پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر حافظ آباد میں جماعت احمدیہ کے قبرستان میں قبروں پر لگے کتبوں پر لکھے جانے والے کلمے اور قرآنی آیات کومٹا دیا گیا ہے۔
پولیس نے اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کارروائی مقامی افراد کی درخواست پر عمل میں لائی گئی۔
یہ واقعہ حافظ آباد کے علاقے کسسوال میں پیش آیا اور جماعت احمدیہ کے مطابق پولیس نیان چونسٹھ قبروں پر لگے کتبوں پر کالا رنگ پھیر دیا جن پر بسم اللہ، کلمہ اور قرآنی آیات کندہ تھیں۔
حافظ آباد میں جماعت احمدیہ کے قائم مقام امیر ناصر جاوید نے بتایا کہ چند روز قبل کچھ لوگ اوچا مانگٹ میں واقع ان کے قبرستان میں گئے اور وہاں قبروں پر لگے کتبوں کی ویڈیو بنائی۔
جماعت احمدیہ کا کہنا ہے کہ قبرستان میں کتبوں کی ویڈیو بنانے والے افراد نے مقامی پولیس کو ایک درخواست دی کہ جماعت احمدیہ کو اپنی قبروں پر لگے کتبوں پر کلمہ اور قرآنی آیات لکھنے سے روکا جائے کیونکہ ایسا کرنے پاکستانی قانون کی خلاف وزری ہے اور اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
ناصر جاوید کے مطابق مقامی پولیس نے جماعت احمدیہ سے رابطہ کر کے اس درخواست کے بارے میں آگاہ کیا جس پر انہوں نے پولیس پر واضح کیا کہ اگر وہ چاہے تو کتبوں سے کلمے اور قرآنی آیات کو مٹادے تاہم جماعت احمدیہ خود ایسا نہیں کرے گی۔
جماعت احمدیہ کے ضلعی امیر ناصر جاوید کا کہنا ہے کہ پولیس نے سترہ اور اٹھارہ اگست کو کارروائی کی اور چونسٹھ قبروں پر لگے کتبوں سے کلمے اور قرآنی آیات کو کالا رنگ پھیر کر کے مٹا دیا۔
ادھر پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جماعت احمدیہ کے قبرستان میں قبروں کے کتبوں سے قرآنی آیات اور کلمے کو مٹادیا گیا ہے اور یہ تمام کارروائی مقامی افراد کی درخواست پر کی گئی ہے۔
مقامی پولیس نے اس بات کی تردید کی کہ کتبوں سے قرآنی آیات کو پولیس نے رنگ پھیر کر مٹایا۔
مقامی پولیس کے انچارج محمد اسلم نے بتایا کہ جب پولیس نے جماعت احمدیہ کو اس درخواست کے بارے میں بتایا تو اس کے بعد جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے خود سفید رنگ پھیر کر کے دس کے قریب قبروں کے کتبوں سے قرآنی آیات کو مٹایا اور اس بارے میں پولیس کو اطلاع دی۔
گزشتہ ماہ پنجاب کے علاقے کھاریاں میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کے مینار مقامی انتظامی اور پولیس نے اس بنا پر مسمار کردیے تھے کیونکہ ان میناروں سے مسجد کا تاثر ملتا تھا۔
پاکستان میں جماعت احمدیہ کو سنہ انیس سو چوہتر میں پارلیمان نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم قرار دیا تھا اور بعد میں فوجی صدر جنرل ضیاالحق کیدور میں آنے والے ایک نئے قانون امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت ان پر مزید پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔