پولیس شیدے کو اُلٹا لٹکا کر مار رہی تھی اور اس مار سے بچنے کے لئے شیدا سب کچھ مان رہا تھا ،اوئے شیدے وزیرستان پر ڈراون حملے تم کرتے ہو ، جی حضور میں ہی کرتا ہوں ،اچھا تو وہ جو ریلوے کا انجن چوری ہوا تھا وہ کس نے کیا تھا ، جی وہ میں نے رات کو دیکھا کہ کوئی نہیں ہے تو انجن لے کر رفو چکر ہو گیا۔ اچھا اچھا زیادہ بک بک نہ کر یہ بتا کہ پاکستان میں بم دھماکے کون کرتا ہے ، میں ہی کرتا ہوں حضور سب کچھ مجھ پر ڈال دیں لیکن مجھے چھوڑ دیں خدا کا واسطہ ہے ، شیدا دھائی دے رہا تھا لیکن پولیس نہ جانے اس سے کیا منوانا چاہتی تھی ،ایک پولیس والے نے کہا کہ اچھا یہ بتا کہ ہمارے خلاف اخبارات میں بیان کون لگواتا ہے ، جی وہ میں ہی لگواتا ہوں ،اچھا اور ہمارے بڑوں کے خلاف جو افراد ہیں ان سے تعلق ہے تمہارا ، جی جی کیوں نہیں ، پولیس جو بھی کہتی شیدا مانتا جا رہا تھا۔
شیدا ایک اخباری رپورٹر تھا اسے اس پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا کہ ایک مذہبی جماعت کے کچھ کارکنوں نے الزام لگایا تھا کہ شیدا خود پیچھے رہتا ہے اور ہمارے خلاف دوسرے اخباری رپورٹرز کو کہہ کر بیان بازی کرواتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی خاتون بھی مذکورین کے خلاف بیان دیتی تو اس بیان کے پیچھے بھی شیدے کا ملوث ہونا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی۔ شیدا اپنی بے گناہی کے کئی ثبوت دے چکا تھا لیکن وہ کارکن ایک ہی بات کی رٹ لگائے رکھتے کہ یہ سب کچھ شیدا کروا رہا ہے ،اس کے جواب میں شیدا کہتا کہ میں ایک معمولی سا اخباری رپورٹر ہوں میری اتنی اوقات کہاں کہ میں کسی دوسرے کو کہہ کر آپ کے خلاف بیان لگواوں کیونکہ میں جس دوسرے اخباری رپورٹر کو کہوں گا وہ مجھے جواب دے گا کہ شیدے تمہارا بھی تو اخبار ہے تم اس میں کیوں نہیں ایسے بیانات لگواتے ، لیکن اس مذہبی جماعت کے کارکنان کے لئے ،، کاں چٹا ای ، تھا وہ کہتے تھے ،، ہم نے کہہ دیا سو کہہ دیا ان بیانات کے پیچھے شیدے کا ہاتھ ہے۔
Long March Tahir Ul Qadri
مرتا کیا نہ کرتا ، شیدے نے ان مذہبی کارکنان کے الزامات سے بچنے کے لئے شہر چھوڑنے کا پروگرام بنا لیا اور دوسرے شہر چلا گیا۔ یہ سوچ کرکہ اب میں الزامات کی زد میں نہیں آوں گا۔ لیکن شیدے کی بد قسمتی نے اس کا ساتھ نہ چھوڑا۔ مذہبی کارکنان سے دور ہونے کی وجہ سے اب مذہبی کارکن شیدے پر زیادہ شک کرنا شروع ہوگئے کہ وہ دور گیا ہی اسی لئے ہے کہ چھپ کر وار کر سکے۔ اس اثنا میں شیدے نے اس مذہبی جماعت کی کتابوں اور خطابات کو سننا شروع کر دیا تا کہ وہ بھی اس مذہبی جماعت کا حصہ بن سکے۔ اس محبت اور اپنائیت کا بھی کچھ خاص اثر ان کارکنان پر نہ ہو سکا۔ خیر حالات نے پلٹا کھایا اور اس مذہبی جماعت نے یک دم سیاسی رنگ اختیار کر لیا۔ ان کی طرف سے انقلاب کا نعرہ لگایا گیا اور انقلاب کے لئے کچھ شرائط لکھ لی گئیں۔
دن اور مقام طے قرار پا گیا لیکن وہ انقلابی ریلہ ٹھنڈ اور سرد ہواوں کے تھپیڑے کھا کر یا کسی سودے بازی کے تحت تھم گیا۔ اس انقلابی عمل کی ناکامی پر پاکستان کے بڑے بڑے نیوز چینلز کے رپورٹرز ، اینکر پرسن تجزیہ نگاروں اور کامیڈی پروگرامز کے اداکاروں نے اس انقلابی کاروان کی وہ ، کِٹ ، لگائی کہ خدا پناہ۔ اب آئی پھر سے شیدے کی شامت۔ شیدا بیچارہ گلیوں میں چھپ چھپا کر جی رہا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس مذہبی جماعت کے کارکنان پاکستان بھر کے نیوز چینلز ،تجزیہ نگاروں کی تنقید اور اداکاروں کی نقالیوں کا موجب بھی شیدے کو ٹھہرائیں گے۔ وہ یہ نہیں سوچیں گے کہ شیدا تو ٹھہرا ایک معمولی سا رپورٹر اور دوسری طرف ہیں اتنے بڑے بڑے اور پڑھے لکھے صحافی۔ خیر شیدے کو یہ الزام سننے کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ کیونکہ شیدے کو بے گناہ ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کے مد مقابل مذہبی اور اب سیاسی جماعت کے کارکنان میں ہار ماننا یا حقیقت کو تسلیم کرنا بہت مشکل ہے۔ سارا پاکستان اور دنیا بھر کے باشندے کہہ رہے ہیں کہ انقلابی نعرہ ڈرامہ تھا۔
Shafqat Ali Raza
مگر ، برین واش ،کارکن سننے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ بلکہ وہ اس ڈرامہ والی بات کے جواب میں بہت کچھ کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں سائنسدانوں نے مریخ پر مشین بھیجی ہے شیدا اس بات سے بھی ڈر رہا ہے کہ وہ کارکنان یہ نہ کہہ دیں کہ اس مشین میں ہمارے خلاف بیانات لکھ کر مریخ پر بھیجے گئے ہیں اور وہ کام بھی شیدے کا ہی ہو سکتا ہے۔ یہ تو سنا ہے ،، کہ جس سے کام ہو اسے باپ کہہ دینے میں کوئی مزائقہ نہیں ہونا چاہیئے۔ کیونکہ ہم سب مفاد پرست ہیں۔
لیکن جہاں سے یا جن سے گندی بدبو آتی ہو وہاں بیٹھ کر یا ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا کسی طرح کی مصلحت نہیں ہونی چاہیئے۔ شیدے کو بیانات لگوانے کے الزامات کی وجہ سے تعلقات ختم کرنے کی سزا دی گئی اب ان کارکنان کو چاہیئے کہ وہ سارے پاکستان کے ساتھ تعلقات ختم کر لیں کیونکہ ان پر اب بیانات کی بھر مار ہو رہی ہے اور وہ بیانات کوئی چوری نہیں لگوا رہا بلکہ سامنے آکر لگوائے جا رہے ہیں۔ آدھا کام تو شیدے نے کر دیا اب باقی آدھا کام کون کریگا۔