رمضان المبارک شروع ہوتے ہی ذخیرہ اندوز اور منافع خور سرگرم ہو جاتے ہیں۔ جن میں اکثریت حکمران طبقہ یا سیاستدانوں کی ہوتی ہے ۔ یہ رمضان المبارک میں لوگوں کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ گزشتہ گیارہ بارہ سالہ دور نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے اب خودکشی کرنا آسان لگتا ہے اور زندہ رہنا بہت ہی مشکل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! یہ بات بالکل سچ ہے کہ مہنگائی کا جن صاحبان اقتدار کی بوتلوں سے جس طرح برآمد ہوا ہے اس کا واپس بوتلوں میں جانا ممکن نہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مہنگائی کے ذمہ دار 60فیصد حکومت ہے تو40فیصداس کے ذمہ دار خود عوام ہیں۔ حکمرانوں کو اس ملک کو کوئی فکر نہیں اور وہ تو بستر باندھ کر تیار رہتے ہیں ۔1947ء سے لے کر آج تک حکمران اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے آئے ہیں لیکن مشرف دور سے مہنگائی نے ایسا پانسہ پلٹا کر غریب عوام سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا۔
رہی سہی کسر اس حکومت نے پوری کر دی ہر پندرہ روز بعد بجلی مہنگی اور ہر ماہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی بہت تیزی سے پروان چڑتی ہے۔ حکومت تو کہتی ہے کہ ہم پورے ملک میں ایک غریب نہیں رہنے دیں گے اس کی مہربانیوں سے کافی حد تک غریب اس دنیا سے جا چکے اور جو بچ گئے وہ جانے کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ کہ اس مملکت خداداد میں غریبوں کا کچھ نہیں ہے ۔غریب آدمی نہ اپنے بچوں کو تعلیم دلواسکتا ہے اور نہ ہی علاج کرواسکتا ہے اور نہ ہی ضروریات زندگی پوری کر سکتا ہے اس لیے پیپلز پارٹی کی حکومت نے غریبوں کو پیغام دیا ہے اگر اس ملک میں رہنا ہے تو امیربن جائو ورنہ اگلے جہاں کی تیاری کر لو ۔
خیر حکومت تو مہنگائی کی ذمہ دار ہے ہی لیکن اس میں ہم عوام کا کسی حد تک حصہ ہے میں سمجھتا ہوں اس کا ر خیر میں جتنا حصہ حکومت کا ہے اتنا ہی ہمارا ہے اس کی کئی مثالیں قارئین کی نظر کرتا ہوں کسی چیز کی قلت کی وجہ سے اس میں اضافہ ہو جائے تو بعد میں جب اس چیز کی فروانی آجائے تو ہم اس کی قیمتیں کم نہیں کرتے جب چینی کی قلت کی وجہ سے اس کی قیمت 120روپے کلو ہو گئی تو مٹھائی کا ریٹ 200روپے فی کلوگرام سے بڑھ کر تین سو روپے فی کلو گرام کر دیا گیا چینی کی قیمت کم ہو کر پچاس روپے فی کلو ہو گئی ہے لیکن مٹھائی کے ریٹ میں ایک روپیہ کمی نہیں کی گئی ۔
Ghee prices
گھی کی قیمت میں اضافہ ہونے کے بعد کمی ہو جاتی ہے تو دوکاندار قیمت کم نہیں کرتا اسطرح بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کی اگر پیدوار کم ہو تو ان کو دوکانوں سے غائب کر کے گوداموں میں چھپا لیا جاتا ہے اور ان کی قیمتیں دو سے تین گناہ تک بڑھا لی جاتیں ہیں۔ اگر ایک پروڈکٹ میں 5چیزیں شامل کی جاتی ہیں تو ان میں سے ایک چیز کی قیمت میں اضافہ ہونے پر اس کا ریٹ بڑھا دیا جاتا ہے چاہے دوسری چار چیزوں کی قیمت میں کمی ہو ۔ دوسرا یہ کہ جس چیز کی مارکیٹ میں فراوانی ہو اس چیز کو تو ہم تنا ہی خرید تے ہیں جتنی ہمیں ضرورت ہے اگر کسی چیز کی کمی بیشی ہو جائے تو ساری عوام پاگلوں کی طرح اس چیز کو تلاش کرتی ہے اور کوشش ہو تی ہے کہ کم از کم ایک سال کی ضرورت کے مطابق خریدلی جائے پچھلے سال چینی کی قلت پیدا ہوئی میں نے وہ بندے دیکھے جنہوں نے ایک یا دو کلو سے زیادہ چینی کبھی نہیں خریدی تھی ۔
وہ بوری تلاش کر رہے تھے حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ اگر آپ نارمل حالات میں دو کلو چیز لیتے ہیں تو ان حالات میں ایک کلو لیں ت اکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی ضرورت پوری کر سکیں جب لوگوں کو خود اپنے بجٹ کا خیال نہ ہو گا تو دوکاندار اس سے کیوں نہ فائدہ اٹھائے گا؟ آپ خود اپنی محنت کی کمائی جب خوردہ فروش کو دونوں ہاتھوں سے پیش کر نے کو تیار ہیں تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ قیمت نہ بڑھائے ہر خوردہ فروش جانتا ہے کہ پکوڑوں اور سموسوں سے لے کر سیب کیلئے امرود تک خواہ اس کی قیمت میں من مانے طور پر کتنا ہی اضافہ کر دیں لوگ خریدیں گے ضرور۔ جو گلی سڑی سبزی بچ جائے گی وہ کوئی بھی ہوٹل والا خرید لے گا جنہیں پکا کر مہنگے داموں فروخت کرے گا ۔ یورپ میں یا دوسرے کئی ممالک میں جس چیز کی کمی بیشی ہو عوام اس کا استعمال کم کر دیتے ہیں یا اس کا استعمال بالکل بند کر دیتے ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں سب کچھ الٹ ہو تا ہے بدقسمتی سے ہمارے ہاں کوئی صارفین کی انجمن نہ ہے جو لوگوں میں یہ احساس پیدا کر ے کہ مہنگائی اس وقت کم ہو سکتی ہے جب آپ متحد ہو کر اس کا مقابلہ کریں گے ۔ اگر کسی پھل کی قیمت اچانک غیرمعمول طورپر بڑھا دی گئی ہو جسا کہ آج کل سیب ،بنانا اور انار کے ساتھ ہو رہا ہے ان کی قیمتوں کو واپس لانے کا ایک ہی حل ہے لوگ اسے خریدنا چھوڑ دیں ۔
ہمارا میڈیا بلاناغہ کئی کئی گھنٹوں پر محیط حکومتی کارکردگی پر تو مغز ماری کرتا ہے لیکن کسی بھی چینل پہ نہ تو مہنگائی کے خلاف کوئی پروگرام نظر آتا ہے اور نہ ہی صارفین کو اس کا احساس دیالا جاتا ہے کہ غیر ضروری اشیاء کی خریداری نہ صرف مہنگائی کا سبب بنتی ہے بلکہ آپ کے گھریلوں بجٹ کو بھی متاثر کرتی ہے شاید اس کی بنیادی اور اہم وجہ یہ ہے کہ ٹی وی چینل کے مالکان اور پروگرام کے میزبانوں کا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے جہاں مہنگائی کا ذکر تفریح کے لیے کبھی کبھار کر دیا جاتا ہے اسی لیے بعض معروف چینل کے وہ میزبان جو حکمرانوں کو بلا کر ٹھیک ٹھاک ڈانٹ پلا کر سوالوں کے جوابات مانگتے ہیں اور لہرا لہرا کر ان کے خلاف چارج شیٹ دیکھاتے ہیں کبھی انہوں نے گراں فروشوں اور گراں فروشی کے ذمہ داروں کو بلا کر کسی پروگرام میں کھنچائی نہیں کی کبھی وزیر خوراک کو بلا کر مہنگائی کا سبب نہیں پوچھا گیا۔
ramzan bazaar
کبھی ڈی سی او ز اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کو بلا کر خوردہ فروشوں کے خلاف کاروائی نہ کرنے کا سبب پوچھا گیا کبھی کسی تھانہ انچارج کو بلا کر یہ نہیں پوچھا گیا کہ عین تھانوںکے سائے میں ان کی آشر باد سے کس طرح خوردہ فروش مہنگی اشیاء بیچتے ہیں کبھی ان قانون کے رکھوالوں کو کسی چینل نے بلا کر یہ نہیں پوچھا کہ آپ صرف ان گراں فروشوں کو پکڑتے ہیں جو آپ کو بھتہ نہیں دیتے میڈیا کا سارا زور صرف اور صرف سیاست دانوں پر ہے جس سے عام آدمی اب بیزار ہو گیا ہے اس لیے عوام کو سیاست اور حکومت سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ مہنگائی سے چھٹکارا پانے کے لیے خواتین کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا جب بہت سارے لوگ متحد ہو کر کسی بھی مہنگی شے کو مسترد کر دیں گے تو گرانی میں خود بخودکمی آئے گی آپ اس کا تجربہ کر کے دیکھ لیجیے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب الیکٹرانک میڈیا ایسے پروگراموں کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کرئے کہ اپنے معدوں کو ذخیرہ اندوزں کے گوداموں کی طرح نہ بھریں اور نہ ہی دسترخوانوں پرر نگ برنگے کھانے سجائیں اگر ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور اتنا ہی کھانا کھائیں جتنی ہمیں ضرورت ہے تو کیس چیز کی کمی بیشی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا آخر میں ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں سے اپیل کروں گا ۔
کہ رمضان المبارک میں غریب روزہ دارعوام سے دعائیں لیں نہ کی بددعائیں۔ حکمران طبقہ کا تو ہم سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے آپ لوگ تو ہم میں سے ہی ہو۔ خدا نے آپ کو پیسہ دیا ہے تو اسے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں نہ کہ ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کے لیے ۔ تحریر : حافظ جاوید الرحمن قصوری