میں جس بس میں سفر کر رہا تھا اس میںچند اسٹوڈنٹ بھی موجودتھے میر ی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے دو اسٹوڈنٹ نہائیت ہی شریر معلوم ہو رہے تھے میر ی نظر جب سے اُن پر پڑ ی وہ بس شرارتیں ہی کئیے جارہے تھے ایک کے دماغ میں کوئی با ت آئی اور اس نے اپنے ساتھی سے کہا دیکھنا میں تھوڑ ی دیر میں تمہیں ایک کارنامہ دکھاتا ہوں اسکی یہ بات سن کر میں نے. اپنی نظریں ان کے اپر جما لیںاب ہوا یہ کہ ایک سٹاپ پر گاڑی رکی تو انکے سامنے والی سیٹ پر بیٹھے ایک اسٹو ڈنٹ نے بس کے شیشے سے سر باہر نکا لا تو پیچھے بیٹھے شرارتی اسٹوڈنٹ نے زور سے تھپڑ اسکے سر پر دے مارا ،اور کہا امجد سر با ہر مت نکالو ! یہ حرکت کرنے کے بعدپیچھے بیٹھے دونوں دوست آپس میں کھل کھلاا نے لگے ا ور پھر یہی حرکت انہوں نے تین بار دہرائی میں حیران تھا کہ سامنے والا اسٹوڈنٹ کس قدر خاموشی سے بیٹھا اور یہ سب کچھ برداشت کئے جارہا ہے۔لیکن جب چوتھی بار بھی انہوں نے یہی حرکت دہرائی تو سامنے والی سیٹ پر جس کی پٹائی ہو رہی تھی اُسکا دوست غصے میں آ کر اپنے دوست سے بولا ! یار تم مار کھاتے جارہے ہو انہیں بتاتے کیوں نہیں کہ تم امجد نہیں ہو ، میں اُسکا احمقانہ جواب سُن کراپنی ہنسی پرکنٹرول نہ کر سکا ۔اس نے جواب دیا !چپ کریار میں تو جان بوجھ کر انہیں بیوقوف بنا رہا ہوں۔ اسٹو ڈنٹس کی شرارتیں دیکھ کر میںنے ہنستے ہنستے اپنے پاس پڑے اخبار کو کھول کر پڑھنا شروع کیا ،یہ 26نومبر 2011کا دن تھا اور میر ی نظر اخبار کی اس ہیڈ لائن پر پڑی کہ نیٹو فورسز نے پاک افغان سرحدپر واقع چیک پوسٹ پر جنگی جہازوںسے رات کی تاریکی میںحملہ کرکے پاکستان آرمی کے 24فوجیوں جوانوں کو شہید کردیا جس میں دو آفیسر زمیجر مجاہد حسین اور کیپٹن عثمان علی بھی شامل تھے۔اس خبر کے پڑھتے ہی میر ا مُسکراتا چہرہ بے ساختہ طور پر غمزادہ ہوگیا میں نے اخبار بند کیا اور ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے ان سوچوں میں کھوگیا کہ آخر ہر بار پاکستان ہی کیوں امریکی جارحیت کا نشانہ بنتا ہے کیونکہ یہ کوئی پہلی بار ایسا نہیں ہورہااس سے پہلے بھی چار بار نیٹو فورسز نے اپنی مکارانہ پالیسی سے پاکستانی فورسز پر حملہ کیا ہمارے فوجی جوانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے اور بعد میں اسی طرح غلط فہمی اور پچھتاوے کے ڈرامے کرتے پائے گئے ہیں ۔امر یکی جارحیت پر پاکستان کے عوام شدید ردِعمل ظاہر کر رہے ہیں کیونکہ امریکہ نے پاکستان کی آزادی ا ور خود مختاری پربراہ راست حملہ کیا ہے دینا کہ کوئی بھی قانون کسی بھی ملک کو کسی دوسرے مُلک کی سرحد عبور کرکے حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن پوری دنیا میں امریکہ واحد جارح ملک ہے جس نے عالمی قانون کی جس طرح دھجیاں اڑائی ہیں تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیںملتی۔ دوسر ے ملکوں کی سرحدوں میں گھس کر نہتے معصوم لوگوں کو نشانہ بنانا یہ سرا سر امر یکہ کی غنڈہ گردی اور فر عونیت ہے۔ عوام کا شدید ردعمل دیکھتے ہو ئے حکومت پاکستان کی طرف سے بھی امریکی جارحیت کے خلاف شدید رنج و غصے کا اظہارکیا گیااور وزیر اعظم کی طرف سے دئیے گئے کافی پر جوش بیانا ت بھی سامنے آئے جیساکہ اب پاکستان کے تعلقات امریکہ کے ساتھ پہلے جیسے نہیں رہیں گے اور پاکستان کی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ یہاں تک کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی زیر صدرات کابینہ کے دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ نیٹو کو براستہ پاکستان سے افغانستان جانے والی سپلائی لائن روک دی جائے اور کمیٹی نے امریکی فوج سے پندرہ روز کے اند ر اندر شمسی ائیر بیس خالی کروانے کی ہدایت کی ہے یاد رہے کہ ماضی میں امریکی فورس شمسی ائیر بیس ڈرون حملوں کے لیئے استعمال کرتی رہی ہے۔ عوام کو خاموش رکھنے کے لیئے حکومت کا جذبہ حب الوطنی سے سرشار نظر آنا یہ سب چند دنوں کا ایک ڈرامہ ہوتا ہے جو ہر باراسطرح کے واقعہ کے بعد عوام کو دیکھنے کو ملتا ہے اورپھر نہ جانے امریکہ ہمارے حکمرانوں کو کونسی گیدڑ سنگھی سُنگھاتا ہے کہ یہ سب کچھ ایسے بھول جاتے ہیں کہ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا اور عوام کو یہ کہہ کر خاموش کر دیا جاتا ہے کہ حکومت نے یہ سب کچھ ملک کے بہترین مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے یہ مفاد کیا ہیں اورکس کے لیئے ہیں وہ خد ا ہی بہتر جانتا ہے حقیقت میں ہمارے حکمران بار بار امریکہ کی مکارانہ پالیسوں سے بے وقوف بنتے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمران سمجھتے یہ ہیں کہ و ہ امریکہ کو بیوقوف بنا رہے ہیں،شاید ہمارے حکمرانوں کی سوچ بھی بس میں بیٹھے اُس اسٹوڈنٹ جیسی ہے جو بار بار مار کھانے کے باوجود بھی یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ مارنے والے کو بیوقوف بنا رہا ہے۔امریکی جارحیت سے پاکستانی فوجی جوانوں کے شہید ہونے میں ،پاکستان کی مذہبی و سیاسی جماعتیں ،عسکری قوتیں اور پوری قوم کے جذبات ایک سے ہیں اور اب وقت ہے کہ حکومت پاکستان اس قومی یکجہتی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کر ے اور جس طرح نیٹو کی سپلائی لا ئن کو روکا ہوا ہے اسی پر ڈٹیں رہیںجب تک امریکہ ہمارے وہ تمام مطالبات مان نہیں لیتے جو ہم منوانا چاہتے ہیں۔حکو مت پاکستان اگر چاہے تو یہ اُن کے پاس یہ سنہرا موقع ہے وہ تمام قرضے معاف کروانے کا جو امر یکہ سے لیئے ہو ئے ہیں،ڈرون حملے بند کروانے کا،اور مہمندایجنسی کے واقع میںمُلوث نیٹو کے فو جیوں کو قرار واقع سزا دینے کا۔اگر حکو مت نے یہ مو قع بھی ضائع کر دیااور ہر بار کی طرح اس بار بھی امر یکہ کے آگے بیچھ گئے جیسے ہمیشہ سے ہو تا آرہا ہے تو پھر سوائے ہاتھ مَلنے کے اور کچھ حاصل نہیںہوگا۔اگر ہماری حکومت کے دبائو ڈالنے سے امریکہ ہمارے مطالبات مان جاتا ہے تو کم از کم ہمارے 24شہیدوں کا خون تو رائیگاں نہیں جائے گا یقینا امریکہ کو ہمارے آگے جھکنا ہی پڑے گا کیونکہ امریکہ کو نیٹو کی سپلائی کے لیئے پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر نہیںآتا ہے اس سے پہلے کہ امریکہ روس کے بارے میں سوچتا روس نے پہلے ہی انکار کر دیاہے۔امریکہ کی اس نہام نہادہشت گردی کی جنگ میں تقریباً چالیس ہزار پاکستانی اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں امریکہ کو خوش کرنے کے لیئے اپنا جانی ،مالی نقصان کرنے کے باوجود بھی ا مریکہ کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ آج بھی وہ ہم سے ڈو مور کا مطالبہ کرتا ہے ہمارے جتنے پاکستانی فوجی جوان امریکہ کی وہ جنگ جو ہم لڑرہے ہیں اس میںشہید ہوئے ہیںہمار ا اتنا جانی یا مالی نقصان بھارت کے خلاف تین جنگوں میںبھی نہیںہوا۔آج پاکستان کے18کرڑور عوام حکومت پاکستان سے یہ سوال کرتے ہیں؟؟ ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہے،ہم کب تک امریکہ کے ذلت آمیز سلوک کو برداشت کرتے رہیںگئے اور آخر کب تک امریکہ کے ہر حملے کو آخری حملہ سمجھ کر قبول کرتے رہیںگئے اور ہر روز اسی طرح اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھاتے رہیںگئے۔امریکہ ہماری سرحدوں میںگھس کر ہمارے معصوم لوگوں کا قتل عام کررہاہے ہم اتنے بے بس اورلاچار ہو گئے ہیں کے24,24 لاشے اُٹھانے کے باوجود بھی امریکہ سے مطالبہ کرتے ہیں تو وہ صرف اور صرف معافی مانگنے کا،کیا امریکہ کے معافی مانگ لینے سے ہمار انتقام پورا ہوجاتاہے،ہمارے 24 شہید جوان ہمیں واپس مل جائیں گئے یقینا نہیں تو بس پھر بہت ہوگیا امریکہ کو یہ بتانا ہوگا کہ اب اُسکی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ ہمارے تمام سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ اب اپنے اقتدار کی فکر کرنے بجائے ملک وقوم کی فکر کریں او ر مُلکی سلامتی کے پیش نظر سب مل بیٹھ کر کوئی ایسی تدبیر کریںکہ مستقبل میںامریکہ اپنی مکارانہ جارحیت سے بعض رہے اور اس کام میںپاکستان کے 18 کروڑ عوام آپ کے ساتھ ہے۔ اگر اب بھی اس کو روکا نہ گیا تو پھر اسی طرح ہم ہر روز اپنے بے گناہ ،جوانوں ، معصوموں ،اور خواتین کی لاشیں اُٹھاتے رہیں گئے۔اور ہماری مائیں ,بہنیں اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے لاشوں پر بین کرتے کرتے مرتی رہیں گئی ۔امر یکہ نے اپنے کردار ،قول و فعل سے پوری دنیا پر یہ واضع کر دیا ہے کہ اس وقت وہ فرعون کا کردار ادا کر رہا جس طر ح ایک زمانے میںفرعون نے خدائی کا جھوٹا دعوٰی کرکے پوری دنیا پر حکو مت کرنا چاہتاتھا آج امر یکہ بھی فر عون کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی طا قت کے زور پر پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے لیکن آج کا فرعون امر یکہ شاید یہ بھول رہا ہے کہ ظلم آخر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب جب اس دنیا پر فرعون پیدا ہوا ہے تو تب تب فرعو نیت کے خاتمے کے لیئے اللہتعالیٰ نے ایک موسیٰ بھیجا ہے جو فرعون کو نیست و نابود کردیتا ہے اور آج کے امریکی فرعون کو صفہہ ہستی سے مٹانے کے لیئے پوری پاکستانی قوم کو اپنے اندر جذبہ حضرت موسیٰ پیدا کرنا ہوگا کیونکہ جذبہ موسیٰ کے سامنے فرعونیت کا خاتمہ یقینی ہے۔ تحریر:کفایت حسین کھوکھر