آہ، آہ..امریکا نے معافی اور پاکستان نے اِمداد مانگ لی ہے اور اِسی کے ساتھ ہی لو نیٹوسپلائی کی ختم کہانی بھی ہوگئی ہے جیساکہ امریکا نے 26نومبر2011کو سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی شہادت پر غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کرلی ہے اگرچہ امریکا نے ایک بڑے عرصے کے انتظار کے بعد اپنی غلطی بڑے سوچ بچار اور حیل ہجت بعد تسلیم کرلی ہے اور اِس بارے میں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے امریکا کی جانب سے غلطی تسلیم کرنے اور معذرت کرنے کے ساتھ ہی اپنے 24 فوجیوں کے جنازے بھلا کر اور آج بھی سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو افواج کی بربریت سے زخمی ہونے والے کئی زخمی فوجی جوانوں کے زخموں سے رستے خون کی تکالیف کو ایک طرف رکھتے ہوئے نیٹو سپلائی روٹس بحال کرنے کا تزک و احتشام سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے رسد کی بحالی کے بدلے میں کسی قسم کی ٹرانزٹ فیس تک نہ لینے کا اعلان بھی کردیاہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والی دنوں میں پاک امریکاتعلقات میں کتنی بہتری آتی ہے اور امریکیوں کا بھارت سے زیادہ پاکستانی حکمرانوں پر کتنااعتماد بحال ہوتاہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اِس میںکون کتنا کامیاب ہواہے …؟کس کو کیا ملا ہے ..؟کیا پاکستان کو کیری لوگربل کی مد میں رکی ہوئی رقم مل جائے گی …؟
کولوشن سپورٹ فنڈ کی مد میں رکی ہوئے رقم بھی مل پائے گی…؟ کیا پاکستان عالمی منڈی میں ٹریڈ میں اپنانمایاں مقام بناپائے گا…؟یا حسبِ عادت ٹریڈ سے خالی رہ کر عالمی امداد کے سہارے ہی ڈولتارہے گا…؟کیا امریکاہمارے علاقوں میں بلااشتعال اپنے ڈرون حملے جاری رکھے گا یا بندکردے گا اور ہمارے معصوم شہری اِس کے ڈرون حملوںکی زد میں آکر یوں ہی مرتے رہیں گے..؟ مگر نیٹوسپلائی کی بحالی کے بعد یہ ضرور محسوس کیاجارہاہے کہ نیٹوسپلائی کی بحالی سے امریکیوں کے سینوں میں خوشیاں لوٹ پوٹ رہی ہیں اور ہمارے حاکموں کے چہرے بھی خوشیوں سے چمک اٹھے ہیں ۔
Raja Pervez Ashraf
شائد یہ بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ نیٹوسپلائی کھولنے کا فیصلہ منگل3 جولائی 2012کی شام وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی زیرصدارت ہونے والے دفاعی کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں امریکی 236ویں یوم آزادی سے ایک روز قبل کیا گیاہے یعنی امریکا ہرسال 4جولائی کو اپنا یوم آزادی بناتاہے یہاں ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ امریکا چار جولائی کو اپنایوم آزادی اِس لئے بناتاہے کہ4جولائی 1776 کو اِسے برطانیہ سے آزادی نصیب ہوئی تھی یوں ہمارے نومنتخب وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے آٹھ ماہ تک بند رہنے والی نیٹوسپلائی کی بحالی کا اعلان کرکے امریکیوں کو اِن کے236ویںیوم آزادی کا عظیم تحفہ دے کر اِن کی خوشیوں کو دبالاکردیاہے اوراِس موقع پر نیٹوسپلائی کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے ہمارے وزیراعظم شدت جذبات سے بے قابو ہوئے جارہے تھے جبکہ اِنہوںنے اپنے خطاب میں عالمی برداری کو التجایہ لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ عالمی برادری کو ہماری سلامتی اور خودمختاری کا احترام کرنا ہوگا جبکہ ہم نے عالمی برادری سے تعاون کی بھاری قیمت اداکی ہے اور شائد وہ یہ کہنابھول گئے کہ اپنے اِس فیصلے کے بعد اپوزیشن اور عوامی سطح پر ملک میں پیداہونے والے ردِ عمل سے ہمیںآئندہ بھی مشکلات اور اِسی قسم کی قربانیاں بھی برداشت کرنی پڑیں بہرحال ..! وزیراعظم نے اپنی پارٹی کااگلا اقتدار بھی پکاکرنے کے لئے پاک امریکا تعلقات کی مضبوطی لانے کے خاطر پارلیمنٹ کی قرار دادوں کو ردی کی ٹوکری کی نظر کرتے ہوئے نیٹوسپلائی تو بحال کردی ہے اب دیکھایہ ہے کہ امریکا ہمارے حکمرانوں کے اِس خوشامدانہ روئے پر کیا کیا نوازشیں برساتاہے۔
اگرچہ کوئی کچھ بھی کہے مگر اِس سے بھی انکار نہیں ہے کہ یہ حقیقت سے قریب تر ہے کہ اگر ہمیں پرانی تنخواہ پر ہی کام کرناتھا تو پھر کیا یہ سمجھ لیاجائے کہ نیٹوسپلائی بندکرنابھی ایک ڈرامہ تھا جسے پاک امریکا سربراہاں نے خود تحریر کیا اور اِس معاملے میں ایک دوسرے کی خود ہی معاونت بھی کی ہے اِس طرح نیٹوسپلائی کو بحال ہونا ہی تھی آج نہیں تو کل مگر اتناعرصہ جو گزرگیایہ بھی اِسی ڈرامے اور دورانئے کا حصہ ہے ..لگتاہے کہ امریکانے جیساکہاویساہمارے حکمرانوں نے کیا حتی کہ امریکانے پارلیمنٹ کی قراردادوں سے متعلق بھی ہمارے حکمرانوں کو کہاہوگا کہ اِسے بھی ایک طرف رکھ دو اور اب جیسامیں کہہ رہاہوں اور چاہ رہاہوں تم بھی ویساہی کرو …اِس کے علاوہ اب ہمارے پاس برداشت کی کوئی حد نہیں ہے اور ساتھ ہی اِس نے یہ بھی کہاہوگاکہ میں چندلفظ سلالہ چیک پوسٹ کے حوالے سے معذرت خواہانہ کہوں گا اورباقی تم اِس کو میری جانب سے معذرت اور غلطی تسلیم کئے جانے کی راگ لاپتے ہوئے میری معذرت کا بھرپور پروپیگنڈاکردو اوراپنی قوم کو اِس بات کا شدت سے احساس دلادو کہ امریکا نے ہماری خواہشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اِس کے سامنے اپناسر خم کردیاہے اور26نومبر سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کرلی ہے اور کہہ دواپنی قوم اور اپوزیشن والوں کواب جب امریکا نے اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے اور ہم سے معذرت کرلی ہے تو پھر کوئی جواز نہیں کہ ہم سپرطاقت امریکا کے وقار کو مجروح کریں اور اِس کی سوری کے باوجود نیٹوسپلائی کی بحالی نہ کریں ۔
nato
ادھر پاکستانی حکمرانوں نے اپنا ہاتھ کشکول سمیت امریکا کے آگے بڑھاتے ہوئے نیٹوسپلائی کی غیرمشروط سپلائی پر امداد مانگ لی ہے اور امریکیوں سے کہاہے کہ ہم نیٹوسپلائی روٹس بغیر ٹرانزٹ کے بحال تو کررہے ہیں مگر دوسری جانب سے ہمارے لئے امدادوں کی مد میں دی جانے والی رقم میں تواتر کے ساتھ اضافہ بھی کیاجائے کیوں کہ امریکا کی جانب سے ملنے والی امداد ہی اب پاکستان کے مفاد میں ہے اگر ہماری اِس کشادہ دلی کے مظاہرے کے باوجود بھی امریکانے پاکستان کو امداد کی مد میں کٹوتی جاری رکھی تو اِس سے ہمارے ہی ملک میں ہماری سبکی ہوگی اور یوں امریکی حکم اور دھمکیوں میں آنے کے بعد ہمارے حکمرانوں نے آٹھ ماہ تک بندرہنے والی نیٹو سپلائی ترنت کھلنے کا فیصلہ کرلیا اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے بعد ملک میں آئندہ ہونے والے انتخابات میں ہمیں سیاسی اور معاشی فائدہ جو ہوگا وہ ہوگاہی مگر ہمارے اِس فیصلے سے ہمیں اقتداری فائدہ سب سے زیادہ مقدم ہوگا۔
بہرکیف..! نیٹوسپلائی کے فیصلے کے بعد اپوزیشن اور مذہبی جماعتوں نے امریکاکی جانب سے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی بندکمرے میںہونے والے اجلاس کے دوران پیش کی جانے والی معذرت کو مستردکرتے ہوئے پارلیمنٹ کی قرار دادوں کے خلاف نیٹوسپلائی کی بحالی پر ملک گیر احتجاجوں کے نہ رکنے والے سلسلوںکا اعلان کررکھاہے جس میںیہ اپنے محب وطنی ہونے کا پھر پور ثبوت دیں گیںاور اپنے ہم وطنوں میں یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کریں گیں کہ یہی محب وطن اور پاک فوج کے احترام کرنے والے لوگ اور جماعتیں ہیں جو اپنے قول و فعل سے قوم کے ساتھ ساتھ ہیں ا ور قوم کو یہ بھی بتانے کی ہر ممکن کوشش کریں گیں کہ ملک کی خود مختاری اور سا لمیت کے خاطر کسی سپرطاقت کے دباو کو مستردکرنے والی یہ ہی محب وطن جماعتیں ہیں جو آج حکمرانوں کے نیٹوسپلائی کی بحالی کے فیصلے کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور حکمرانوں کے اِس دعوی کو جھوٹاثابت کریں گیں کہ امریکی وزیرخارجہ نے لچک دکھائی اور باقاعدہ معافی مانگی ہے جس کے بعد حکمرانوں نے نیٹوسپلائی کھولنے کا فیصلہ کیا اور یہ بھی قوم کو بتائیں گیں کہ نیٹوسپلائی کی بحالی کے لئے ہمارے حکمران پہلے ہی بیتاب تھے۔