دو جولائی انیس سو بیس کو رائے پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1944 میں بنارس ہندو یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ وہ اس ادارے سے ایم اے کی ڈگری لینے والے پہلے مسلمان طالبِ علم تھے۔
اگلے ہی برس انھوں نے محکمہ آثارِ قدیمہ میں ملازمت اختیار کر لی اور پہلے ٹیکسلا اور اس کے بعد موہنجوڈارو میں ہونے والی کھدائی میں حصہ لیا۔
ڈھاکہ آثارِ قدیمہ میں ان کی بے حد دلچسپی کے پیشِ نظر انھیں برطانیہ کی حکومت نے تاج محل جیسے اہم تاریخی مقام پر متعین کردیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان آگئے اور ڈھاکہ میں فرائض انجام دینے لگے۔ تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل ہی میں پروفیسر دانی نے محسوس کر لیا تھا کہ آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کو عوام تک پہنچانے کے لئے عجائب گھروں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔
چنانچہ 1950 میں انھوں نے وریندر میوزیم راجشاہی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد جب انھیں ڈھاکہ میوزیم کا ناظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کے بارے میں کچھ نادر تاریخی نشانیاں دریافت کیں جو کہ آج بھی ڈھاکہ میوزیم میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔
باہری دورے متحدہ ہندوستان میں انگریز ماہرین کے تحت کام کرتے ہوئے پروفیسر دانی کے دِل میں اس بیش بہا تاریخی، ثقافتی اور تمدنی خزانے کو دیکھنے کی تمنا پیدا ہوئی تھی جو انگریزوں نے اپنے طویل دور میں جمع کر لیا تھا۔ پروفیسر دانی کی یہ خواہش بیس پچیس برس بعد اس وقت پوری ہوئی جب خود ان کا نام تاریخ اور عمرانیات کے مطالعے میں ایک حوالہ بن چکا تھا۔ سن ستر کی دہائی میں انھیں انگلستان اور امریکہ کے طویل مطالعاتی دوروں کا موقع مِلا۔
اعزازات احمد حسن دانی کو انکی اعلی ترین علمی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز، سے نوازا۔ خود ان کے علم و بصیرت کی چکا چوند جب مغربی دنیا میں پہنچی تو آسٹریلیا سے کینیڈا تک ہر علمی اور تحقیقی اِدارہ ان کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے کی دوڑ میں پیش پیش نظر آنے لگا۔ امریکہ، برطانیہ فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ انھیں جرمنی اور اٹلی میں بھی اعلی ترین تعلیمی، تدریسی اور شہری اعزازات سے نوازا گیا۔
گندھارا گندھارا تہذیب میں بے پناہ دلچسپی کے باعث پروفیسر دانی کا بہت سا وقت پشاور یونیورسٹی میں گزرا۔ اسی زمانے میں انھوں نے پشاور اور لاہور کے عجائب گھروں کی تزئینِ نو کا بِیڑہ بھی اٹھایا۔ 1971 میں وہ اسلام آباد منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے قائدِاعظم یونیورسٹی میں علومِ عمرانی کا شعبہ قائم کیا اور 1980 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی سے منسلک رہے۔
ریٹائرمنٹ ریٹائر ہونے کے بعد انھیں پتھروں پر کندہ قدیم تحریروں میں دلچسپی پیدا ہوگئی اور اواخرِعمر تک وہ گلگت اور بلتستان کے علاقوں میں، آثارِ قدیمہ کے جرمن ماہرین کی معاونت سے قدیم حجری کتبوں کے صدیوں سے سربستہ راز کھولنے کی کوشش میں مصروف رہے۔