بھارت : ( جیو ڈیسک) بھارت میں پانچ ریاستوں کی اسمبلیوں کے انتخابات کے ووٹوں کی گنتی منگل کو ہوگی اور مِنی جنرل الیکشن کہے جانے والے ان انتخابات کے نتائج کا سب کو انتظار ہے۔ریاست اترپردیش، پنچاب، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور جیسی پانچوں ریاستوں کی اسمبلیوں کے انتخابات تین مارچ کو مکمل ہوئے تھے۔ منگل کی صبح ووٹوں کی گنتی آٹھ بجے شروع ہوگی اور چونکہ انتخابات کے لیے ووٹنگ مشینز کا استعمال ہوا ہے اس لیے چند ہی گھنٹوں میں رجحانات اور نتائج ملنا شروع ہو جائیں گے۔ ان انتخابات کے نتائج قومی سیاست پر بھی اثر انداز ہونگے اس لیے ان پر سب کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ اس میں سب سے اہم ریاست اترپردیش ہے جہاں مایا وتی کی حکومت رہی ہے۔ یوپی میں کل چار سو تین نشستیں ہیں اور سادہ اکثریت کے لیے دو سو تین سیٹیں درکار ہوتی ہیں۔ اب تک جتنی بھی ایجنسیوں نے اگزٹ پول پیش کیے ہیں ان کے مطابق یوپی میں کسی بھی جماعت کو اکثریت نہیں ملنے والی اور معلق اسمبلی کا امکان زیادہ ہے۔ لیکن تمام ایگزٹ پول کے مطابق حکمراں جماعت بہوجن سماج پارٹی کو شدید نقصان کا سامنا ہے جبکہ ملائم سنگھ کی جماعت سماجوادی پارٹی کو سب سے زیادہ نشستیں ملنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں یہ بحث جاری ہے کہ آیا کانگریس پارٹی اور بی جے پی کس کے ساتھ اتحاد کر کے مخلوط حکومت تشکیل دیں گی۔ بھارتی ریاست پنجاب میں عام طور ہر پانچ برس میں انتخابات کے بعد حکومت تبدیل ہو جاتی ہے اور ایگزٹ پول کے مطابق اس بار بھی ایسے ہی نتائج کی توقع ہے۔ لیکن تمام جائزوں کے مطابق کانگریس پارٹی اور اکالی دل میں کافی ٹکرا ہے اور ہار جیت کا فیصلہ بہت کم فاصلے سے ہوگا۔ بھارتی پنجاب میں اسبملی کی ایک سو سترہ نشستیں ہیں اور حکومت بنانے کے لیے ساٹھ ارکان کی حمایت ضروری ہے۔ شمال میں کوہ ہمالیہ کے پہلو میں واقع پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں ستر نشستیں ہیں جہاں گزشتہ پانچ برس سے بی جے پی کی حکومت رہی ہے۔ لیکن تقریبا تمام ایگزٹ پول کے مطابق اس بار وہاں بی جے پی کی شکست یقینی لگتی ہے اور کانگریس پارٹی دوبارہ اقتدار میں آسکتی ہے۔ شمال مشرقی ریاست منی پور کی اسمبلی میں کل ساٹھ نششتیں ہیں اور کانگریس پارٹی برسر اقتدار رہی ہے۔ ایگزٹ پول کے مطابق کانگریس وہاں دوبارہ اقتدار میں آنے کی پوزیشن میں ہے۔ مغربی ریاست گوا میں میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ سیاحت کے لیے مشہور اس ریاست میں کانگریس اقتدار میں تھی لیکن اس بار اسے حکومت مخالف رجحان کا سامنا ہے۔