اردو شاعری اپنے متنوع موضوعات اور نیرینگی خیال کے باعث مقبول رہی ہے۔ عہد قدیم سے عہد وسطی تک اور پھر عہد جدید میں زندگی کے تما م موضوع کا احاطہ اس صنف میں ہوتا رہا ہے۔ مذہبی افکار و خیالات کے علاوہ سماجی و معاشی زندگی کا نقشہ پیش کیا گیا توحسن و عشق کی باتیں منظر عام پر آتی رہیں۔ غرض اردو شاعری نے بدلتے ہوئے زمانے اور وقت کے ساتھ اپنی فکر و تخیل کو بھی تبدیل کر کے پیش کیا۔اس میں شبہ نہیں کہ ادب کی اس صنف نے انسانوں کی طبیعت اور مزاج پر اپنا گہرا نقش چھوڑا ہے۔ بعض شعراکے صوفیانہ کلام نے یکسر مزاج زندگی کو تبدیل کر دیا، وہیں رزمیہ کلام نے فولادی طاقت کا جوہر نمایاں کیا۔
حسن و عشق کی باتیں اور مجازی شاعری نے تو وہ اثرات مرتب کیے کہ واعظ و ناصح حضرات بھی اس کے اسیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اسی طرح اردو شعرا نے جن دیگر موضوعات پر قلم اٹھائے ان کے اثرات ہمارے معاشرے پر بلا واسطہ یا بل واسطہ طور پر مرتب ہوئے۔ ہندوستان کی آزادی میں اردو شعرا اور ان کے اشعار نے جو جوش و ولولہ پیدا کیا اس سے کون انکار کر سکتا ہے لہذا یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اردو شعرا اور ان کے اشعار میں قارئین کے اذہان کو تسخیر کرنے کی ساحرانہ طاقت ہوتی ہے۔ اب یہ شعراحضرات پر منحصر ہے کہ وہ اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ شاعری شاعر کے احساسات و جزبات کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔ کسی شاعر کا کلام اس کے شعور و فکر کا غماز ہوتا ہے۔ اسی نسبت سے ہم کسی شاعر کو صوفی شاعر کہتے ہیں تو کسی کو شاعرِ انقلاب،کوئی فلسفیانہ خیالات کی پیشکش کرتا ہے تو کوئی حسن و عشق کے قصے بیان کرتا ہے۔ غرض یہ کہ شعرا نے اپنے مخصوص فکر و نظر کی ترجمانی اپنے کلام کے ذریعہ پیش کر کے معاشرے پر ایک گہرا نقش چھوڑا ہے۔ہم یہ بات پہلے ہی کہہ چکے ہیں ادب کا تعلق زندگی سے ہے اور شاعری جو فنون لطیفہ سے تعلق رکھتی ہے وہ با لواسطہ یا بلا واسطہ ہمارے معاشرے پر اپنا بھر پور اثر ڈالتی ہے ۔ ادب کے متعلق مفکرین اور ناقدین میں یہ اختلاف پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے کہ ادب برائے زندگی ہے یا زندگی برائے ادب؟ میرے خیال میں زندگی ادب کے لیے ہو یا ادب زندگی کے لیے دونوں ہی صورت میں معاشرے کی صحیح تشکیل و تعمیر لازمی ہے ۔ وہ ادب جو زندگی کی تعمیر و تشکیل سے عاری ہے اسے خارج از ادب سمجھا جائے تو مناسب ہوگا۔
میرا موضوع اردو شاعری میں کفر و الحاد سے ہے ۔ عہد قدیم کے نامور شعرا نے اس موضوع کو اپنے کلام میں جگہ دینے سے گریز کیا ہے۔ اردو ادب کے آفاقی شاعر اسد اللہ خاں غالب کے کچھ اشعار سے ان کی شوخی طبیعت کا پتہ تو ضرور چلتا ہے لیکن ان کے اشعار کو ہم کفر و الحاد پر مبنی نہیں کہہ سکتے۔
Mirza Ghalib
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کو خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
کیوں نہ دوزخ کو بھی جنت میں ملا لیں یارب سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
ظاہر ہے کہ گھبراکے نہ بھاگیں گے نکیرین ہاں منھ سے مگر بادہ دوشینہ کی بو آئے
مذکورہ اشعار کے علاوہ بھی دیوان غالب سے اس نوعیت کے بے شمار اشعار نکالے جا سکتے ہیں ۔ ان اشعار کا مقصد محض شوخی و ظرافت تک محدود ہے۔ کیوں کہ غالب کے ہی صوفیانہ اشعار بلندی فکر میں اس درجہ تک پہنچے ہوئے ہیں کہ کہیں سے بھی ان کا عقیدہ توحید متزلزل معلوم نہیں ہوتا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
کل کے لیے نہ آج کر خست شراب میں یہ سوئے ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست مشغول حق ہوں بندگی بوتراب میں
متاخرین شعرا کے یہاں بھی ہلکی پھلکی شوخی تو ضرور ملتی ہے لیکن کفر و الحاد اور قاری کو شکوک و شبہات میں ڈالنے والے اشعار سے پرہیز کیا گیا ہے۔ ترقی پسند تحریک شروع ہونے کے بعد اردو ادب خاص طور پر اردو شاعری میں کفر و الحاد پر مبنی مضامین اس طرح شامل ہونے لگے گویا کفر و الحاد کی تبلیغ و تشہیر ہی اس تحریک کا مقصود ہے۔ ن۔م۔راشد، ساھر لدھیانوی، کیفی اعظمی، فیض احمد فیض، مجروح سلطان پوری وغیرہ وہ شعراہیں جو اس صف میں پیش پیش نظر آتے ہیں ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں
خدا کا جنازہ لیے جا رہے ہیں فرشتے اس ساحر ِبے نشان کا جو مغرب کا آقا ہے مشرق کا آقا نہیں ہے ( ن۔م۔راشد)
عقائد وہم ہیں مذہب خیال خام ہے ساقی ازل سے ذہن انساں بستہ اوہام ہے ساقی ( ساحر لدھیانوی)
یہ شاعری ہے عرش کی بازی گری نہیں یعنی خدا نخواستہ پیغمبری نہیں شبیر حسن خاں نہیں لیتے بدلہ شبیر حسن خاں سے بھی چھوٹا ہے خدا ّ( جوش ملیح آبادی)
ایک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے ( فیض احمد فیض)
faiz ahmad faiz
عہد جدید میں کہ جب مادیت اپنی حدود سے باہر نکل چکی ہے اور اس نے پورے معاشرے اور شعبہ ہائے زندگی کے تمام امور کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے تو بھلا اردو شاعری اس سے کیسے مبرا ہو سکتی ہے۔آج کے شعرا میں احمدفراز، احمد ندیم قاسمی، ندا فاضلی، بشیر بدر، شجاع خاور، خورشید اکبر، خالد عبادی وغیرہ وہ شاعر ہیں جنہوں نے اپنی تشکیک کو بذریعہ شاعری طشت از بام کر کے مذہبی اقدار اور ان سے متعلق الفاظ کا خوب استعمال کیا ہے۔اس سلسلے میں بلا تفحض و تحقیق جو چند اشعار مجھے ملے ہیں ملاحظہ ہوں
نہ اتنے زور سے سوچو کہ جاگ اٹھے وہ خدا ابھی ہمیں تخلیق کر کے سویا ہے ( شجاع خاور)
اب مرے واسطے تریاق ہے الحاد کا زہر تم کسی اور پجاری کے خدا ہو جانا ( فراز)
ahmad faraz
جب تلک دور ہے تو تیری پرستش کر لیں ہم جسے چھو نہ سکیں اس کو خد ا کہتے ہیں ( فراز)
بھلا دیے ہیں ترے غم نے دکھ زمانے کے خدا نہیں تھا تو پتھر کی مورتیں تھیں بہت ( فراز)
یا خدا پھر یہ جہنم کا تماشہ کیا ہے تیرا شہکار تو فن نار نہیں ہو سکتا ( احمد ندیم قاسمی)
خدا کے لب پہ ہنسی ہے خدائی جھوم رہی ہے تمہاری بات چلی ہے مری حسین خطاں ( احمد ندیم قاسمی)
ختم توفیق بغاوت فقط آدم پہ نہ کر اب کسی اور بھی مخلوق کو دوزخ سے نکال ( احمد ندیم قاسمی)
گردش کے آئینے میں بیٹھا ہے خدا حد نظر تک تنے ہوئے حلقے کی طرح ( احمد ندیم قاسمی)
کچھ تو قانون محبت میں کمی ہے ورنہ تیری جنت میں فرشتوں کی بغاوت کیوں ہے ( نامعلوم)
لوٹ آتی ہے مری شب کی عبادت خالی جانے کس عرش پہ رہتا ہے خدا شام کے بعد ( نامعلوم)
زمیں پہنی گئی اور آسماں اوڑھا گیا برسوں بدن کی خانقاہوں میں خدا سویا رہا برسوں ( خورشید اکبر)
دست اجرت سوال کرتا ہے رب کا جینا محال کرتاہے ( خورشید اکبر)
بتوں کی مٹھیوں میں بند ہے خورشید ہر عالم کہاں ہے میرے حصے کا خدا بتلا دیا جائے ( خورشید اکبر)
زمیں کو بے پناہی کا گماں بھی کم ہے شاید خدا کی دسترس میں آسماں بھی کم ہے شاید ( خورشید اکبر)
اس نوعیت کے بے شمار اشعار جدید شعرا کے یہاں آسانی سے مل سکتے ہیں۔ قابل غور امر یہ ہے کہ اس طرح کے اشعار میں بھی ایمان و یقین کی ایک شمع روشن ہے جو شاعر کے لاشعور یا تحت الشعورکواجاگر کرتی ہے۔ مثال کے طور پر شاعر کا ذہن کسی غیر محسوس طاقت کا منکر ضرور ہے اس کے باوجود اس کے لاشعور میں جزا و سزا اور عذاب و ثواب جیسی شے موجزن ہے۔ اگر یہ حقیقت نہیں ہے تو اس طرح کے اشعار سے اور کیا مطلب نکالا جا سکتا ہے
ahmad nadeem qasmi
یا خدا پھر یہ جہنم کا تماشہ کیا ہے تیرا شہکار تو فن نار نہیں ہو سکتا (احمد ندیم قاسمی)
ختم توفیق بغاوت فقط آدم پہ نہ کر اب کسی اور بھی مخلوق کو دوزخ سے نکال ( نامعلوم)
شکیل بدایونی نے غالبا اسی نکتے سے متاثر ہو کر کہا تھا
منکر ذات تری بحث مسلم لیکن یوں وہ کچھ اور نمایاں نظر آتا ہے مجھے
اس میں شبہ نہیں کہ اردو ادب کا دامن دیگر زبان و ادب سے کم وسیع و عریض نہیں ہے اور ارباب ادب کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے افکار کو (خواہ وہ تعمیری ہوں یا تخریبی) پیش کریں۔ لیکن کامیاب ادیب وہی ہے جو اپنے قاری کو تشکیک کے بھنور سے نکال کر اعتماد و یقین کے جزیرے پر لے آئے ، ہمارے چراغوں کو ہواؤں کا مقابلہ کرنا سکھائے اور جو ہمارے شعور کو تخریب کے بجائے تعمیری کاموں کی جانب متوجہ کرے۔