اس سے وفا کی آس نہیں ہم بھی کیا کریں
Posted on March 11, 2012 By Adeel Webmaster شاہد رضوی
zakhmi phool
اس سے وفا کی آس نہیں ہم بھی کیا کریں
ایک عمر تو گزر گئی کب تک وفا کریں
بزم خیال کھوئی گئی کوئے یار میں
تنہائی ذہن میں بھی اب چپ رہا کوئی
اے پر شکستگی ترا احسان اٹھائیے
پرواز کی سعی میں تماشہ بنا کریں
ایک بار مشتِ خاک سے فرصت نہیں ملی
کیسے اٹھائیں سر کو، کوئی بات کریں
ہے میکدہ یہیں کہیں راہِ حرم کے بیچ
چلتے میں ایک جام اگر پی لیا کریں
رضوی غریب شہر ہے ایسا، عجب نہیں
کوئے جنوں سے اس کے صحیفے ملا کریں
شاہد رضوی