اسلام آباد : ڈاکٹر طاہر القادری اور لانگ مارچ کے شرکاء کو مبارکباد

اسلام آباد(این این اے رپورٹ، سہیل الیاس)ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان کے کوئی بڑے سیاستدان یا آزمودہ کا رہنما نہیں تھے۔ ان کی وجہ شہرت ایک اسکالر ، دانشور، ادیب، خطیب اور عالم کی تھی گو کہ آپ قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں آپ کی بنائی ہوئی سیاسی جماعت عوامی تحریک بھی موجود ہے تاہم تحریک منہاج القرآن جو خالصتاً ایک علمی اور تبلیغی ادارہ ہے جو کافی معروف ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے جب سیاست نہیں ریاست بچاو کا نعرہ لگایا اور ایک فیقد المثال جلسہ عام کر دیکھایا تو ڈاکٹر صاحب کی حیثیت ، قوت اور مطالبات کو تسلیم کئے جانے کا مشورہ دیا جانے لگا مگر حکومت سمیت پاکستان کی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے ڈاکٹر صاحب کے مطالبات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ لانگ مارچ کے اعلان کو بھی ایک مذاق سمجھا گیا مگر ڈاکٹر صاحب اپنے اعلان کے مطابق لاہور سے تمام تر خطرات کے باوجود اسلام آباد جا پہنچے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے دھرنا ختم کرانے کا حکومت سے کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے کوئی وفد تشکیل دیا گیا کہ جو ڈاکٹر صاحب سے فوری رابطہ کرتا۔

تمام رفاعی ادارے جو عوام کے عطیات سے چلتے اور قائم ہیں اور جن کا مقصد اور ہدف ہی یہ ہوتا ہے کہ مشکل وقت میں بلا تفریق انسانیت کی خدمت کے لئے آئے بڑھا جائے گا مگر یہ سب بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور دھرنے کے شرکاء کے خلاف آپریشن کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئیں تھیں۔ وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کا بیان بھی آچکا تھا تاہم فرق صرف اتنا تھا کہ اب کی بار آرمی کا چیف جنرل پرویز مشرف نہیں جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے لہذا حکومت کو مجبوراً آپریشن روک کر مذاکرات کرنا پڑے۔

مذاکرات ہوئے ، معاہدہ طے پایا، ڈاکٹر صاحب لاہور واپس ہوگئے اور دھرنے کے شرکاء گھروں کو لوٹ گئے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اب معاہدے پر عمل نہیں ہوگا لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ معاہدے پر عمل ہوگا ڈاکٹر صاحب نے جس طرح ، جس ماحول اور جن الفاظ کے ساتھ یہ معاہدہ کروایا ہے اس پر عمل درآمد یقینی ہے۔ معاہدے پر عمل نہ ہونے کی صورت میں ڈاکٹر صاحب پہلے سے بھی زیادہ طاقت کے ساتھ دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہیں جبکہ حکومت وقت آنے والے دنوں میں مزید کمزور ہو چکی ہوگی لہذا وہ ٹکراؤ کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ ڈاکٹر صاحب نے دہشت گردی کے خطرات اور آپریشن کے امکانات کے باوجود جس حوصلے اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے ہدف کی طرف بڑھتے رہنے کا فیصلہ کیا وہ بہت ہی یادگار اور اہمیت کا حامل ہے۔ حیرت ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے مگر اسمبلیوںمیں موجود اور پانچ برس سے حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے اور لاکھوں کے جلسہ اور جلوس نکالنے والے وہ کچھ نہ کر سکے جو ڈاکٹر صاحب نے کم وقت میں کر دیکھایا۔

ڈاکٹر صاحب 62اور 63کی آئینی شقوں پر عمل درآمد کرانے میں اگر کامیاب ہوگئے تو یقینا یہ پر امن عوامی انقلاب کا آغاز ہو گا جس کا تمام تر کریڈٹ اس لانگ مارچ اور دھرنے کے شرکا کو ملے گا گروہی مفادات اور شخصی بالادستی کے فتنوں میں مبتلا مذہبی اور سیاسی قیادت کو ڈاکٹر طاہر القادری اور دھرنے کے شرکاء نے اعلانیہ شکست دے دی۔ توقع اور امید ہے کہ دیانت دار اور جرات مند قیادت جو 2013ء کے عام انتخابات کا اصل نعرہ، مقصد اور ہدف ہوگا اس کے حصول کے لئے ڈاکٹر صاحب اور فرسودہ نظام کو بچانے کی کوئی سازش کامیاب نہ ہونے پائے گی۔

ایڈیٹر این این اے
فون:0333-5164061