اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فریاد
Posted on July 10, 2012 By Adeel Webmaster علامہ محمد اقبال
sun to le meri fariyad
اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد
یہ مشت خاک ، یہ صرصر ، یہ وسعت افلاک
کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد!
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری ، یہی ہے باد ِ مراد؟
قصور وار ، غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد
مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ ، وہ تیرا جہان بے بنیاد
خطر پسند طبیعت کو ساز گار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
علامہ محمد اقبال