آندھی چلی تو دھوپ کی سانسیں الٹ گئیں

alone

alone

آندھی چلی تو دھوپ کی سانسیں الٹ گئیں
عریاں شجر کے جسم سے شاخیں لپٹ گئیں

دیکھا جو چاندنی میں گریبانِ شب کا رنگ
کرنیں پھر آسمان کی جانب پلٹ گئیں

میں یاد کر رہا تھا مقدر کے حادثے!
میری ہتھیلیوں پہ لکیریں سمٹ گئیں

مٹی کے معجزے رہے مرہونِ کارواں
پانی کی خواہشیں تھیں کہ لہروں میں بٹ گئیں

آسانیوں کی بات نہ کر اے حریفِ زیست
ان مشکلوں کو دیکھ جو رستے سے ہٹ گئیں

محسن نقوی