کہتے ہیں وقت انسان کو بہت کچھ سیکھا دیتا ہے مگر کچھ عقل کے ایسے اندھے ہوتے ہیں جو وقت سے کچھ نہیں سیکھتے اورنہ سیکھنا چاہتے ہیں۔اس کے باوجود وہ تو اپنے آپ کو سب سے زیادہ عقلمند سمجھتے ہیں۔جس جس طرح موسم گرم ہورہا ہے اسی طرح ہمارے ملک کے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف گرم ہوتے جارہے ہیں۔ ساون شروع ہونے کے باوجودابھی تک بارش کا جوش نہیں بلکل اسی طرح عمران خان اور نواز شریف کوشکست کھا کر بھی ہوش نہیں۔اب تو ان دونوں جماعتوں کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کی بھی آنکھیں کھل جانی چاہییں۔
ملتان کے الیکشن نے ایک بار تو ان سب اپوزیشن جماعتوں کے منہ بند کردیے ہیں مگر یہ لوگ ابھی تک مدہوش ہیں۔ پیپلز پارٹی جو شروع دن سے زرداری کی مفاہمت کی پالیسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی باراپنی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کے قریب ہیں۔ زرداری کے متعلق جاوید ہاشمی کا یہ بیان کہ زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے تووہ بات بالکل درست ثابت ہورہی ہے۔ملتان کے ضمنی الیکشن میںزرداری اینڈ کمپنی نے جس طرح اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا منہ بند کیا وہ اس ہی کی سیاست ہے۔ جس ملک میں پٹرول روز بروز مہنگا، بجلی برائے نام کی، گیس ہفتے میں چند دن ہواور ان سب سے بڑھ کر حکومتی صدر سے لیکر وزراء تک سب کرپشن کی زد میں ہوں اور پھر اس کے باوجود وہ حکومتی جماعت الیکشن جیت جائے تو پھر اس ملک کی اپوزیشن کا اللہ ہی حافظ ہے ۔
نواز شریف ، عمران خان اور سید منور حسین عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا تو امیدوار ہی نہیں کھڑاتھالیکن یہ اپنے دل کو کیسے تسلی دیں گے؟ سب کے سامنے نہیں تو تنہائی میں تو ضرور اپنی اس عبرت ناک شکست پر کچھ سوچنے پر مجبور ہونگے۔ اس الیکشن نے تمام اپوزیشن کے غبارے کی ہوا نکال دی ۔ ن لیگ نے تو اس الیکشن میں اپنے مستقبل کے امیدوار کو اپنے ہاتھوں سے گنوا کر پی پی کی جھولی میں ڈال دیا۔ اگراپوزیشن کی اس طرح ہی ہٹ دھرمی رہی تو وہ دن دور نہیں جب ملک میں دوبارہ بھی پیپلز پارٹی الیکشن جیت کر حکومت بنائے گی۔
Asif ali zardari
عمران خان نے یاتو زرداری کی بی ٹیم بننے کا سوچا ہوا ہے یا شاید وہ زرداری کے اس مشن پر کام کررہا ہے کہ نواز شریف کے خلاف عوام کو ابھرا جائے اور زرداری کو دوبارہ لایا جائے۔ عمران خان جو اپنے ہر جلسے میں اور پریس کانفرنس میں سونامی کی باتیں کرتے ہیں توا ب اس الیکشن میں وہ سونامی کہاں غائب تھا۔ یہ سونامی خان کی آدھی سیاست توکیمرون منٹر کے اس بیان نے ختم کردی کہ عمران خان اور نوازشریف امریکہ کے حامی ہیں۔ منٹر کے اس بیان پر نوازشریف کے نام پر عوام کو دھچکا نہیں لگا مگر جب عمران کا نام سنا تو صاحب عقل لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ بھی عام سیاستدان نکلا اور اپنے کرسی کے لیے امریکہ کی جھولی میں گر گیا۔
جس وقت ان سیاستدانوں کے نام سے ملک بچانے کا نعرہ سنتے ہیں تو یہ ایک لطیفے سے کم نہیں ہوتا کیونکہ اگر یہ لوگ ملک سے اتنے ہی مخلص ہیں تو پھر اقتدارکی کرسی کے بجائے ملکی مفاد کے لیے ایک پلیٹ فارم پر کیوں اکٹھے نہیں ہوسکتے؟” موجودہ حکومت پاکستان کی کرپٹ ترین حکومت ہے” یہ وہ الفاظ ہیںجو ہر روز ہم عمران خان ،نواز شریف ، سید منور حسین اور فضل الرحمن کے منہ سے ٹی وی پرسنتے اور اخبارات میں پڑھتے ہیں ۔ اگر ملک بچا نا ہے اور عوام سے اتنا پیار ہے تو پھر یہ سب اپنے مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک جگہ پر اکھٹے کیوںنہیں ہوجاتے ؟اگر انہیں اپنی کرسی عزیز نہیں اور عوام کا مفاد عزیز ہے تو پھر اپنے گلے سے انا کا طوق اتار کر پھینکنا ہوگا اور کسی نہ کسی کو آگے بڑھ کر ایک دوسرے کو گلے لگانا ہوگا ورنہ اس اپوزیشن کی پالیسی اسی طرح کی رہی تو پھر اگلاالیکشن بھی پیپلز پارٹی کی جھولی میں جاتا نظر آرہا ہے۔
election
ادھر ایک بات اور کہوں گا کہ یہ ملتان الیکشن پیپلز پارٹی کے لیے بھی اتنا حوصلہ افزا نہیں ہے کہ وہ جنرل الیکشن کے لیے پراعتماد ہوجائے کیونکہ گیلانی والے الیکشن اور اس الیکشن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جب ان کے ووٹرز کی تعداد کیا تھی اور اب کیا ہے؟ اب تو اقتدار کی کرسی بھی ان کے پاس تھی اس کے باوجود ان کی ٹرن آؤٹ میں بہت زیادہ فرق ہے۔پاکستان کو تو ایسی حکومت چاہیے جو عوام کے فلاح کے لیے دن رات ایک کردے ۔ ملک کو کرپشن سے پاک کردے، بیروزگاری ختم کردے، بجلی اور گیس کی رسائی عوام کے لیے عام ہو، ملک کا لاء اینڈ آرڈرز ٹھیک ہواور عوام کو گھر بیٹھے انصاف دے ناکہ ایسی حکومت ہو جو ملکی مفاد کا سودا کرے، عوام کو خودکشی پر مجبور کردے۔تحریر: عقیل خان