پاکستان کی مثال اس کمرے کی مانند ہے جس کے دروازے سے لوگ اس طرح آرہے ہیں جیسے کسی شادی کی تقریب میں آتے ہیں لیکن اس کمرے کے لوگوں کیلئے ایک چھوٹی سی کھڑکی سے وسائل آرہے ہیں جسے بھی یہ لوگ تختے ٹھونک کر بند کررہے ہیں اب جب ان لوگوں کو کھانے کو کچھ نہیں ملے گا تو پھر یہ ایک دوسرے کا گوشت کھائیں گے، پینے کو پانی نہیں ملے گا تو یہ ایک دوسرے کا خون پئیں گے لیکن اس صورتحال سے نمٹا کیسے جائے اس کا حل کوئی بھی بتانے کو تیار نہیں ملک کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے لیکن یہاں کے سیاستدان عوام کو سبز باغ دکھا کر انہیںٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑارہے ہیں۔
اس ملک میں ایک دوسرے پر الزام لگانا فیشن بن گیا ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدت لائی جارہی ہے تاکہ الزام تراشی میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرلی جائے جبکہ حقائق کے برعکس عوام کو بتایا جاتا ہے اور یہ بیچاری عوام ان کی باتوں میں آکر جئے فلاں جئے فلاں کے نعرے لگانا شروع کردیتی ہے حد تو یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں فوج اور ان کی ایجنسیوں پر انگلی تک نہیں اٹھائی جاتی ہے سی آئی اے ، موساد ، را اور ایم آئی 6 کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جہاں ان اداروں کے خلاف ایک سنگل کالم خبر تک نہیں لگتی ہے ۔ لیکن اس ملک میں ان نگہبان اداروں پر بھی طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کی جارہی ہے۔
اور یہ سب کچھ یہاں کے آزاد میڈیا میں کسی وقت بھی دیکھا جاسکتا ہے۔یہ لوگ اپنی نا اہلی چھپانے کیلئے الزامات میں بہت آگے نکل جاتے ہیںلیکن کسی نے بھی آج تک عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا تک گوارہ نہ کیا ۔ پاکستان میںدوطبقوں کا نعرہ 98%فیصد طبقے کے لوگوں نے لگایا جب اس طبقے کو حکومت میں جگہ ملی تو انہوں نے بھی وہی کیا جو ہوتا آرہا ہے آج بھی اس ملک میں دو فیصد مراعات یافتہ طبقہ غالب ہے جس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک صرف ان علاقوں میں ترقیاتی کام کئے گئے یا کئے جارہے ہیں۔
جہاں اس دو فیصد طبقے کے یا تو محلات، دفاتر ہیں یا پھر ان علاقوں میں ان کی آمد و رفت رہتی ہے۔جبکہ دیہی علاقوں کا حال سب کے سامنے ہے جہاں نہ پینے کو صاف پانی ہے نہ ہی بجلی اور گیس کی سہولت موجود ہے، سڑکیں ناپید ہیں ان علاقوں کے بچے تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیںاگر کوئی بیماری ان علاقوں میں پھیل جائے تو وہ خسرہ کی طرح وباء کی صورت اختیار کرلیتی ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں لوگ ،بچے، بچیاں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
اب آئیے فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی جانب یہ وہ ادارے ہیں جو اس ملک کی نگہبانی کررہے ہیں جنہیں بیک وقت دو محاذوں( بیرونی اور اندرونی ) کا سامنا ہے لیکن انہیں اس قدر محدود وسائل مہیا کیے جاتے ہیں جس طرح آٹے کے ایک تھال میں نمک ڈالا جاتا ہے اور یہ قلیل رقم بھی قسطوں میں دی جاتی ہے جس میں سے بھی اکثر کٹوتی ہوتی رہتی ہے جب کے ان اداروں سے ڈھائی من آٹے کی بوری جیسی توقعات کی جاتی ہے ۔ سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ان کیمرہ بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئی ایس آئی ہر دس دہشتگرد حملوں میں سے آٹھ کو ناکام بنادیتی ہے اس قدر محدود وسائل میں شاندار کارکردگی کو کوئی بھی سراہنے کو تیار نہیں ہے لیکن ہونے والے دو حملوں پر منفی پروپگنڈہ اور الزام تراشیوں کی بوچھاڑ کرتے ہر کوئی نظر آتا ہے۔
I S I Pakistan
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر ملک کی خواہش ہے ان کے خفیہ اداروں کی کارکردگی بھی آئی ایس آئی جیسی ہوجائے اور اپنی اس خواہش کے حصول کیلئے یہ لوگ پورے پاکستان کے مجموعی بجٹ سے کئی گنا زیادہ رقم صرف کردیتے ہیں ایک طرف پوری دنیا ہماری آئی ایس آئی کی کارکردگی کو حسرت سے دیکھ رہی ہے اوردوسری طرف ہم ہیں کہ ہمیں اس ادارے پر کیچڑ اچھالنے سے فرصت نہیں ملتی۔ دوسری تنقید اس ملک کی پولیس کارکردگی پر ہوتی ہے شاید حقائق کا اندازہ کسی کو بھی نہیں ہے۔
اس ادارے کو محدود وسائل مہیا کرکے اس کی خدمات اعلیٰ شخصیات اور ان کی محلات کی نگہبانی تک ہی محدود کردی ہے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے ہر پولیس اسٹیشن کی آدھی سے زیادہ نفری وی وی آئی پیز شخصیات کی حفاظت پر معمور ہوتی ہے جبکہ آدھی نفری میں سے زیادہ تر حساس و مقدس مقامات کی حفاظت پر معمور کی جاتی ہے گنتی کے چند پولیس اہلکاردور قدیم کی بندوقیں سنبھالے نامناسب حالات کے باعث کس طرح اپنے علاقوں کی حفاظت کریں گے جن کی گاڑیوںمیں پٹرول تک نہیں ہوتا ہے۔
جب کہ اس کی نسبت یہاں کے دہشت گرد، لٹیرے حتیٰ کہ چوروں کے پاس بھی دورِ جدید کے ہتھیار ملیں گے کسی حکومت کو بھی پولیس کی نفری بڑھانے یا انہیں جدید آلات سے آراستہ کرنے کا خیال تک نہیں آتاہے اس جانب ان کی بھر پور توجہ بیانات ہی کی حد تک دیکھی جاسکتی ہے یہی وجہ ہے یہ پولیس اہلکار جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور علاقائی بدمعاشوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیںجنہیں خود اپنی جانوں کے لالے پڑے رہتے ہیں بھلا وہ کیوں کر کسی اور کی حفاظت کرسکے گا۔
ہمارے موجودہ نظام اور پولیس کی حالت سے واقف لوگ جرائم پیشہ افراد کے خلاف سب کچھ جاننے کے باوجود گواہی دینے کو بھی تیار نہیںجس کے باعث مجرم باآسانی عدالتوں سے باعزت بری ہوجاتے ہیں اب رہے ہمارے رہنما تو وہ خود خوف زدہ ماحول میں بھاری بھرکم حصار میں جب یہ کہتے ہیں کہ وہ اس ملک میں اگر اقتدار میں آئے تو وہ امن و امان قائم کردیں گے تو مجھے ان کے بیانات پر بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے بھلا جو شخص خود غیر محفوظ ہو وہ کس طرح عوام کی حفاظت کرسکتا ہے اس ملک میں دہشت کا ماحول اتنا خطر ناک ہوچکا ہے کہ ہر رہنما کو درجنوں محافظ رکھنا پڑتے ہیں جب کہ ترقی یافتہ ممالک کے وزیر اعظم کی حفاظت پر صرف دو یا زیادہ سے زیادہ چار اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔
جن پر بھی ان کی اسمبلیوں میں تنقید کی جاتی ہے ۔صوبہ سندھ میں امن و امان کی حفاظت پر معمور دوسرا طاقت ور ادارہ رینجرز ہے جس کے اختیارات میں ہر دو ماہ بعد توسیع کی جاتی ہے جس کے ختم ہوتے ہی یہ ادارہ حکومت کے اگلے فرمان کا منتظر ہوتا ہے یہ اختیارات بھی اس قدر محدود دیئے جاتے ہیں کہ رینجرز صرف مجرموں کو گرفتار کرسکتی ہے لیکن ان مجرموں سے نہ تو تفتیش کرسکتی ہے اور نہ ہی ان مجرموں کے خلاف مقدمہ درج کروا سکتی ہے یعنی ان کا کاصرف مجرموں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنا ہی ہوتا ہے وہ پولیس جو خود مجرموں سے خوف زدہ رہتی ہے تو پھر وہ کس طرح ان مجرموں کے خلاف ٹھوس مقدما درج کرے گی رہے گواہان تو کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف کوئی آگے آسکے۔
اب ہم جب اس ملک میں کرپشن کو دیکھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ اتنا پھیل چکا ہے کہ اب یہ ناسور کی صورت اختیار کرگیا ہے جس کا علاج اس نظام میں تو ممکن ہی نہیں اس کرپشن میں اعلیٰ منصب سے لے کر کرپشن کی تحقیقات کرنے والے اداروں کے اہلکار تک ملوث ہیں اگر یہ ادارے کرپٹ افرادکو پکڑ لیں تو اس کا مقصد صرف اور صرف زیرِ حراست افراد سے پیسے بٹورناہوتا ہے کرپٹ لوگ رشوت دے کر ایسے ہوجاتے ہیں جیسے گنگا کے پانی سے نہانے والا تو ایک ہم پرست ہوجاتا ہے۔
ہمارے ملک میں عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر دو قسم کے ترقیاتی منصوبے بنائے جاتے ہیں ایک زمین پر اور دوسرا فائلوں میں زمین پر تعمیر ہونے والے منصوبے سے پچاس فیصد تک رقم رشوت کی نظر کرنا پڑتی ہے جس کے نتیجہ میں ان زمینی منصوبوں میں ناقص مٹیریل کا استعمال ہوتا ہے ناقص مٹیریل کے سبب ان منصوبوں کی مرمت کے نام پر ہر سال اربوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں جس میں سے بھی رشوت لی جاتی ہے اکثر تو کاغذات میں مرمت دکھانے پر اکتفا کرتے ہیںجبکہ فائلوں میں بننے والے منصوبوں کی رقم سو فیصد بندر بانٹ کی نظر ہوجاتی ہے آخر اس ملک میں مسائل کا حل کیا ہے ؟ عوام تو اس حد تک مایوس ہوچکے ہیں۔
کہ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے جب منو بھیل نامی شخص کے مقدمے میں بااثر افراد کو ہر صورت گرفتار کرنے کا حکم دیا تو اس عوام نے چیف جسٹس آف پاکستان کو اپنا مسیحا قرار دے دیا اور دیوانہ وار ان کے پیچھے چل دیئے عدلیہ بحالی مارچ سب کے سامنے ہے جس دن بھی اس عوام کو خبر ملتی ہے کہ حکومت چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف اقدام کرے گی تو یہ سب اپنے مسیحا کیلئے سڑکوں پر آجاتے ہیں : کوئی تو بات ہے میرے اس رہبر میں کہ رہزن بھی آملے ہیں اس قافلے کے ساتھ اگر اس ملک میں چیف جسٹس آف پاکستان کے نقش قدم پر دو چار افراد بھی اور چل پڑے تو یقین کریں کہ ہم کم از کم وقتی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں جبکہ روشن مستقبل کیلئے عوام کو خود آگے آنا پڑے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلی جس قوم کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو ہم اس قوم کیلئے خیر کی ہی دعا کرسکتے ہیں۔
اپنا چہرہ ہی مغین ہو اگر داغوں سے تو آئینے سے وضاحت نہیں مانگی جاتی اب تو رحم دل لوگ بھی ہیں ظفرغاصب حق تو پھر حق ہے امانت نہیں مانگی جاتی