گزشتہ سے پیوستہ سرکاری ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹیلی ویژن روشن خیالی کے نام پر تاریکیاں پھیلانے اوراعتدال پسندی کی آڑ میں بے اعتدالی اوربے راہ روی کی ساری حدیں پھلانگنے کی ڈیوٹی بڑی جانفشانی کے ساتھ سرانجام دے رہاہے اسکی سکرین پر فلم ،ٹیلی ویژن اور اسٹیج کے گویوںکے علاوہ کچے پکے راگ گانے والوں اور پاپ سنگرز کی فوج ظفرموج اپنے مخصوص رنگ میں سازوں کے ساتھ میدان نعت میں جولانیاں دکھاتی نظرآتی ہے۔
یہا ں دوگانہ اور کورس کے انداز میں مردوزن کی مخلوط نغمہ سرائی کو بہت پذیرائی ملتی ہے میڈیاکی دنیا سے باہر کے بعض نعت خواںحضرات بھی ایسی قباحتوں کو جائز ومباح جان کر اس رنگ میں رنگے دکھائی دیتے ہیں کہ ایک بے نام سی قنات عورتوں اورمرد سامعین کے درمیان حائل ہے جبکہ اسٹیج پر براجمان حضرات کو سبھی حاضر خواتین کا ”محرم ” گردان لیاگیاہے اوروہاں موجودعلماء و مشائخ کی پیشانیوں پر عرق انفعال کا قطرہ تک نمودارنہیں ہوتا(اناللہ واناالیہ راجعون)
بات ہو رہی تھی محفل نعت کے آداب اورتقدس کے حوالے سے !آج جب ان پاکیزہ جلوسوں اور محافل میںڈھول کے تاشوں اورچمٹوں باجو ںکی آلودگیاں دیکھتے ہیں توکانپ اٹھتے ہیں کہ یہ جسارتیں جناب رسول صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کی کس قدر آزردہ دلی اورمالک دو جہاں کی سخت ناراضی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ محافل کا حال بھی جلوسوں سے کسی طرح مختلف نہیں ہے چاہیے تو یہ تھا کہ تمام حاضرین باوضودسر ڈھانپے ،دوزانوںیا چارزانوں مئودب بیٹھ کر شریک محفل ہوں اور پوری توجہ اور دلجمعی کے ساتھ حضورنبی کریم صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کی با گا ہ بیکس پناہ میں پیش کئے گئے گلہائے عقیدت سے اپنے قلوب واذہان کو منورکریں اور خودبھی درودوسلام کی ڈالیاں اپنے آقا مولی صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کرتے رہیںلیکن بے تو جہی ،فضول گفتگو یا لمبی تان کر سوجانے تک کو روارکھاجاتاہے۔
ثناء خوانی رسول صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کوئی معمولی کا م نہیں ہے یہ سنت اللہ اورسنت صحابہ وسلف صالحین ہے ،مقصد محض اللہ اوراس کے محبوب کریم صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کی رضاجوئی ہونا چاہیے عام مشاہدہ یہی ہے کہ یہ کار خیراب کاروباربنتاجارہاہے ثناخواں حضرات خودکو ”پیشہ ور”کہتے ہوتے ذرانہیں شرماتے جہازکا کرایہ اورفی محفل بھاری معادضہ کی پیشگی ادائیگی کے بغیر دعوت قبول نہیں کی جاتی اگراس قسم کا کوئی انتظام نہ بھی کیا جائے تو کم آمدنی والی محفلوں کو آئندہ برس کیلئے نشان زدہ ٹھہرایاجاتاہے کہ پھروہاں قدم نہ رکھیں گے۔
اعلحضرت امام احمدرضاخان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے وعظ کہنے اورنعت پڑھنے کے عوض مالی منفعت پہ یو ں فتوی جاری کیاہے ۔ 1)اگر وعظ کہنے اور حمد ونعت پڑھنے سے مقصود یہی ہے کہ لوگوں سے کچھ مال حاصل کریں توبیشک یہ اس آیہ کریمہ اولئک الذین اشتروا الحیوة الدنیا باالاخرة کے تحت میں داخل ہیں اور وہ آمدنی ان کے حق میں خبیث ہے خصوصاًجبکہ یہ ایسے حاجت مندنہ ہوں جن کو سوال کی اجازت ہے کہ ایک تو بے ضرورت سوال دوسرا حرام ہوگا اوروہ آمدنی خبیث تر وحرام مثل غصب ہے۔
2)دوسرے یہ کہ وعظ وحمدونعت سے ان کا مقصوداللہ ہے اورمسلمان بطور خود ان کی خدمت کریں تو یہ جائز ہے اور وہ مال حلال ،3)تیسرے یہ کہ وعظ سے مقصود تو اللہ ہی ہومگرہے حاجت مند اور عادةًمعلوم ہے کہ لوگ خدمت کریں گے اس خدمت کی طمع بھی ساتھ لگی ہوئی ہے تو اگرچہ یہ صورت دوم کے مثل محمود نہیں مگر صورت اولیٰ کی طرح مذموم بھی نہیں جیسے درمختارمیں فرمایاالوعظ لجمع المال من ضلالة الیھودوالنصاری”مال جمع کرنے کیلئے وعظ کہنا یہودونصاری کی گمراہیوں سے ہے”یہ تیسری صورت بین بین ہے (العطایہ النبویہ فی الفتاوی الرضویہ جلد نمبر.
١٠مطبوعہ ادارہ تصنیفات امام احمد رضاخان بریلوی بار اول فروری 1988ص415)
محافل نعت میںایک بڑی بدعت یہ درآئی ہے کہ ثنا ْخواں حضرات بلکہ بعض اوقات واعظین حضرات پر بھی نوٹ نچھاور کیے جاتے ہیںجیسے اوباش تماش بین طوائفوں کے مجروں میںکیا کرتے ہیں اعلحضرت امام احمد رضاخا ن سمیت تمام بزرگوںنے تو نوٹ اُچھالنے کو اس لئے براجانا ہے کہ لکھے ہوئے ناموں کی بے حرمتی ہوتی ہے لیکن اس قبیح مماثلت کی بدولت بھی اسے تر ک کرکے سلجھے ہوئے طریقہ سے باادب نذرانہ پیش کیاجاناچاہیے جولوگ ایک سے دوسرے ،دوسرے سے تیسرے صاحب تک بدست جاتے اور ایک حلقہ سا بنا کر ثنا خواں تک پہنچتے ہیں وہ مئودب اور متوجہ سامعین کے ذوق میں رخنہ انداری کے مرتکب ہوتے ہیں ا س لئے اجتناب ضروری ہے۔
معروف نعت خواں حضرات اور بعض اوقات نقباء محفل کی پذیرائی کیلئے انہی کی قائم کی گئی ”انجمن ہائے ستائش باہمی ”کے لوگ تاج پوشی کی رسوم اداکرتے ہیں امام الانبیاء سے لے کر امام احمد رضاخان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ تک ہمیں تو کوئی ایک مثا ل ایسی نظرنہیں آتی کہ کسی کی تاج پوشی کی گئی ہو، اسلامی تاریخ میں بھی صرف مطلق العنان حکمرانوں نے ہی بیت المال کو ”بیتِ مال” سمجھتے ہوئے خود پر حلال قرار دے کر اس طرح کی غیر شرعی رسوم کاارتکا ب کیا ورنہ خلافت راشدہ تو خا لصتادرویشی سے عبارت ہے علم وفضل کے حامل علمائے دین یا سلاسل طریقت کے خلفاء کو دستار فضیلت یا دستار خلافت سے تو نوازاجاتاہے لیکن تاج پوشی کی روایت ایجاد بندہ سے زیادہ کچھ نہیں حالانکہ سوناپہننامرد کیلئے اس ہستی نے حرام قرار دیا ہے.
جن کے نام پر ”محفل میلادالنبی صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم سجاتے ہیں مگر ہمارے ہاں نعت خواں حضرات بڑے جوش اور دھوم دھڑلے سے”انجمن ہائے ستائش باہمی”کے پلیٹ فارم سے ایک دوسرے کی تاج پوشی کرتے ہوئے نظرآتے ہیںحضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی پس اس کو نکال کر پھینک دیا او رفرمایا 🙁 کیا تم میں سے کوئی چاہتاہے کہ آگ کی انگاری کو اپنے ہاتھ میں ڈالے پس رسول اکرم صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص سے کہاگیاکہ اپنی انگوٹھی اٹھالے اور ( بیچ کر ) اس سے فائدہ اٹھا لے اس نے جواب دیا اللہ کی قسم میں اس کو کبھی نہ لوںگا حالانکہ رسول اللہ صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم نے اس کو پھینک دیا ہے۔
محافل نعت میں اجتماعات کو عظیم تر بنانے کیلئے حاضرین میں عمرے کے ٹکٹوں کی تقسیم یا شادی کے لئے بچیو ں کو جہیز کے نا م پر انعامی رقوم دینے کیلئے قرعہ اندازی کی جاتی ہے لوگ شناختی کارڈ کی کاپیاں جمع کروانے اور صبح کی اذانوں تک قرعہ اندازی کے انتظار میں شریک محفل رہتے ہیں محافل نعت کا تسلسل صبح کی اذانوں تک جاری رہتاہے اور اکثریہ دیکھاگیاہے کہ سامعین ،واعظین ،ثناخواں سمیت صبح کی نماز کی سعادت سے محروم رہتے ہیں حالانکہ نعت سنناسنت اور مستحب عمل ہے مگر ہم فرائض کے تارک ہورہے ہیں.
یہ ہماری بدنصیبی ہے اس کے سوا میں کیا کہہ سکتاہوں دعا ہی کی جاسکتی ہے اللہ تعالی ہمیں فرائض کی ادائیگی اور سنت پر عمل کی توفیق فرمائے ۔بلکہ محقق العصر مفتی محمدخان قادری کے بقول ” بابافرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی دھرتی سے تعلق رکھنے والے معروف ثناء خواں کو جب دیار غیر میں منعقدہ ایک محفل نعت کے بعدصبح سویرے نمازکے لیے جگانے کی کوشش کی گئی تو باربار جگانے پر اس نے یہ دلخراش جملہ بولا” یا تو ہم سے نعتیں پڑھوالیاکریں.
یا پھر نمازیں دودو کام ہم سے نہیں ہوتے ”یہ توصرف ایک جھلکی ہے سینکڑوں ثناء خواں ایسے ہیں جن کو میں ذاتی طور پر جانتاہوں محفل نعت میں جانے سے پہلے تازہ کلین شیوکرواکر سر پر سندھی ٹوپی ویسکوٹ اور کلف لگا سوٹ پہن کر ثناء خوانی کیلئے محفل میں پہنچ جاتے ہیں اور وہ نماز کے تو قریب سے بھی نہیں گزرتے شادی کیلئے بچیوں کو جہیزکے نا م پر انعامی روقوم دینے کیلئے صاحبان ثروت کو تو مستحقین کی خدمت یو ں کرنے کا حکم ہے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہ ہو باقاعدہ اشتہاری مہم چلاکر نیکی کرنا کس طرح اجر وثواب کا پیش خیمہ بن سکتاہے.
یہ سوال خود اپنے اندر شافی جواب رکھتاہے حالانکہ شیخ ابوبکرکلابازی رحمتہ اللہ علیہ نے ”التعرف ” میں اخلاص عمل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھاہے ‘خالص عمل وہ ہے جس کافر شتے تک کو علم نہ ہوکہ لکھ سکے ،شیطان کو بھی خبرنہ ہوکہ خراب کرسکے اورنہ ہی نفس کو پتہ چلے کہ اس پر فخر کرسکے ”ان محافل نعت میں نقیب محفل حضرات بالعموم ایک طرح کے رٹو طوطے ہوتے ہیں جنہوں نے چند جملے اورمخصوص اشعار ازبر کئے ہوتے ہیں شیعہ ذاکروں کی طرح یہ عوامی جذبات سے کھیلتے اورمال بٹورتے ہیں بعض ”بڑے لوگوں ”کی بے جاخوشامدبھی ان کی آمدنیوں میں چار چاند لگانے کا سبب بنتی ہے.
یہ ثناء خوانوں کے عملی رقیب ہوتے ہیں جو انہیں تو وقت کی کمی سے ڈراتے رہتے ہیں لیکن خوددادطلبی اورزرجلبی کی غرض سے سب سے زیادہ وقت ہڑپ کر جاتے ہیں اور بعض اوقات بلکہ اکثردیکھاگیاہے کہ حضور نبی کریم صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کی تعریف وتوصیف کرنیکی بجائے میزبان محفل کی شان میں قصیدہ گوئی کرتے کرتے ان کی سانسیں بھی پھول جاتی ہیں انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے کہ آج کل ” محافل نعت ” کے انعقاد میں وہ لوگ پیش پیش ہیں (الاماشاء اللہ ) جن کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ حرام ذائع پرمشتمل ہوتاہے جتنابڑاحرام خور،سود خور،حق خور ،نماز خور، چندہ خور،مال یتیم خور ہوتاہے ہمارے نقباء محفل اس کے سینے پر اتنا ہی بڑا عاشق رسولصلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کا تمغہ سجانے کی ناکام کوشش کر رہے ہوتے ہیں.
حالانکہ ہمارے لئے یہ سعادت ہی کافی ہے کہ ہمارا شمار امت محمدیہ میں ہے ہمارا ہمسایہ بھوک اور مفلسی کی وجہ سے سسک سسک کر جان دے رہا ہوتا ہے غریب اور یتیم بچہ ہمارے محلہ میں مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے حصول تعلیم سے محروم ہوتاہے مگراسی محلہ کی اس گلی میں لاکھوں روپے خرچ کرکے محفل نعت کا انعقاد کیا جارہا ہوتاہے اسی ہی محلہ میں ایک غریب اور مستحق بچی جہیزنہ ہونے کی وجہ سے بابل کی دہلیزپر دلہن بننے کی حسرتیں دل میںلیے بوڑھی ہورہی ہوتی ہے مگر ہم ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کے بل بوتے پر جہازی سائز کے رنگارنگ پوسڑز، اخباری اشہارات دعوتی کارڈوں ،معرف ثناء خوانوں کی ماڈلنگ کے روپ میں رنگین تصویریں اور انکی معقول خدمت اور عمرے کی ٹکٹوں پر زرکثیر خرچ کرکے رسول اللہ صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کے غلامو ں کو جمع کرکے عاشق رسول کہلوانے کے شوق میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔
حالانکہ ان محافل نعت کے انعقاد کا ایک مثبت ترین پہلو یہ بھی ہوناچاہیے کہ ان اجتماعات کو امر باالمعروف ونہی عن المنکرکا پیغام عام کا ذریعہ بنایاجائے قرآن وسنت پر مبنی مواعظ حسنہ لوگوں تک پہنچائے جائیں اولیاء وصلحائے امت بالخصوص اعلحضرت امام احمد رضابریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کی روشنی میں عوام الناس میںمحبت رسول صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کی شمع کوفروزاں ترکیاجائے تاکہ ہم اپنی زندگیوں کو ان پاکیزہ اور قدسی نفاس ہستیوںکے نقوش پاکی راہنمائی میں سنوارسکیںجو ہماری نجات کا باعث ہوں بازاری اورسوقیانہ انداز سے قصے ،کہانیاں بیان کرنے والے واعظین اوردرباری علماء سے جان چھڑاکر مستندباعمل علماء سے استفادہ کیاجائے تاکہ محفل نعت کے انعقادکی اصل روح تک ہماری رسائی ہوسکے اور ہماری مردہ روحوں کو ذکررسول صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم اوراصلاح احوال پرمبنی دروس سے جلامل سکے نعت خوانی بلاشبہ نہایت ہی احسن عمل ہے اور اس کے بغیرزندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتانعت خوانی ہی سے کائنات کا حسن ہے اور یہ جو ہر طرف بہاروں کا نکھار ہے نعت خوانی کا ہی صدقہ ہے۔
چاہتے ہوتم اگر نکھرا ہوا فردا کا رنگ
سارے عالم پر چھڑک دو گنبد خضراکا رنگ
استاذی المکرم حافظ شفیق الرحمن نے بڑی خوبصورت بات کی ہے کہ آپ صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ از ابتداء تا انتہا اعجاز ہے ، اعجازہی اعجاز! آپ صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کا ظہور ، ظہور قدسی ہے کون ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ اسکی صورت و سیرت یا ذات و صفات کے بیان کی قدرت رکھتا ہے جہاں حسان اور بو صیری ایسے شاعروں کے طائر تخیل کی اڑانیں سہم سہم جائیں جہاں سحبان اور عطاء اللہ شاہ بخاری، ایسے معجز بیان خطیبوں کی زبانیں گنگ ہو جائیں اور الجاحظ، سعدی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ ایسے ادیبوں کے قلم اعترافِ بے مائیگی کرتے نظر آئیں وہاں ہماشما کس قطار شمار میں ہیں.
حضور ختمی مرتبت، آیۂ رحمت کی ولادت باسعادت جن بہار پرور گلاب آفریں، آفتاب خیز، ماہتاب ریز، ستارہ بیز،فجر انگیز، نورانی ، پاکیزہ، اجلی، دودھیا، محترم ، محتشم ، مکرم،مجلّی، مزکی، مصفا، منزہ، معطر، منور، معنبر، مطہراور مقدس ساعتوں میں ہوئی وہ ساعتیں سرمایہ کائنات اور حاصل موجودات ہیں، عقیدے، عرفان، ایقان اور محسوسات سے سرشار خوش بخت اور خوش عقیدہ صاحبِ ایمان کااس امر پر حق الیقین ہے کہ اگر خالق کائنات نے آپ کواس کائنات کی برات کا دولہا نہ بنانا ہوتا تو یہ کائنات، جلال و جمال کی تمام تر دلآویز یوں، دلربائیوں ،دلبریوں، رعنائیوں اور زیبائیوں سے یکسر محروم رہتیں۔
آپ ہی کی نعلین پاکی گردِپاک کے صدقے رب کائنات نے آشباروں کو ترنم، لالہ زاروں کو تبسم، پہاڑوں کو جلال، ستاروں کو جمال، پھولو ں کو رعنائی، بگولوں کو برنائی، شفق کو لالی، کھیتوں کو ہریالی، دھوپ کو وقار، چاندنی کو نکھار، قوس قزح کو رنگینی، چٹانوں کو سنگینی، سبزے کو لہک، شگوفے کو مہک، موجوں کو بے تابی، جھونکوں کو شادابی، ریشم کو سرسراہٹ، شبنم کو نرماہٹ، کلیوں کو مسکراہٹ، کرنوں کو جگمگا ہٹ، بیابانوں کو بے کرانی، آسمانوں کو تابانی، آندھیوں کو جولانی، سمندرں کو طغیانی، وادیوں کو خندیدگی، چوٹیوں کو سنجیدگی، بادلوں کو للکار، بوندوں کو جھنکار، تجلیوں کو بے باکی، شمشیروں کو براقی، قلم کو خرام، لو ح کو دوام، کندن کو ڈلک، موتی کو جھلک، بلبلوں کو زمزمے، زلزلوں کو ہمہمے، جبینوں کو نیاز، سینوں کو گداز، لہروں کو ساز، شعلوں کو پرواز، حسن کو سادگی اورعشق کو تازگی عطا کی۔
داستانِ حُسن جب پھیلی تو لا محدود تھی
اور جب سمٹی تو تیرا نام ہو کر رہ گئی
تحریر ، نعمان قادر مصطفائی ، مدیر ما ہنامہ ،،تسخیر
03314403420