پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیاہے کہ اس میں امریکی دباؤ برداشت کرنے اور قومی مفاد کے تحفظ کی صلاحیت نہیں ہے? سلالہ چیک پوسٹ پرامریکی حملے اور 24فوجی جوانوں کی شہادت کے بعد قوم میں امریکی جنگ سے باہر نکلنے ، ڈرون حملے رکوانے اور نیٹو سپلائی لائن بند رکھنے کے حوالے سے اتفاق رائے پایا جاتا تھا? جماعت اسلامی اور دفاع پاکستان کونسل نے بڑے پیمانے پر رابطہ عوام مہم چلائی۔
سینکڑوں کی تعداد میں جلسے، ریلیاں اور احتجاجی پروگرامات ہوئے? پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بھی بحیثیت مجموعی اس رائے کا ساتھ دیا? تجزیوں،اداریوں اورٹاک شوز میں نیٹو کے منفی کردارپر بحث اور اس کی سپلائی بندکرنے کی بات ہوئی ? سندھی، بلوچی، سرائیکی اور پشتوپریس میں بھی اس رائے کا اظہار ہوا کہ نیٹو سپلائی لائن کسی صورت بحال نہیں ہونی چاہیے اور ہر قیمت پر اس کو روکے رکھنا چاہیے?اس اتفاق رائے کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر اس قرار دادکی منظوری دی جس میں سپلائی لائن کی بحالی کو امریکہ کی طرف سے غیر مشروط معافی، ڈرون حملوں کی بندش اور آئندہ اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہونے کی ضمانت دینے سے مشروط کیا گیا تھا ?اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ نیٹو افواج کو اسلحے کی فراہمی کے لیے پاکستان کی سرزمین یا فضائی حدود استعمال نہیں ہوگی جبکہ کسی خفیہ ایجنٹ یا نجی سکیورٹی کمپنیوں کے اہلکاروں کو پاکستان میں خفیہ یا اعلانیہ کسی بھی قسم کے آپریشن کی اجازت دی جائے گی نہ پاک سرزمین کسی غیر ملکی فوجی اڈے کے قیام کے لیے استعمال ہوگی۔
NATO Supply
اسی طرح قومی سلامتی کے بارے میں حکومت، کوئی وزارت، خودمختار ادارہ یا تنظیم کسی بھی ملک سے کوئی زبانی معاہدہ نہیں کرے گی اور اگر پہلے سے کوئی زبانی معاہدہ موجود ہے تو وہ فی الفور ختم تصور ہوگا?7 ماہ میں امریکہ اور نیٹو نے تجربہ کرکے دیکھ لیا کہ پاکستان کے علاوہ ان کے پاس کوئی سپلائی لائن موجود نہیں ہے? جو سپلائی لائن متبادل کے طور پراختیار کی گئی اورجس کی وجہ سے امریکیوں نے دعوی کیا کہ انھیں پاکستان کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس کے حوالے سے جلد ہی معلوم ہوگیا کہ وہ بجٹ کو کھانے اور خزانے کو خالی کرنے والی ہے اورساتھ ہی انتہائی غیرمحفوظ بھی ہے? پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کواس پہلو کو سامنے رکھنا چاہیے تھا کہ امریکی شہ رگ ہمارے قابو میں ہے۔
اگر اس حقیقت کو سامنے رکھ کر فیصلے کیے جاتے تو اپنی شرطیں منوائی جا سکتی تھیں لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا? عملا امریکہ اور نیٹو کو پاکستان کے آگے ہاتھ جوڑنے تھے لیکن ہمارے حکمران خود ہاتھ جوڑنے اور پیر پکڑنے کیلئے تیار ہوگئے? جمہوریت کے دعویداروں نے پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دی اور اپنے لوگوں کے خلاف آہنی ہاتھ سے نمٹنے والوں نے بھی اپنے جوانوں کی شہادت کو بھلا دیا اور پارلیمنٹ کی قرارداد کی کسی شرط پر عمل کرائے بغیر ہی نیٹو سپلائی لائن دوبارہ کھول دی گئی اور اس حوالے سے پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا گیا? ہیلری کلنٹن نے اپنے بیان میں اپالوجی کا لفظ کہیں استعمال نہیں کیا بلکہ ایک جملے میں سوری کہا اور اس میں بھی پاکستان اور امریکہ دونوں کو شامل کردیاگویا کہ دونوں ممالک سے غلطیاں ہوئی ہیں اور آئندہ دونوں ان کو نہیں دہرائیں گے? غلامی کی اس دستاویز پر دستخط کرنے کا یہ جواز پیش کیا گیا ہے کہ 48ملکوں سے جنگ مول نہیں لی جا سکتی تو سوال پیدا ہوتاہے کہ پھر عجلت میں سپلائی بند کرنے کا فیصلہ ہی کیوں کیا گیا تھا ؟ کیا اس وقت کسی کوگنتی یاد نہیں تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے اصلا جمہوریت کو بدنام کیا اور پارلیمنٹ کا مذاق اڑایا گیا ہے۔
حکومت کی طرف سے امریکی دبا کے سامنے سرنڈر کرنے کے بعد دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے اس کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیااور لاہور سے اسلام آباد، کراچی سے حیدرآباد، کوئٹہ سے چمن اور پشاور سے باب خیبر تک لانگ مارچ کیے گئے? بلاشبہ لاکھوں لوگوں نے ان میں شرکت کی اورسخت گرمی میں نوجوانوں نے عزم و ہمت اور جوش اور ولولے کی مثال قائم کی?یہ تحریک جاری ہے اور اگلے مرحلے میں جن علاقوں سے یہ ٹرک گزرتے ہیں، وہاں پر احتجاج اور لانگ مارچ ہوں گے۔
عید الفطر کے بعد پر امن اورقانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اس فیصلے کی عملی مزاحمت ہوگی ?دفاع پاکستان کونسل نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سپلائی روٹ پردھرنوں اور لانگ مارچ کے ذریعے سپلائی کو نہ گزرنے دیں?ٹرک مالکان اور ڈرائیوروں سے بھی گزارش کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے میں حکومت کا ساتھ نہ دیں? جن حکمرانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کو خاطر میں نہ لانے ، پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں کا مذاق اڑانے ، آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرنے اور قومی سلامتی کو ہوا کے اندر اڑا دینے کا شوق ہو، ان کا ساتھ دینے کے بجائے ان کا احتساب کرنے اور ہاتھ پکڑنے کا وقت ہے۔
ہم بلاشبہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے والے لوگ ہیں اور یہ کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس یقین کی وجہ سے ہے کہ وہی تحریکیں باقی رہتی اور منزل کو حاصل کرتی ہیں جو پرامن اور آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتی ہیں? ایسی تحریکوں کے سامنے قاعدے ضابطے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور وہ اپنے حصے کاکام کرجاتی ہیں ? دفاع پاکستان کونسل اور جماعت اسلامی کے کارکنان نے یہ کر کے دکھا دیا ہے ? جتنے لانگ مارچ ہوئے ہیں، ان میں مثالی ڈسپلن رہاہے? کسی موٹر سائیکل ، کسی خوانچے ،ریڑھی والے اور کسی بڑے یا چھوٹے دکاندار کو پریشانی یا نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا? کہیں پتھر نہیں برسا ، کوئی شیشہ نہیں ٹوٹا ،کہیں بھی سرکاری یا غیر سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچایا گیا نہ کسی سے کوئی شکایت سننے میں آئی?گزشتہ گیارہ سال سے افغانستان میں امریکہ اور اس کے حواریوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں مگر شکست ان کا مقدر ٹھہری ہے۔
america
پسپائی نے ان کا پیچھا کیا ہے اور قدم آگے کی طرف بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف پلٹے ہیں? اپنی شکست سے بظاہر بدمزہ ہونے اور تلخیاں سہنے کے باوجود امریکہ اس خطے کو چھوڑنا نہیں چاہتا?وہ یہاں پر موجود رہتے ہوئے بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانا، چین کے درو دیوار تک پہنچنا اور ایران کو دی جانے والی دھمکیوں کو عملہ جامہ پہنانے کے لیے اس سے قریب تر ہونا چاہتا ہے? سنٹرل ایشیا کے وسائل پر قبضہ اور پاکستان کے نیوکلیائی پروگرام کو تہس نہس کرنا اس کے طویل المدتی منصوبے کا حصہ ہے۔
افغانستان اور پاکستان کا اصل قصور یہ ہے کہ یہ دونوں اسلامی تشخص سے پہچانے اورشریعت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اورجدوجہد کا پیکر بن کر انھوں نے اس خطے کے اندر آزادی حاصل کی ہے? یہ سب ایک ہی قوم ،ایک ہی ملت اسلامیہ سے تعلق رکھتے ہیں?ایک خدا کا نام لینے، اس کے نبی کی شریعت کو زندہ کرنے والے ہیں? اسلامی انقلاب برپا اور اسلامی نظام نافذ کرنے کا پہلے بھی عہد کرتے رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی لوگوں کو اسی سمت بلانے والے ہیں? اسی لیے دونوں ممالک امریکی استعمار کے زیر عتاب ہیں?اس پس منظر میں نیٹو سپلائی کی بحالی ملک کے مستقبل کو تاراج کرنے ، آزادی و خود مختاری کا سودا کرنے ، قوم کے پیروں تلے سے زمین نکال دینے اور بصیرت و بصارت چھین لینے کا معاملہ ہے?یہ ایک قوم کی آزادی اور غلامی کامسئلہ ہے۔
قوم کی خودمختاری کو چیلنج درپیش ہے اور افسوس ہے کہ باڑہی کھیت کو کھا رہی ہے? جن حکمرانوں کا یہ فرض بنتا تھا کہ وہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں اورجن کی یہ ذمہ داری تھی اور ہے کہ وہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق حالات کی منجدھار سے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کریں وہ عملا دشمن کی وکٹ پر کھیل رہے ہیں اور انھی کی ترجیحات کے مطابق فیصلے کررہے ہیں?روزانہ ہونے والے ڈرون حملوں نے اس کو الم نشرح کردیا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اورامریکی نظروں میں ہماری حیثیت اور مقام کیا ہے? یہ لمحہ بلاشبہ اپنی آزادی و خودمختاری کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہونے اور امریکی استعمار اور اس کے کارندوں سے آزادی حاصل کرنے کا ہے? دنیامیں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جواپنی آزادی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتیں اور اس کے لیے ہر دم قربانی دینے کو تیار ہوتی ہیں۔