دوبئی (طاہر منیر طاہر)متحد عرب امارات کی ریاست عجمان کے مقامی عرب ڈاکٹر زبیر فاروق ایک بہترین اردو دان،روانی سے اردو بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھنے کے علاوہ منجھے ہوئے اردو شاعر بھی ہیں۔ ڈاکٹر زبیر فاروق کو اگران کے عربی لباس میں دیکھا جائے تو شائبہ بھی نہ ہوگا کہ یہ صاحب اردو جانتے ہوں گے لیکن جب ان سے بات کی جائے تو انتہائی شائستہ اردو بول کت سامنے کھڑے شخص کو حیران کر دیتے ہیں۔
مزید حیرانی تب ہوتی ہے جب وہ عرب ہوتے ہوئے بھی اردو زبان میں بہترین شاعری کرتے اور ترنم سے غزل سناتے ہیں۔ ڈاکٹر زبیر فاروق سے میری شناسائی 2001 سے ہے ان کی اردو زبان سے محبت اس قدر ہے کے اب تک درجنوں کتب لکھ چکے ہیں اور اردو دانوں کو اپنے گھر مدعو کر کے اردو شاعری سنتے اور سناتے ہیں اور ان کی خدمت کرکے خوش ہوتے ہیں۔
پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر زبیر فاروق دوبئی کے مشہور ہسپتالوں میں بطور جلدی امراض کے ڈاکٹر Dermatologist کی حثیت سے اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ زبیر فاروق عربی اردو اور انگریزی میں شاعری کرتے ہیں جو پسند کی جاتی ہے۔ گلف ریجن کے ممالک میں جہاں جہاں اردو جاننے والے لوگ موجود ہیں وہ ڈاکٹر فاروق زبیر سے بخوبی واقف ہیں۔
فاروق زبیر نہ صفر خود مشاعرے پڑھنے دنیا کے مختف ممالک گئے بلکہ وہ امارات میں متعدد مشاعروں کے میزبان بھی ہوئے ہیں۔ اردو شاعری میں پزیرائی کے ساتھ ساتھ انہیں متعدد مشاعروں کے میزبان بھی ہوئے ہیں۔
اردو شاعری میں پزیرائی کے ساتھ ساتھ انہیں متعدد ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔ ڈاکٹر زبیر فاروق ان کا پورا نام ہے جبکہ ایم بی بی ایس کرنے کیلئے وہ 1971 سے لے کر 1978 تک کراچی میں بھی رہے ہیں۔ آپ نے ایم بی بی ایس ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے کیا ہے۔ میڈیکل پریکٹس امارات سے شروع کی اور جلد کی حفاظت کے موضوع پر دوبئی کے انگریزی خلیج تائمز میں ان کا دو ہفتہ وار کالم ایک عرصہ تک مسلسل شائع ہوتا رہا ہے۔ آپ گزشتہ عرصہ تین دہائیوں سے اردو میں شاعری کر رہے ہیں اور ایک ہزار سے بھی زائد غزلیں لکھ چکے ہیں۔ شاعری کے علاوہ ڈاکٹر فاروق زبیر نے فلمی کہانیاں بھی لکھیں اور میوزک بھی کمپوز کیا جبکہ ترنم کے ساتھ شاعری ان کا خاصہ ہے۔ گلوکاری سے بھی خاصا شغف رہا ہے۔ ان کی ایک آڈیو کیسٹ صدائے دل کے نام سے دستیاب ہے جسے شائقین نے بے حد پسند کیا ہے۔
ان تمام خصوصیات کے حامل شخص کو اگر صحرا کا گلاب کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کیوں کہ آپ ایک عرصہ سے اردو اور عربی جاننے والوں کو یکساں طور پر خشبوئیں بکھیر رہے ہیں۔اردو زبان پر اس قدر عبور اور پختہ شاعری سن کر احساس ہی نہی ہونا کہ ہم کسی اجنبی یا غیر زبان والے شخص کا کلام پڑھ یا سُن رہے ہیں۔ ایک موقع پر زبیر فاروق لکھتے ہیں کہ چپ رہنا مرض کو بڑھا دیتا ہے۔ حال دل سنانا اچھی بات ہے وہ کہتے ہیں کہ آنسوؤں کی بھی اپنی ایک زبان ہوتی ہے اور آنسوں بھی احتجاج کی ایک شکل ہیں۔
ڈاکٹر فاروق زبیر ہمہ وقت ڈاکٹر ، شاعر،دوست مشفق باپ،ہمدرد خاوند اور دیگر رشتے بطریق احسن نبھانے والی شخصیت ہیں۔ وہ ایک ماہر طبیب اور تجربہ کار نبض شناس ہیں۔ شدت احساس اور جزبہ انسانیت سے بہرہ ور ہیں اور ہر رشتہ کو بخوبی نھبانا جانتے ہیں۔
Farooq Zubair Nosheen Zubair
ڈاکٹر زبیر فارق پاکستان جانے سے قبل عربی میں شاعری کرتے تھے اور بعد ازاں انگریزی کو ذریعہ اظہار نبایا اور جب جب اردو سے روشناسی ہوتی تو اس زبان کو بہتر پایا اور اردو میں شاعری میں نہیں کہ سکتا رہ اردو میں آسانی سے سکتا ہے۔اردو بڑی وسیع زبان ہے اس میں سے ہر بات مل جاتی ہے۔
آپ کا پہلا مجوعہ کلام پس کہسار تھا۔اس بارے جناب احمد ندیم قاسمی ایک جگہ لکھتے ہیں کے میں سمجھتا ہوں کے زبیر فاروق اردو ادب کے پہلے عرب شاعر ہیں۔ صرف یہی خصوصیات تاریخ ادب اردو میں ان کا نام زندہ رکھنے کیلئے کافی ہے۔
ڈاکٹر زبیر فاروق کی شاعری کے بارے محمد ظہیر بدر کا کہنا ہے کہ این کی شاعری چاند پر بستیاں بسانے کی بجائے کرہ ارض پر ذہنی و روحانی آسودگی کا چراغ روشن کرنے کی خواہش سے عبارت ہے۔
ڈاکڑ زبیر فاروق کی ایک کتاب سرد موسم کی دھوپ کے نام سے ہے جس میں ایک ہزار سے زائد غزلیں جمع کی گئی ہیں۔ شاعری کے 13مجموعے اس ایک جلد میں دستیاب ہیں۔ ڈاکٹر زبیر فاروق کی شاعری کا شوق جنون کی حد تک ہے۔ ڈبل جاب کرنے کے ساتھ ساتھ شاعری کے لئے وقت نکالنا ایک مشکل کام ہے لیکن پھر بھی ہر چند ماہ بعد ڈاکٹر صاحب کی ایک نئی کتاب مارکیٹ آ جاتی ہے۔
ڈاکٹر زبیر فاروق کی پاکستان سے محبت اور انسانیت اس قدر ہے کہ انہوں نے 24 فروری 2009 کو لاہور میں شادی کی ان کی اہلیہ کا نام نوشین ہے جو آجکل نوشین زبیر کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہیں۔ فیملی انٹرویو کے دوران نوشین نے بتایا کہ ہماری شادی میں عصر جدید کی سہولیات و ایجادات کا بڑا ہاتھ ہے۔ شادی سے پہلے ہماری ملاقاتیں انٹرنیٹ پر اور شادی کی باتیں ٹیلی فون پر ہوئیں جبکہ نکاح ہی ٹیلی فون پر ہوا۔ نکاح کے بعد نوشین لاہور سے دوبئی آگئیں اور اب ماشااللہ دو بچیوں کی والدہ ہیں۔ نوشین نے بتایا کہ داکٹر صاحب نے اس عرصے میں کبھی بھی اکیلے پن کا احساس نہیں ہونے دیا۔
مجھے عربی نہین آتی لیکن زبان ہمارے درمیان کبھی مسئلہ نہیں بنی کیوں کہ ڈاکٹر صاحب بہترین اردو جانتے ہیں۔اور ہمارے درمیان ذریعہ گفتگو اردو بھی ہے۔دونوں بچے عربی بولتے اور سمجھتے ہیں۔انٹرویو کے دوران ڈاکٹر زبیر فاروق کی ساس اور ان کے سسر بہی موجود تھے۔ جو چند دنوں کے لئے لاہور یہاں اپنی بیٹی کو ملنے کے لئے آئے تھے۔
Farooq Zubair Nosheen Zubair
انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی ڈاکٹر زبیر فاروق کی صورت بہترین داماد ملا ہے جو سب کا احساس کرتا ہے اور بیگانگی کا احساس نہیں یہی وجہ ہے کہ 2009 کے بعد اب تک میں اب تک صرف 3 بار لاہور گئی ہوں۔داکٹرزبیر فاروق نے بتایا کہ وہ نوشین کی صورت میں خوبصورت اور وفا دار بیوی پا کر بے حد خوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شادی کے بعد وہ بہی اپنے سسرال لاہورگئے ہیں جہاں انہیں سسرال رشتہ داروں کی طرف سے بہت پیار ملا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں نوشین نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی غزلیں خود تو نہیں پڑھتی بلکہ سی ڈی پر ہی سنی ہیں۔ بلکہ مختلف لفظوں میں ان کی شاعری سن کر محفوظ ہوتی ہیں اور ان کی پزیرانی پر خوشی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر زبیر فاروق نے کہا کہ جس طرح پاکستانی امارات کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں میں پاکستان کو اپنا دوسر ا گھر سمجھتا ہوں۔