آفتاب صبح
Posted on July 21, 2012 By Adeel Webmaster علامہ محمد اقبال
aftab e subah
شورش میخانہ انساں سے بالاتر ہے تو
زینت بزم فلک ہو جس سے وہ ساغر ہے تو
ہو در گوش عروس صبح وہ گوہر ہے تو
جس پہ سیمائے افق نازاں ہو وہ زیور ہے تو
صفحہ ایام سے داغ مداد شب مٹا
آسماں سے نقش باطل کی طرح کوکب مٹا
حسن تیرا جب ہوا بام فلک سے جلوہ گر
آنکھ سے اڑتا ہے یک دم خواب کی مے کا اثر
نور سے معمور ہو جاتا ہے دامان نظر
کھولتی ہے چشم ظاہر کو ضیا تیری مگر
ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے
چشم باطن جس سے کھل جائے وہ جلوا چاہیے
شوق آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے
زندگی بھر قید زنجیر تعلق میں رہے
زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے
آرزو ہے کچھ اسی چشم تماشا کی مجھے
آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو
امتیاز ملت و آئیں سے دل آزاد ہو
بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں
نوع انساں قوم ہو میری ، وطن میرا جہاں
دیدہ باطن پہ راز نظم قدرت ہو عیاں
ہو شناسائے فلک شمع تخیل کا دھواں
عقدہ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے
حسن عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے
صدمہ آ جائے ہوا سے گل کی پتی کو اگر
اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر
دل میں ہو سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
نور سے جس کے ملے راز حقیقت کی خبر
شاہد قدرت کا آئینہ ہو ، دل میرا نہ ہو
سر میں جز ہمدردی انساں کوئی سودا نہ ہو
تو اگر زحمت کش ہنگامہ عالم نہیں
یہ فضیلت کا نشاں اے نیر اعظم نہیں
اپنے حسن عالم آرا سے جو تو محرم نہیں
ہمسر یک ذرہ خاک در آدم نہیں
نور مسجود ملک گرم تماشا ہی رہا
اور تو منت پذیر صبح فردا ہی رہا
آرزو نور حقیقت کی ہمارے دل میں ہے
لیلی ذوق طلب کا گھر اسی محمل میں ہے
کس قدر لذت کشود عقدہ مشکل میں ہے
لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے
درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں
جستجوئے راز قدرت کا شناسا تو نہیں
علامہ محمد اقبال