کراچی میں بسنے والے لوگ پہلے ہی ٹارگٹ کلنگ اور کئی نا تمام مصیبتوں سے تاحال نبرد آزما ہیں کہ ایک نیا عذاب کراچی کے رہائشیوں پر نازل ہو گیا۔ ہاں! یہ بدھ کی رات تھی جب ایک دوست کے ذریعے جو سائیٹ انڈسٹریل ایریا کے کسی فیکٹری میں ملازم ہے ، اس نے بتایا کہ بلدیہ ٹاون کے قریب ایک فیکٹری میں آتشزدگی کا واقعہ ہوا ہے، مگر میں اس سے الجھتا رہا کہ بھائی ابھی تھوڑی دیر پہلے تک تو ٹی وی میں سلائیڈ چل رہا تھا کہ لاہور کی فیکٹری میں آگ لگی ہے،آپ کراچی کا بتا رہے ہو مگر چونکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اپنے ٹائم پر ایسے ہوئی کہ دوسری خبر نہیں دیکھ سکا۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ اچانک چراغوں سے روشنی چلی گئی اور ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا۔
خیر خدا خدا کرکے جب دو گھنٹے بعد روشنی دوبارہ بحال ہوئی تو حقیقتِ حال آشکارا ہوا کہ واقعی بلدیہ ٹائون کے علاقے میں ایک فیکٹری میں آگ لگی ہے اور اس پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر جوں جوں وقت گذرتا رہا اس جگہ پر قیامتِ صغریٰ کا ماحول بنتا چلا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے سیاہ ترین دن تھا جب اتنے بڑے پیمانے پر آگ لگی اور لگ بھگ ٣٠٠ افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ (اللہ رب العزت ان سب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل بھی)۔شعر گوئی اس اندوہناک واقعہ کیلئے مناسب نہیں مگر پھر بھی یہ شعر لکھنے پر مجبور ہوں کیونکہ یہ شعر اس سانحے سے جُڑا ہوا سا لگتا ہے۔اور میں علامہ اقبال کا یہ شعر یہاں پر تحریر کرنے سے نہیں چُوک سکتا۔ مبتلائے درد کوئی عضو ہو ‘ روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ یوں تو اس درد ناک سانحے پر مجھ سمیت پوری قوم خون کے آنسو بہا رہی ہے اور ایسے موقعے پر اس سلسلے میں کوئی مضمون نویسی کرنا مناسب بھی نہیں ہے مگر درد ناک، وحشت ناک سانحے نے مجبور کیا ہے کہ اس کی کوتاہیوں اور خامیوں کو اجاگر کیا جائے۔خدارا اس مضمون کو خبروں کی چاشنی مت سمجھئے گا ۔
آتشزدگی کا شکار ہونے والی گارمنٹس فیکٹری کے مالکان کا نام جو میڈیا پر ظاہر ہوا ہے ان میں شاہد بھائیلہ اور راشد بھائیلہ شامل ہیں ، اس کمپنی کا نام علی انٹرپرائزز ہے ۔ ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کر کے ان دونوں کے نام ایکزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔ ایک تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی میں جسٹس (ر) زاہد قربان علوی کا نام ہے۔ ان کو یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ ایک ہفتے کے اندر سانحہ بلدیہ ٹائون کے حقائق پر مبنی اسباب کا پتہ چلا کر رپورٹ پیش کریں۔ کتنے کرب کی موت واقع ہوئی ہوگی ان بے گناہ خواتین و مردوں کی۔ ہمارے ہی ایریا میں ایک بندے کی لاش لائی گئی تھی جسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بندہ صرف جھلسا ہی نہیں بلکہ بالکل جھلس کر خاکستر کے قریب ہے۔ جہاں تک فیکٹری کے چوکیدار کا فیکٹری میں تالا لگا کر لاپتا ہو جانے کی خبر نشر ہوئی ، اس معاملے پر ماتھا ٹھنکتا ہے کہ یہ کیا ماجرا ہو سکتا ہے۔ اور چوکیدار کے علم میں بھی یہ بات تھی کہ باہر نکلنے کا صرف ایک ہی گیٹ ہے جسے وہ مقفل کر رہا ہے تو لوگ اپنی جانیں کیسے بچا پائیں گے۔لازماً کچھ لوگوں نے اوپری منزل سے چھلانگیں لگا کر اپنی جان تو بچاپائے مگر اپنی ہڈیاں ، پسلیاں تڑوا بیٹھے۔ اللہ انہیں بھی جلد صحتیابی عطا فرمائے۔
شہداء اور زخمیوں سے کراچی کے ہسپتال بھر چکے ہیں اور ہر ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ لگی ہے ۔ مردہ خانوں میں جگہ کی تنگی کا مسئلہ درپیش ہو رہا ہے،اورلاشوں کی آمد کا سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔ اب آخری مراحل میں فیکٹری کے بیسمنٹ میں تلاشی کا کام جاری ہے کہ شاید کوئی وہاں پر زندہ سلامت بچا ہو مگر جو پانی فائر ٹینڈر والے آگ کو بجھانے کیلئے ڈال رہے تھے وہ پانی سیدھا بیسمنٹ میں جا کر جمع ہو رہا تھا اور ظاہر ہے کہ آگ کی شدت کی وجہ سے وہ پانی اُبل رہا ہوگا اور اس حد تک گرم ہو گیا تھا کہ بس اس میں چاول ڈالا جائے اور کھانا تیار ، ایسے میں اگر کوئی بیسمنٹ میں زندہ سلامت بھی ہوگا تو وہ اس گرم پانی کی وجہ سے ہلاک ہو گیا ہوگا۔
Karachi Fire factory
اتنے بڑے شہر کراچی میں پانی کا کوئی خاطر خواہ نظام فائر ٹینڈر کیلئے نہیں بنایا گیا کہ اگر ٹینک میں پانی ختم ہو جائے تو فوری قریبی مقام سے ہی انہیں پانی میسر آ جائے۔ آگ پر جلدی قابو نہ پانا بھی پانی ہی کی قلت، اور پانی لانے کا مقام دور ہونے کی وجہ سے ہوا۔ کیونکہ فائر ٹینڈر پانی ختم ہونے کے بعد بلدیہ ٹائون سے سخی حسن ہائیڈرینٹ پر پانی لینے آتے تھے ۔ یوں آنے اور جانے میں تقریباً ایک سے دیڑھ گھنٹہ صَرف ہو جاتا تھا ۔ یہ بات بھی عوام پر آشکار ہو چکی ہے ۔ ہمارا میگا سٹی کراچی اب بھی کئی کاموں میں بہت پیچھے رہ گیا ہے اس کی زندہ مثال فائر ٹینڈر کو پانی لانے کی دوری ہے۔ویسے تو ہمارا شمار یٹم بم رکھنے والے ملکوں میںہوتا ہے مگر ناگہانی آفتوں سے نبردآزما ہونے کیلئے ضروری ساز و سامان ہمارے پاس دستیاب نہیں؟ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ ایک بہت قابلِ اعتبار جملہ جو ہماری ترقی کے بارے میں چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ ہم کتنے ترقی یافتہ ہیں: ”ایک شخص ایک ایسی کمپنی میں نوکر تھا، جہاں آگ سے بچنے کا سامان فروخت ہوتا تھا۔ کسی دوست نے پوچھا کہ اتنی اچھی ملازمت تھی تو پھر تم نے کیوں چھوڑ دی؟ اس شخص نے جواب دیکر ہم سب کو لاجواب کر دیا ۔ جواب یہ تھا کہ دراصل اس کمپنی میں آگ لگ گئی تھی۔”
غالباً آپ لوگ سمجھ گئے ہونگے اس اقتباس میں لکھے ہوئے جملے کو…کراچی کے باسی بدھ سے لیکر آج تک کس قیامت سے گذر رہے ہیں یہ بتانا یا اسے لفظوں میں ڈھالنا ممکن نہیں لگتا بس اتنا سمجھ لیجئے کہ ہر طرف خوف و ہراس کی فضا اور دہشت زدہ کرنے دینے والا ماحول نظر آتا ہے۔ پورے کا پورا کراچی ایسا لگتا ہے جیسے مفلوج زدہ شہر ہوگیا ہے ، ہر بندہ ذی شعور اداس اور رنجور ہے ۔پتہ نہیں ہمارے غریب پرور شہرِ کراچی کو کس کی نظر لگ گئی ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب ہم وطنوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ اب تو ایک ہی طرف لوگوں نے لَو لگا لی ہے کہ جو کمیشن تشکیل دیا گیا ہے وہ بہت نیک نیتی کے ساتھ اس اندوہناک سانحہ کی تفتیش کرے اور ان بے گناہ لوگوں کو انصاف فراہم کریں جو اب ہم میں نہیں ہیں، کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟ یہ تمام کام اگر نیک نیتی ‘ انصاف ‘ اور صحیح سمت میں رہ کرکیا گیا تو مرنے والوں کو تو کُجا ان کے عزیز و اقارب کو تو انصاف مہیا کیا جا سکتا ہے کہ جن کے چولہے اب سوائے رب العزت کے کوئی اور جلانے والا نہیں رہا! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان تمام کو انصاف فراہم کیا جا سکے گا اور وہ بھی فوری انصاف؟ کیا ان کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی بروقت ہو سکے گی؟یا پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ قضیہ بھی باطل فائلوں کی نظر ہو جائے گا؟ تو دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے، مجھ سمیت آپ کو بھی اس کا انتظار رہے گا۔سُو انتظار کرتے ہیں۔