اب پاکستان کے ادارے کانگریسیوں کے نام پر ہونگے؟

pakistan

pakistan

پاکستانیت کو اس ملک میں ہوا میں اڑایا جا رہا ہے۔کل تک جو پاکستان کی مخلفت میں کانگرس کے ہمنواتھے ۔انکو پاکستان کے سرکا تاج بنانے کی ناکام کوششیں کی جا رہے ہیں۔کانگرس کی رہنما مسز اندارا گاندھی جو دو قومی نظریئے پر تو یقین رکھتی تھی یہ ہی وجہ تھی کہ اُس نے مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ کر کے رعونت کے ساتھ کہا تھا کہ آج ہم نے دو قومی نظریئے کو اپنے پیروں تلے روند دیا ہے۔ وہ لوگ تو اس سے بھی بد تر تھے جو دو قومی نظریئے کو مانتے ہی نہیں تھے ۔اُن میں سے ہی ایک نام سرحد کے خود ساختہ گاندھی کا بھی ہے جس نے ہر موقعے پر میرے قائد کی نا صرف مخالفت کی بلکہ میرے قائد سے برملا نفرت کا بھی اظہار کرتا رہا۔ایک خبر کے مطابق پشاور انٹر نیشنل ائیر پورٹ کا نام با ضابطہ طور پر خدائی خدمتگار تحریک کے بانی اور ابوالکلام آزاد سے زیادہ کا نگریس کے خدمت گذار اور نمک خوار” عبدالغفار خان” جن کو گاندھی بادشاہ خان کے لقب سے پکارتے تھے !!!جو پشتو میں باچا خان کہلائے کے نام پر باچا خان انٹر نیشنل ائیر پورٹ رکھ دیا گیا ہے!!!جو نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والوں کے لئے لمحہء فکریہ ہے۔آج پشاور ائیر پورٹ بگاندھی کے ملقوب کے نام کیا گیا ہے کل ایسانہ ہو کے اسلام آباد ائیر پورٹ موہن داس کرم چند گاندھی کے نام سے پکارا جانے لگے اور اس کے بعد کراچی ائیر پورٹ کا نام نہرو یا مسز اندرا گاندھی کے نام کر دیئے جائیں کیو نکہ ہماری سیاسی بھیڑوں میں گانگرس کے چاہنے والے پیدا ہو چکے ہیں۔جو کھاتے اور جیتے تو اس ملک میں ہیں مگر ان کی وفاداریاں کہیں اور ہیں۔ نا م کی تبدیلی کی یہ تقریب ائیر پورٹ کے ایگزیکٹیو لائونج میں منعقد کی گئی۔ جس کی صدارت غفار خان عرف باچا خان کے پوتے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کی ۔           صوبہ سرحد کے ایک دولت مند خاندان کے بگڑے ہوے فردجن کا تعلق پشاورڈسٹرکٹ سے تھا۔1925 سے انہوں کانگرس میں دلچسپی لینا شروع کردی تھی نہرو نے اپنی خود نوشت سونح عمری میں عبدالغفار خان کے بارے میں لکھا ہے کہ سیاست کے عام معنوں میں وہ کوئی سیاست دان نہ تھے… ہندوستان کی آزادی کے ضمن میںوہ صوبہ سرحد کے لوگوں کے لئے کام کر رہے تھے….لیکن وہ قانونی گفتگو اور قانونی معاملات میں کوئی دلچسپی نہ رکھتے تھے۔اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پٹھان کے دماغ میں جو بیٹھ گیا وہ ہی صحیح  ہے…..قائد اعظم کے صوبہ سرحد میں اصلاحات کے بار بار مطالبے کے بعد جب سرحد میں اسلاحات ہوئیں تو اس کے نتیجے میں عبدالغفار خان صوبہ سرحد کی سیاست میں داخل ہوے1931میںسرخ پوش تحریک جو کمیونزم کی علمبرار تھی نے کانگرس سے الحاق کر لیا۔جس کی وضاحت غفار خان نے یہ دی تھی کہ لوگ مجھ سے کانگرس میں شمولیت کے بارے شکوہ کر رہے ہیں کہ میں اس میں شامل ہوجائوں۔یہ ہندو نہیں بلکہ ایک قومی جماعت ہے ۔یہ ہندووں ،یہودیوں،سکھوں، پاسیوںاور مسلمانوں کا جرگہ ہے۔ جبکہ وہ مسلمانوں کی کی جماعت مسلم لیگ کو کوئی حیثیت دینے کے بھی شدید مخالف رہے۔        اب ذرا گاندھی کے ملقوب باد شاہ خان عراف باچا خان کی پاکستان کی مخالفت میں کی گئی کانگرس کی خدمات کا جائزہ لیتے چلیں۔1945-46کے انتخابات جو مسلم لیگ نے پاکستان کے نا م پر لڑے بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے ان انتخابات نے جناح کے اس دعوے کو بالکل صحیح ثابت کردیاکہ مسلمان پوری طرح مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔جسے مرکزی مجلس میں تمام نشستیں اور صوبائی مجالس میں 490 میںسے 446 نشستیں حاصل ہوگئیں۔لیگ کو زیادہ تر ناکامی جہاں (مسلم لیگ اور قائد اعظم کے مخالف)عبدالغفار خان جو بہت زیادہ با اثرسمجھے جاتے تھے میں ہوئی۔مگر علما و صوفیا کی کوششوں کے نتیجے میں جلد ہی یہاں کایا پلٹ ہوگئی اور لوگ مسلم لیگ کے حق میں اٹھ کھڑے ہوے۔جب 3 جون کا اعلانِ آزادی ہوا تو سرحد کے عوام کی اکثریت مسلم لیگ کے ساتھ کھڑی دکھائی دی اس موقع پر کانگرس اور اس کے حواری منہ دیکھتے رہ گئے۔        چوہدری محمد علی امرجنس آف پاکستان میں لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت صوبہ سرحد کا ریفرنڈم کانگریسیوں کے لئے مشکلات کی بڑی وجہ تھاکیونکہ عبوری حکومت 1946کے دوران صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان اور ان کے بھائی سرخ پوش عبدالغفار خان کانگرس کے بڑے زبردست حامی تھے اور مسلم لیگ کے شدید مخالف تھے۔بقول ابوالکلام آزاد کے جب 2جون کوکانگرس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا تو سرحد میں ریفرنڈم کا ذکر چلا، دونوں بھائیوں نے اس کی سخت مخالفت کی ۔غفار خان نے توکانگرس میں اپنی سابقہ خدمات کا بھی بڑے پُر سوز لہجے میں حوالہ دیااور کہا کہ اگر کانگرس نے مسلم لیگ کا مطالبہ(صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کرانے کا) مان لیاتو یہ ہمارے ساتھ بڑی بے وفائی ہوگی۔مگر جب لارڈ مائونٹ بیٹن کی طرف سے ان سے ریفرنڈم کا سول اٹھایا گیا تو دونوں بھائیوں نے خاموشی اس وجہ سے اختیار کی کہ اگر ریفرنڈم کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کا بھانڈا پھوٹ جائے گا کہ انہیں یہاں کے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے خاموشی اختیارکی اور ایک نیا ڈرامہ پختونستان کے نام سے سرحد کی آزادی کیکے نام پر شروع کر دیا۔ جبکہ اعلان آزادی کے تحت کسی کو بھی ہندوستان اور پاکستان کے سوائے آزادی کا حق حاصل نہیں تھا۔گاندھی نے غفارخان سے کہا کہ آپ مسلم لیگ سے معاملا ت کرلیں۔مگر قائد اعظم سے غفار خان کی پاکستاں مخالفت چھپی ہوئی نہ تھی لہٰذ اان سے کوئی معاملا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔جب بات نہ بنی تو 21 جون1947 کوکانگرس کمیٹی میں خدائی خدمت گاروں کے ساتھ مل کر کانگرس نے ایک قرار داد پاس کی جس میں کہا گیا تھا کہ صوبہ سرحد کو ایک آزاد پختون ریاست بنا دیا جائے۔جس کے بعد گاندھی اور غفار خان نے مل کر پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا اور پاکستان کومشکلات کا شکار بنانے کی کوشش کی گئی۔یہ غفار خان ہی تھے جو جی کھول کر پاکستان کی مخالفت پر کمر بستہ تھے۔       ہر طرف سے ناکامی کے بعد 5جولائی کو گاندھی نے ایک خط کے ذریعے عبدالغفار خان کو مشورہ دیا  اورکہا کہ اگر صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کارح موڑنے کے لئے سرخ پوشوں نے بائیکاٹ کیاتو اس کے نتیجے میں پاکستانیوں کی فتح ہوگی۔جس کی وجہ سے کانگریسیوں نے خاموشی کے ساتھ رفرنڈم ہونے دیا۔مگر اس کے باوجود کانگرسی شرارتوں سے نہ ہٹے۔جب سرحد میں ریفرنڈم مکمل ہو ا تو مسلم لیگ کو289244 ووٹ پڑے اور کانگرس کے حمائتیوں کوکل 2874 ووٹ پڑے۔یوں صوبہ سرحد موجودہ خیبرپختون خواہ میں مسلم لیگ نے مکمل اور بھر پور کامیابی حاصل کرلی۔ عبدالغفار خان ہمیشہ پاکستان کے مخالف اور کانگرس کے حامی رہے ۔پاکستان  بننے کے بعد بھی وہ پاکستان سے بے حد نفرت کرتے تھے ۔اس طرح گاندھی کے ملقوب نے ساری زندگی پاکستان کی مخالفت میں گذاردی۔پشاور ائیر پورٹ کا نام اگر بدلنا ہی ہے تو تحریک پاکستان کے عظیم رہنما اور قائد اعظم کے معتمد ساتھی عبدالرب نشتر کے نام پر ،عبدالرب نشتر انٹر نیشنل ائیر پورٹ رکھا جانا چاہئے۔بجائے پاکستان کے مخالف اور کانگرس کے حامی کے نام پر ائیر پورٹ کو منصوب کرنے کے۔دوقومی نظریئے کے رکھوالے اور قائد اعظم کے محب ان کانگرس نوزوں کی الادوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سرحدی گاندھی کے نام کو فوری طور پر ہٹا ئیں ۔پاکستانیوں کیجذبات سے کھیلنے کا یہ ڈرامہ فوری طور پر ختم کیا جانا چاہئے۔پاکستانیوں کے دلو پر آگ کے شعلے نہ بھڑکائیں۔کہ کہیں ان کی لپیٹ میںآکر خیبر پختون خواہ کیاپورے پاکستان  سے ہی تمہارا پتہ ہمیشہ کے لئے صاف نہ ہوجائے۔ پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید