جب سے دنیا معرضِ وجود میں آئی ہے ۔اس کرہِ ارض پر ا نبیا ئے اکرام کی بعثت کا سلسلہ کسی کسی نہ کسی انداز میں چلتا رہا ہے۔ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد مشیتِ ایزدی کی جانب سے انبیاء کا یہ سلسلہ روک دیا گیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم خدا کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ جس کی واضح مثال وہ کتابِ مبین (قرآنِ حکیم)ہے جو خدا کی طرف سے رشدو ہدائیت کی آخری آسمانی کتاب ہے اور جس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے اپنے ذمے لے رکھا۔ قرآنِ مجید کا غیر متبدل ہونا اور اس میں کسی زیر زبر کا اضافہ نہ ہوسکنا خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے جو نبی آخرا لزمان صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور اسلام کی حقانیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
برِ صغیر پاک و ہند میں بیسویں صدی میں غلام احمد قادیانی نے اپنی نبوت کا اعلان کیا توذولفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت نے انھیں غیر مسلم قرار دے کر یہ ثابت کیا کہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد اگر کو ئی نبوت کا دعوی کرتا ہے تو پھر وہ دائرہِ اسلام سے خارج ہو جا تا ہے۔قادیا نیوں کو غیر مسلم قرار دینا پاکستانیوں کی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے گہری محبت اور گہرے عشق کی غمازی کرتا ہے جس پر ہمیں فخر ہے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے جنگوں میں الجھے رہے ہیں تاکہ ان کے مذہب کی بالادستی قائم ہو جائے ۔اسلام اور عیسائیت کے درمیان اور پھر اسلام اور یہودیت کے درمیان جنگیں تاریخ کا حصہ ہیں جس کے اثرات کو بیان کرنا میرے کالم کا موضو ع نہیں ہے ۔اسلام کی آمد پر اسلام کا پہلا ٹکرائو یہودیت سے ہوا جس میں یہودیت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ خیبر کی شکست یہودیت کے لئے اتنا بڑا صدمہ تھا جس سے وہ صدیوں جانبر نہ ہوسکی ۔
دوسری بڑی سلطنت جس کا اسلام کے ساتھ ٹکرائو ہوا وہ عیسائیت کی عظیم الشان سلطنت رومةلکبری تھی اور شکستِ فاش کے بعد رومةالکبری تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئی ۔ صلیبی جنگیں اور پھر ان جنگوں میں عیسائیت کو ذلت آمیز شکست عیسائیت کے منہ پر ایسا تازیانہ ہے جس کے درد، تکلیف اور ذلت کو عیسائیت آج بھی محسوس کرتی ہے۔کمال یہ ہے کہ اسلام کے خلاف عیسائیت اور یہودیت کا ہمیشہ سے گٹھ جوڑ رہا ہے اور دونوں کی مشترکہ حکمتِ عملی اسلام کی بیخ کنی کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔اگر میں یہ کہوں کہ عیسائیت اس وقت یہودیت کی محافظ بنی ہو ئی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
America
1954 میں فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام اور پھر اس کی حفاظت کا جو ٹھیکہ امریکہ اور یورپ نے اٹھا رکھا ہے دنیا پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اور کسی بیان کا محتاج نہیں ہے اور اس بات کا برملا اظہار ہے کہ اسلام کے سینے میں خنجر پیوست کرنے میں یہ دونوں متحد ہیں اور اپنی ان سازشوں سے وہ آج بھی باز نہیں آرہے۔ ۔مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں کہ اپنے اپنے موقف کے حق میں لڑنا اور دوسری قوموں کا اپنا مطیع و فرمانبردار بنا نا ہمیشہ سے انسانوں کا خاصہ رہا ہے اور اسلام کو بھی اس سے استثنی حاصل نہیں ہے۔مسلمانوں نے اپنے نظریات کی صداقت کی قوت سے روم و ایران پر اپنی فتح کے پرچم لہرائے حالانکہ مسلمان ظاہری وسائل کے لحاظ سے ان کے عشرِ عشیر بھی نہیں تھے ۔اسلام نے اپنے زمانہِ عروج میں پوری دنیا پر اپنی حکمرانی کی اور کسی کو ان کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں تھی۔
مسلمانوں نے کرہِ ارض پر اپنی حاکمیت ان اصولوں کے تحت حاصل کی تھی جو انھیں خدا نے عطا کئے تھے اور جن میں انسانیت کی فلاح اور بقا کا درس تھا۔ روم اور ایران کی عظیم سلطنطیں ان کے زیر نگین تھیں اور پورا عالم ان کے جاہ و جلال سے کانپتا تھا اور وہ بلا شرکتِ غیرے اس کرہِ ارض کے فیصلے کیا کرتے تھے۔قومو ں کے عروج و زوال کی ساری داستانیں تاریخ کے سینے میں آج بھی محفوظ ہیں جن سے عبرت حاصل کر کے نئی قومیں اپنی حاکمیت اور برتری کا سکہ جما سکتی ہیں۔ یونان، ایران، رو مةالکبری، اسلام، ، فرانس، سپین روس، انگلستان اور امریکہ اس کی چند مثالیں ہیں۔ اس وقت امریکہ اس کرہِ ارض کی سب سے بڑی طاقت ہے اور دنیا کے سارے بڑے فیصلے اسی کی منشا اور مرضی سے طے پا رہے ہیں ۔ کسی کو یہ پسند ہے یا پسند نہیں ہے یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے لیکن حقیقت یہی ہے اور کسی کے پسند و نا پسند سے یہ حقیقت بدل بھی نہیں سکتی۔سوال یہ نہیں کہ امریکہ اس دنیا کا چوہدری کیوں بنا ہوا ہے بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ وہ اس مند پر کیسے جلوہ افروز ہو گیا؟ ہر وہ قوم جسے اس کرہِ ارض کی سرداری لینے کا شوق ہے تو اسے علم ہو نا چائیے کہ سرداری لینے کے چند اصول ہیں اور جوقوم بھی ان اصولوں کی پاسداری کرے گی سرداری اسی کا مقدر بنے گی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سارے اصول میرے مولا نے مقرر کر رکھے ہیں جو کہ ربِ العالمین ہے۔خدا نے یہ اصول رب المسلمین بن کر عطا کئے ہو تے تو پھر اسلام ہمیشہ کے لئے فاتح قرار پا تا لیکن چونکہ اس نے یہ اصول رب ا لعالمین بن کر مقرر کئے ہی ہیں لہذا اس میں ہر قوم و ملت کو سرداری حاصل کرنے کا جوہر عطا کر دیا گیا۔آج کل اسی سرداری کے جوہر کا اظہار امریکہ کر رہا ہے کل کو اس صلا حیت کا اظہار مسلمانوں نے کیا تھا اور ساری قومیں ہماری مطیع تھیں۔ ہم نے اس جوہر سے کنارہ کشی اختیار کر لی تو گردشِ دوراں نے ہمیں ثریا سے زمین پر دے مارا۔۔ دنیا کا ایک مسلمہ اصول ہونا چائیے کہ ہر مذہب کے ماننے والے کو اس کے عقائد کے مطابق عمل کی آزادی ہو نی چائیے۔ کسی قوم کو کسی دوسری قوم پر محض اس وجہ سے کہ اس کا مذہب اور عقائد دوسرے ہیں حملہ آور ہونے یا ان کی تضحیک کرنے کا کوئی حق حا صل نہیں ہونا چائیے۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کے عقائد اور اس کے بانیوں کا احتر لازمی ہو نا چائیے۔کسی کو کسی مذہب کی قابلِ احترام ہستیوں کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے یا ان کے بارے میں توہین آمیز فلمیں، خاکے اور کارٹون بنانے کی اجازت نہیں ہو نی چائیے۔ ہر ملک کے آئین میں یہ درج ہو نا چائیے کہ جو کوئی ایسا کرے گا سزا کا مستحق ہو گا۔دنیا اس وقت ایک گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر گئی ہے لہذا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس ویلج میں رہنے والے ایک خاص مذہب کے لوگوں کی محبوب ہستیوں کے بارے میں ہرزہ سرائی کی جائے اور پھر اس کے بعد یہ تصور کر لیا جائے کہ وہ قوم خا موشی سے سب کچھ برداشت کر لے گی۔ جس قوم کے افراد دوسری قوموں کی محبوب ہستیوں کے خلاف بغض و عناد اور توہین کا مظاہرہ کریں گی وہ اس ویلج کے امن و استحکام کے دشمن تصور ہو ں گئے جس کا اس وقت ہر ایک فرد بڑا اہم حصہ ہے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زندگی پر فلمیں اور کارٹون بنا نا مغرب کا محبوب مشغلہ رہا ہے اور دشمنِ اسلام یہ آج کوئی پہلی دفعہ نہیں کر رہے بلکہ پچھلے کئی سالوں سے یہی ان کا وطیرہ رہا ہے۔ مسلمان احتجاج کرتے ہیں ، توڑ پھوڑ کرتے ہیں اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کے بعد وہی شب و روز اور وہی سر گرمیاں شروع ہو جاتی ہیں۔کبھی سلمان رشدی شیطانی آیات تحریر کرتا ہے ،کبھی بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین ہرزہ سرائی کرتی ہے ،کبھی سرکارِ دو عالم کے توہین آمیز خاکے بنائے جاتے ہیں اور کبھی گھٹیا کارٹونوں سے عاشقانِ رسول کی دل آزاری کی جاتی ہے۔ ایک سلسلہ ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا اور آئے دن اس قسم کی گھٹیا حر کات سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور ان کے جذبات کو بر انگیختہ کرنے کا گھٹیا مشن جاری ہے اور پھر ان سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ خاموشی اختیار کر لیں گئے اور سب کچھ برداشت کر لیں گئے ۔مسلمان جذباتی قوم ہے اور جذبات کے اظہار میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔لہذا توہینِ رسالت پر اس سے اسی طرح کے جذبات کی ہی توقع تھی اور اس کا علم گستاخانہ فلم (انونس آف مسلمز) بنانے والے ٹیری جونز کو بھی ہے۔ حکومت نے مغرب کی اس طرح کی حالیہ توہین آمیز فلم کے خلاف جمعے کو چھٹی کا اعلان کر کے اور یومِ عشقِ رسول منانے کا فیصلہ کر کے انتہائی دنشمندانہ قدم اٹھا یا تھا ۔پوری امتِ مسلمہ گستاخانہ فلم (انونس آف مسلمز) پر سراپا احتجاج بنی ہو ئی ہے۔اس دور میں جب کہ دوسرے مذاہب کے احترام کا بہت زور شور ہے اسی دور میں دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبِ خد احضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بارے میں اس گستاخانہ فلم نے مسلمانوں کو آگ بگولہ کر رکھا ہے۔مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلمکی ذات کے بارے میں ہلکی سی گستاخی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔
Terry jones
اس طرح کی گستاخانہ فلم بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اس فلم ساز ٹیری جونز کو دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کا بالکل خیال نہیں ہے ۔ دنیا کے سارے مذاہب ایک دوسرے کے احترام کا درس دیتے ہیں لیکن اس فلم ساز ٹیری جونز نے ایک گستاخانہ فلم بنا کر احترامِِ مذاہب کا نہ صرف مذاق اڑا یا ہے بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے جذبات کو مجروح بھی کیا ہے جو ہر حال میں قابلِ مذمت ہے۔ دنیا کی سپر پاور کا ایک فرد اگر یہ نہیں سمجھتا کہ دنیا کے دوسرے بڑے مذہب کی محبوب ترین شخصیت حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عزت و احترام کرنا اس کے لئے لازمی ہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس طرح کی حرکتوں سے امریکہ اپنے زوال کو دعوت دے رہا ہے۔ جب انسانیت کا احترام دلوں سے مفقود ہو جاتا ہے تو پھر زوال فطری نتیجہ ہوتا ہے اور اس طرح کی انتہا ئی گھٹیا حرکت کے بعد امریکہ اس جانب بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تحریر : طارق حسین بٹ