اصغر خان کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے ایجنسیوں پر انیس سو نوے کے انتخاب میں دھاندلی کا الزام لگایا ہے
پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں نے کلِک اصغر خان کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس سے انتخابی نتائج پر ایجنسیوں کے اثر انداز ہونے کا رجحان ختم ہو جائے گا۔
پیپلز پارٹی کے ارکان پنجاب اسمبلی نے مطالبہ کیا ہے کہ اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنی میں تحلیل شدہ انتخابی اتحاد آئی جے آئی کی قیادت کو نااہل قرار دیا جائے اور سیاست دانوں کو رقوم دینے والے جرنیلوں کا کورٹ مارشل کیا جائے۔
یہ مطالبہ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں منظور کی جانے والی تین مختلف قراردادوں میں کیا گیا۔
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب مخالف راجہ ریاض نے بتایا کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں یہ مطالبہ کیا کہ جمہوریت کے خلاف پس پردہ سازشیں کرنے اور بینظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کرنے والوں کا پول کھل گیا ہے اس لیے مسلم لیگ نون کے سربراہ نوازشریف اور ان کے بھائی شہباز شریف جمہوری حکومت کو ختم کرانے پر قوم سے معافی مانگیں۔
پیپلزپارٹی کے رہنما نے بتایا کہ اجلاس میں الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ کیا کہ شریف برادران کو نااہل قرار دے کر ان کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی جائے۔
جمعہ کے روز سپریم کورٹ نے سابق ائیر مارشل اصغر خان کی درخواست پر فیصلے میں قرار دیا کہ سنہ انیس نوے کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق انتخابی عمل کو آلودہ کیا اس وقت کے آرمی چیف جنرل آرمی مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آیی کے سربراہ اسد درانی کا انفرادی فعل تھا۔
سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے بیان حلفی کے مطابق جن سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں نے رقوم لیں ان میں مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف ، سابق نگران وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی، سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو ، سابق وزرا جام صادق، جام یوسف اور افضل خان ، پیر پگاڑا اور جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاست دان شامل تھے۔
پیپلز پارٹی کی مقتول سربراہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان نے تحلیل کرکے نئے انتخابات کرائے اور سنہ نوے میں ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی صرف 47 نسشتوں پر کامیابی ہوئی تھی اور مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف نے وزارت عظمی کا منصب سنبھالا تھا۔
پیپلز پارٹی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد راجہ ریاض بتایا کہ اجلاس ایک قرارد داد کے ذریعے یہ مطالبہ کیا گیا کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کااصغر خان کیس کے فیصلے کے تحت کورٹ مارشل کیا جائے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ(نواز)، پاکستان مسلم لیگ(ق)، پاکستان مسلم لیگ(ہم خیال)، پاکستان مسلم لیگ(ضیا) اور پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی فیصلہ قرار دیا ہے۔ خبروں میں شائع ہونے والے رد عمل کے مطابق ان سیاسی جماعتوں نے فوج سے پیسے لے کر انتخاب لڑنے والے افراد کے لیے مثالی سزاں کا مطالبہ کیا ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے سنیچر کو کلر کہار میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ پاکستانی کے انتخابی کمیشن سے مطالبہ کریں گے کہ وہ ایسے سیاستدانوں کو انتخاب میں حصہ لینے سے روکیں جن پر ایجنسیوں سے پیسے لینے کے الزامات ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ(نواز) کے ترجمان پرویز رشید نے پیپلزپارٹی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ان تینوں افراد کے جن پر سپریم کورٹ کے فیصلے میں انگلی اٹھائی گئی ہے پیپلزپارٹی سے قریبی تعلقات تھے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی اخبار میں شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس وقت پاکستان کے صدر غلام اسحق خان نے بینظیر بھٹو کی حمایت سے انیس سو ترانوے میں نوا شریف کی حکومت ختم کی تھی۔انہوں نے کہا کہ جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت سے نوازا گیا اور جنرل اسد درانی کو سفیر بنایا گیا۔
جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ سے منسوب بیان میں کہا گیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ انتظامیہ اور حکومتی اہلکار کسی کے بھی غیر آئینی احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیں۔
پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے رکن قومی اسمبلی حمزہ شہبار شریف نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اہم فیصلہ دیا ہے اور اب ہمیں حقائق کے منظر عام پر آنے کا انتظار کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس فیصلہ کی روشنی میں شفاف انکوائری ہونی چاہیے تاکہ ذمہ دار افراد کو سزا دی جا سکے۔