وہ دونوں تیسری منزل کے ایک کمرے میں تھے یہ چھوٹا سا کمرہ اپنی ہلکی نیلی روشنی کیساتھ باہر سے یوں دکھائی دیتا گویا ترین کا کوئی ٹھنڈا ڈبہ ہے جس طرح ریلوے والے گرمی کے موسم میں ”فردوس سیمیں” یا ” خواب سیمیں ” وغیرہ شاعرانہ نام رکھ کر بعض خاص گاڑیوں میں جوڑ دیتے ہیں۔ بارشوں کا زمانہ قریب قریب ختم ہو چکا تھا۔ مکانوں میں بسنے والی مخلوق نے پسینے، بدبو اور گھٹن سے نجات پائی تھی۔ فضا میں خصوصاً رات کے وقت خنکی ہونے لگی تھی۔ ہاں جب کوئی بڑا سا کالے رنگ کا پتنگ اپنی تیز بھنبھناہٹ کیساتھ اندھا دھند کسی برقی قمقمے کے چکر کاٹنے لگتا تو ظاہر ہو جاتا کہ برکھا رت ابھی گئی نہیں۔ نجمہ ٹھیک اسی طرح سیدھی مانگ نکالا کرتی، نوجوان نے کہا، مگر کبھی کبھی وہ گدی تک مانگ لے جاتی۔ یہ طریقہ اس نے ایک بنگالن سے سیکھا تھا۔ نسرین چپ رہی نظریں فرشی سنگھار میز کے آئینے پر جمائے جس میں اسے اپنا دھندلا دھندلا نیلگوں عکس دکھائی دے رہا تھا وہ بالوں میں کنگھی کرتی رہی جیسا کہ سونے سے پہلے بعض عورتوں کی عادت ہوتی ہے۔ نوجوان اس کے پاس ہی چاندنی پر کہنیوں کے بل اوندھا لیٹا ہوا تھا۔ یوں لیٹنے سے اسکی سفید سلک کی قیمض اور خاکی زین کی پتلون میں جابجا سلوٹیں پڑ گئی تھیں۔ اس نے چند لمحے جواب کا انتظار کیا اور پھر کہنا شروع کیا۔ ” کبھی کبھی نجمی اپنے داہنے کان کے پاس سے اپنے بھورے بالوں کی ایک لٹ نکال کر لام(ل) سا بنا لیا کرتی جو اس کے سرخ و سفید بھرے بھرے گال پر بہت بھلا لگتا۔
نسرین کے چہرے پر خفیف سی اضمحلال کی کیفیت پیدا ہوئی مگر زبان سے اب بھی اس نے کچھ نہ کہا وہ سوچ رہی تھی یہ کیسا مرد ہے جس کے پاس بات کرنے کو بیوی کے سوا اور کوئی موضوع ہی نہیں۔ وہ دو گھنٹے سے برابر اسی عورت کا ذکر سنے جا رہی تھی جو اب دنیا میں موجود نہ تھی ان دو گھنٹوں میں میں اس نوجوان کی متاہل زندگی کے تمام اہم واقعات اور اسکی مرحوم بیوی کی بہت سے عادتوں اور خصلتوں سے واقف ہوچکی تھی۔ یہ کہ اسے بچپن ہی سے اپنی بیوی سے عشق تھا۔ یہ کہ نجمہ کا باپ انکی شادی کیخلاف تھا مگر ماموں اور چچا حق میں تھے۔ یہ کہ نجمہ لمبے قد کی تھی۔ اسے گانا سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جب وہ ہنستی تو اسکے بائیں گال میں گڑھا پڑ جاتا۔ اسے حنا کا عطر بہت مرغوب تھا۔
girl thinking
وہ کروشیے سے مور بہت اچھا بنایا کرتی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سفر بہت لمبا تھا مگر اسکی سہمی ہوئی نظروں نے جلد ہی ستاروں کو ڈھونڈ نکالا تھا۔ اسکو دیکھ کر اس کا ڈر گم ہونے لگا تھا۔ یہاں تک کہ وہ باپ کے کندھے سے لگ کر سو گئی۔ آنکھ کھلی تو خود کو ایک اجنبی کے گھر پایا وہ کئی دن تک روتی بلکتی رہی مگر باپ کی صورت دیکھنا اسے پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح کو نسرین کی آنکھ کھلی تو سورج خاصا نکل آیا تھا اٹھتے ہی سب سے پہلے اسے جو احساس ہوا یہ تھا کہ نوجوان اسکے بستر پر موجود نہیں، اس نے سوچا غسل خانے میں ہو گا اور وہ کھلے کھلے بستر پر کروٹیں بدلنے لگی۔ جب پاؤ گھنٹہ گزر گیا اور نوجوان کہیں نظر نہ آیا تو اسے الجھن ہونے لگی۔ ثمن جھاڑو لیے کمرے میں آیا تو اس سے پوچھا ” وہ رات والے بابو کہاں ہیں؟” ” چلے گئے ” چلے گے؟ اس نے تعجب سے پوچھا۔ جی ہاں۔ صبح ہی صبح۔” ہم سو رہے تھے دروازہ بھی تو کھلا ہی چھوڑ گئے۔ ویسے تو سب خیریت ہے ناں؟ بے ساختہ اسکے منہ سے نکل گیا۔ جی سب خیریت ہے ۔ ثمن اسکا مطلب فوراً سمجھ گیا تھا۔ میں نے اٹھتے ہی سب دیکھ بھال لیا تھا۔ اپنے گھٹیا پن پر اسے شرم آ گئی، مگر وہ دوسرے ہی لمحہ اس خیال نے اس پر تسلط جما لیا کہ وہ نوجوان کیوں چلا گیا اس نے سوچا رات اسے میرا طعنہ برا لگا وہ بڑا حساس تھا۔ اوپر اوپر سے ہنستا بولتا رہا صبح ہوتے ہی چل دیا۔ منہ ہاتھ دھو کر نیچے پھوپھی کے پاس جانے کو تھی کہ اچانک کسی کے جلد جلد سیڑھیاں چڑھنے کی آواز آئی نوجوان گیا نہیں تھا۔ وہ رومال میںکچھ باندھے لئے آ رہا تھا۔ ” معاف کرنا” اس نے اپنے پھولے ہوئے سانس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ میں تمہیں بتائے بغیر ہی چلا گیا۔ میں نے جگانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ یہ لو۔ یہ کہہ کر اس نے رومال نسرین کے ہاتھ میں دیدیا۔ کیا ہے؟ نسرین نے پوچھا۔ گوشت ترکاری، یہ کہہ کر وہ مسکرانے لگا جیسے اس نے کوئی شرارت کی ہو۔ گوشت ترکاری؟ کس نے کہا تھا لانے کو؟ ” خفا کیوں ہوتی ہو، بات یوں ہے جب نجمی زندہ تھی میں یونہی منہ اندھیرے اسے جگائے بغیر گھر سے نکل جاتا ہوا خوری کی ہوا خوری ہو جاتی اور گھر کا سودا بھی لے آتا ہمیں نوکر رکھنے کی توفیق نہیں تھی۔ بس یونہی مل بانٹ کے کام کیا کرتے وہ گھر کا اور میں باہر کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا دیکھو تو گوشت کیا عمدہ اور تازہ ہے آدھا دست کا اور آدھا پشت کا۔ اور گردا رونگے میں۔ نوکر کا باپ بھی ایسا گوشت نہیں لا سکتا اور پھر ذرا کچنال تو دیکھو، آج ہی شہر میں آئی ہے۔ پھر پیاز بھی ہے، ہری مرچیں بھی اور ادرک بھی اور دھنیا بھی۔” نوجوان داڑھی بھی منڈاتا آیا تھا۔ تھوڑا سا صابن اسکے کانوں کی لوؤں پر ابھی تک لگا رہ گیا تھا۔ نسرین کا جی چاہا کہ دوپٹہ کے دامن سے صابن کو پونجھ دے مگر وہ ایسا نہ کر سکی۔ آپ نے ناحق تکلیف کی۔ نسرین نے کہا۔ ” خیر اب لے آئے تو میں ثمن کو بلواتی ہوں۔ یہ کیوں؟ میں کھانا خود پکاؤں گا۔ جب نجمی زندہ تھی تو کبھی کبھی میں ہنڈیا پکایا کرتا وہ سامنے مونڈھے پر بیٹھی مجھے بتاتی رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” ” ہمارا ثمن بہت ہوشیار ہے۔ ” نسرین نے کہا۔ ایسا کھانا پکاتا ہے کہ زبان چٹخارے لیتی رہ جاتی ہے۔ نہیں صاحب، نوجوان نے قطعی فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔نجمی کچنال ایک خاص ترکیب سے پکایا کرتی تھی وہ ترکیب تو وہ جانتی تھی یا میں جانتا ہوں۔ مہربانی کر کے آپ انگیٹھی ، کوئلے اور چاقو منگوا دیجیے۔ نسرین نے اس سلسلہ میں کچھ اور کہنا مناسب نہ سمجھا اور خاموش سیڑھیوں سے اتر گئی۔ آؤ بیٹا، نسرین کی پھوپھی نے اسے دیکھ کر اگلدان میں پیک تھوکتے ہوئے کہا۔ میں ابھی ابھی ثمن سے کہہ رہی تھی کہ تمہارا اور اسکا ناشتہ اوپر لے جائے۔ میں ناشتہ نہیں کرونگی، اس کیلئے اوپر بھیج دو۔ تم چپ چپ کیوں ہو؟ نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکل سے تو بڑا گم زبان معلوم ہوتا ہے۔ نسرین نے کچھ جواب نہ دیا۔ کیا کر رہا ہے اسوقت؟ پھوپھی نے پوچھا۔ ہنڈیا کا سودا خرید کر لایا ہے خود ہی پکانے بیٹھا ہے۔ نسرین کی پھوپھی کھکھلا کر ہنس پڑی۔ سچ۔ ہاں، ہاں۔ بڑا ہی سیدھا سادہ ہے۔ خبطی ہے پورا، رات پھر اپنی مری ہوئی بیوی کی باتیںکر کے دماغ چاٹ گیا۔ ثمن کو اسکے پاس بھیج دینا ہاتھ بٹاتا رہیگا۔ میں ذرا نوبہار کے ہاں جاتی ہوں۔ نسرین کا خیال تھا کہ وہ کم سے کم ایک گھنٹہ نوبہار کے ہاں ضرور ٹھہرے گی مگر پاؤ گھنٹہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ اٹھ آئی۔ سیدھی اوپر کی منزل میں پہنچی دیکھا کہ کمرے کے باہر دالان میں انگیٹھی دہک رہی ہے اور نوجوان اسکے پاس ہی ایک چھوٹی سی دری پر آلتی پالتی مارے بیٹھا پیاز کتر رہا ہے۔ آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔ پانی بہہ رہا ہے اس سے ذرا ہٹ کے ثمن بیٹھا بڑے مزے سے یہ تماشہ دیکھ رہا ہے۔
cutting onion
” ثمن ” نسرین نے کسی قدر سختی سے کہا” تم بیٹھے منہ کیا تک رہے ہو۔ صاحب سے پیاز لے کر کیوں نہیں کترتے؟ میں تو کئی دفعہ عرض کر چکا ہوں۔ ثمن نے منہ بنا کر کہا۔ پر صاحب مانتے ہی نہیں۔ مجھ سے آگ جلانے کو کہا میں نے آگ جلا دی۔ اچھا تم نیچے جاؤ۔ جب ثمن چلا گیا، تو نسرین نے کہا: حضرت یہ اس عمر میں ہنڈیا پکانے کی کیا سوجھی ہے۔ لائیے پیاز مجھے دے دیجیے اور جا کر آنکھوں پر چھینٹے دیجیے اور اس نے ہاتھ بڑھا کر نوجوان کی گود سے پیاز کی رکابی خود ہی اٹھا لی، نوجوان نے مزاحمت نہ کی، دو گھنٹے کیبعد جب وہ دونوں دسترخوان پر کھانا کھانے بیٹھے تو نوجوان نے کہا۔ ” معاف کرنا میری وجہ سے تم کو اتنی تکلیف اٹھانی پڑی، بات یہ ہے کہ نجمی۔۔۔۔۔۔۔ ” واہ کیا مزے کا کھانا پکایا ہے۔؟ نوجوان نے پہلا نوانہ منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔ نجمی کے ہاتھ کا مزہ یاد آ گیا۔ چلئے زیادہ بنائیے نہیں۔ چپاتیاں تو دیکھیے کیسی ٹیڑھی بینگی ہیں۔ چپاتیاں نجمی کو بھی پکانی نہیں آتی تھیں اور میں زیادہ تر تنور ہی سے روٹیاں لگوا کر لایا کرتا تھا۔ مجھے تنور کی روٹی زہر لگتی ہے۔ کبھی کبھی ہم کوئی سستا سا خانساماں بھی رکھ لیا کرتے، مگر وہ پندرہ بیس روز سے زیادہ نہ ٹکتا۔ چپکے چپکے کسی اچھے گھر کی ٹوہ میں رہتا اور پھر کھسک جاتا۔ کھانے سے فارغ ہو کر دونوں کمرے میں فرش پر آ بیٹھے۔ ”آپ نے کہا تھا”نسرین نے کہا۔ آجکل آپ کسی دوست کے ہاں رہتے ہیں۔ ہاں نجمی کے مرنے کیبعد میں نے امی جان اور زہری کو تو گاؤں بھیج دیا تھا اور خود ایک دوست کے ہاں اٹھ آیا تھا۔ یہ دوست بھی میری طرح اکیلا ہی ہے۔ ہم دونوں مکان کے کرائے، کھانے پینے کے خرچ اور نوکر کی نتخواہ میں ساجھی ہیں۔ اور آدھی تنخواہ آپ امی جان کو بھیج دیتے ہیں؟ ہاں مگر وہ ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے کچھ نہ کچھ لوٹاتی رہتی ہیں۔ کبھی گرم پتلون سلوانے کیلئے کبھی نیا بوٹ خریدنے کیلئے۔ نسرین نے محسوس کیا کہ اسکی ماں اسے بہت چاہتی ہو گی۔ اپنی ہمشیرہ کی کیا عمر بتائی تھی آپ نے؟ دس برس، بڑی پیاری بچی ہے۔ اسکولجاتی ہے؟ نہیں گھر پر مولوی صاحب سے پڑھتی ہے، سینا پرونا اسے دادی سکھاتی ہے۔ اس نے ایک بکری پالی ہے۔ دودھ سے سفید ایک بھی کالا بال نہیں۔ زہرہ اسکی بڑی دیکھ بھال کرتی ہے۔ کھیت سے یونٹ توڑ لاتی ہے اپنے ہاتھ سے کھلاتی ہے۔ ہمارے گاؤں کے پاس ہی چھوٹی سی ندی بہتی ہے۔ وہ اسے وہاں پانی پلانے لے جاتی ہے۔ ایک دن کیا ہوا کہ وہ بکری پانی پی رہی تھی کہ ایک بڑا سا کتا آیا وہ جو زور زور سے بھونکا تو بکری ڈر کر ندی میں گر پڑی۔ پانی کا بہاؤ تیز تھا۔ وہ اسکے ساتھ بہہ چلی۔ اس پر زہرہ نے چیخ چیخ کر برا حال کر لیا۔ اتفاق سے ایک کسان ادھر سے گزرا، شور سن کر دوڑا ہوا آیا۔ بڑی مشکل سے بکری کو نکالا تب زہرہ کی جان میں جان آئی۔ نسرین یہ سادہ سا بے رنگ واقعہ بڑی دلچسپی سے سنتی رہی۔ اب نوجوان پر کچھ کچھ غنودگی طاری ہو رہی تھی۔ وہ گاؤ تکیے کے سہارے لیٹ گیا۔ رفتہ رفتہ اس کی آنکھیں بند ہوگئیں اور وہ سو گیا۔ نسرین اٹھی، الماری کے خانے سے سفید ململ کا دوپٹہ اور گوٹا اٹھا لائی اور نوجوان کے قریب ہی فرش پر بیٹھ کر دوپٹہ میں گوٹا ٹانکنے لگی، مگر تھوڑی ہی دیر میں اسکا جی اکتا گیا اور وہ بھی پلنگ پر جا کر لیٹ گئی۔ تیسرے پہر ایک رکشہ منگوایا گیا اور وہ دونوں بازار جانے کی تیاری کرنے لگے۔ نوجوان نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اسے کوئی تحفہ خرید کر دینا چاہتا ہے۔ اس نے بغیر کسی شم و حجاب کے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ نسرین بیس روپے تک کی جو چیز چاہے خرید سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کی اسے توفیق نہیں۔ ” یہ سچ ہے ” اس نے کہا، کہ اتنے کم داموں کی کوئی چیز تمہارے لائق نہیں ہو سکتی مگر میرا جی چاہتا ہے کہ میری کوئی چیز خواہ وہ کتنی ہی حقیر کیوں نہ ہو تمہارے پاس بطور یادگار رہے۔
market
اور وہ اس کیساتھ چلنے پر رضامند ہو گئی تھی۔ پھوپھی کی اجازت دینے میں تامل ہوا تھا مگر ایک تو نسرین خود جانے پر مصر تھی دوسرے نوجوان کے چہرے سے ایسی معصومیت برس رہی تھی کہ کسی برے ارادے کا گمان تک نہ ہوتا تھا اور وہ خاموش رہ گئی۔ اور اب نسرین نیلے رنگ کا برقعہ اوڑھے نوجوانکے پہلو میں رکشہ میں بیٹھی تھی۔ شہر کی کھلی سڑکوں پر ہزاروں، عورتوں، مردوں کے بہتے ہوئے ہجوم میں یہ جوڑا بھی تھا۔ اسے دیکھ کر کسی کو یہ سوچنے کی پرواہ نہ تھی کہ انکا رشتہ زن و شوہر کے سوا اور بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ وہ رکشہ سے اتر کر کئی بازاروں میں سے گزرے کئی دکانوں میں گئے۔ جب وہ سڑک پر چلتی تو وہ اسکے آگے پیچھے راستہ صاف کرتا اسے آنے جانیوالی گاڑیوں موٹروں اور ہجوم کی دھکابیل سے بچاتا یوں اپنی حفاظ میں لے جاتا گویا وہ کوئی بہت مقدس چیز ہے جس کا دامن تک کسی سے چھو جانا اسے گوارا نہیں۔ جب وہ کسی دکان میں داخل ہوتے تو اسکی فرمائش کی چیزیں دکاندار سے منگوا منگوا کر ایسی تکریم سے پیش کرتا کہ دیکھنے والے یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکتے کہ یہ کوئی نیا جوڑا ہے اور یہ کہ شوہر بیوی سے کماش عشق رکھتا ہے۔ نسرین نے بڑی قیمت کی کوئی ایک چیز نہیں خریدی بلکہ روز مرہ کی چھ چھوٹی چھوٹی چیزیں خریں۔ جن میں بعض کی واقعی اسے ضرورت تھی، مثلاً ایک تو چمچا خریدا۔ ایک ریشمی ازار بند کچھ چھوٹی بڑی سوئیاں، دو تین مختلف رنگوں کے تاگے کچھ ریلیں، کچھ کروشیا کی سلائیاں، ایک فریم، دو تین مختلف غازے اور بس، ان سب چیزوں پر بیس روپے سے کچھ ہی خرچ ہوئے۔ ہر ایک چیز خریدنے کیبعد وہ بڑی ادا کیساتھ پوچھتی، باقی کیا بچا؟ واپسی پر نوجوان اسے ایک ریستوران میں لے گیا اور ٹھنڈی اور گرم کئی قسم کی چیزیں منگوائیں اور نسرین کو اپنی مرضی کیخلاف کئی چیزیں کھانی پڑیں۔ جس وقت وہ گھر پہنچے، اچھا خاصا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ نسرین کی پھوپھی بڑے اضطراب سے اسکی راہ دیکھ رہی تھی۔ جب وہ صحیح سلامت گھر پہنچ گئے تو اسکی جان میں جان آئی۔ ثمن سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے چنانچہ شام سے اوپر کی سیڑھیوں کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ نسرین نے پچھلی رات کیطرح پھر کمرے کی ہلکی نیلی روشنی میں کنگھی کرنی شروع کی۔ نوجوان پھر اسکے پاس ہی چاندنی پر لیٹ گیا کچھ دیر دونوں خاموش رہے پھر نوجوان نے کہا۔ ” نسرین میں نے تمہیں نجمی کی بہت سے باتیں بتائیں مگر ایک بات نہیں بتائی۔” نوجوان نے یہ بات ایسے گھمبیر لہجے میں کہی تھی کہ نسرین بے ساختہ کہہ اٹھی۔ وہ کیا؟ نوجوان کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بولا۔ وہ یہ کہ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باوفا نہیں تھی؟ کیا مطلب؟ نسرین نے اور بھی معتجب ہو کر پوچھا۔ مطلب یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ وہ کسی اور کو چاہتی تھی۔ جھوٹ ہے۔ نہیں میں سچ کہہ رہا ہوں۔ مجھے ثبوت مل گیا تھا۔ وہ کیا؟ نوجوان لمحہ بھر کیلئے خاموش رہا۔ پھر بولا۔ اسکے خط۔ میں نے غلطی سے اسکے نام کا ایک خط کھول لیا تھا۔
reading letter
یہ کہتے کہتے نوجوان ایک سخت افسردہ ہو گیا اور اس نے گردن جھکا لی۔ اور تم پھر بھی اسے چاہتے رہے؟ ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ بھرائی ہوئی آواز میں نوجوان کے منہ سے نکلا۔ اسکے سوا چارہ ہی نہ تھا۔ کئی لمحے خاموشی رہی جسے توڑنے کی کسی میں خواہش پیدا نہ ہوئی۔ کیا وہ جانتی تھی کہ تم اسکے اس راز سے واقف ہو؟ بالآخر نسرین نے پوچھا۔ نہیں، میں نے آخری دم تک اس پر یہ ظاہر نہ ہونے دیا۔ اسکی موت سے چند منٹ پہلے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ سخت نزع میں ہے اور مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے مگر میں اس سے آنکھ نہ ملاتا تھا۔ البتہ دلداری اور تشفی کے کلمے برابر میرے منہ سے نکلتے رہے۔ یہاں تک کہ اس نے آخری ہچکی لی اور رخصت ہو گئی۔ کچھ لمحے پھر خاموشی رہی جس کو خود ہی نوجوان نے توڑا۔ آخر اس پر یہ ظاہر کرنے کا فائدہ بھی کیا تھا۔ اس رات پچھلی شب کی بہ نسبت جلد ہی روشنی گل کر دی گئی۔ نوجوان پھر جلد ہی سو گیا۔ نسرین برابر ستاروں کو جھلملاتے دیکھتی رہی۔ پچھلے پر اچانک نوجوان نے سوتے ہی سبکی لی اور پھر تیز تیز سانس لینے شروع کر دیے۔ نسرین نے سر اٹھا کر اسکے چہرے کیطرف دیکھا، کچھ دیر سوچتی رہی پھر جسطرح کوئی بچہ سوتے سوتے ڈر جائے تو ماں اسے چھاتی سے چمٹا لیتی ہے۔ نسرین نے بھی اسی طرح اس کا سر اپنے بازو میں لے کر اسے اپنی آغوش میں بھینچ لیا۔