریں اور حکومت سے ملاقات کریں اور اپنے جائز مطالبات ان کے سامنے پیش کریں تو امید کیا جا سکتا ہے کہ مطالبات ضرور پورے ہونگے مگر اس پر بھی یہ شرط لاگو ہو گا کہ اپنے ذاتی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر ملکی مفادات کو آگے لایا جائے۔ کیونکہ یہ زندگی چند روزہ ہے کام وہ کرنا چاہیئے جس پر آنے والی نسلیں ہم پر فخر کر سکیں۔ آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گے معصرو جب معلوم ہو گا انکو تم نے مستقبل سنوارا ہے