امریکہ : ( جیو ڈیسک) امریکی صدر براک اوباما نے یقین دلایا ہے کہ ایک امریکی فوجی کی مبینہ فائرنگ سے سولہ شہریوں کی ہلاکت کے بعد بھی بین الاقوامی فوج افغانستان چھوڑنے میں جلدبازی نہیں کرے گی۔ امریکی صدر براک اوباما نے مقامی سی بی ایس سٹیشن کو بتایا فائرنگ کا یہ واقعہ یقیناً دل سوز اور المناک ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس واقعہ نے کیا انہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اب فوج کی واپسی جلد ہونی چاہیے، انہوں نے جواب دیا اس واقعہ نے مجھے مزید پرعزم کردیا ہے کہ میں یہ یقینی بناؤں کہ ہم اپنی فوج کو ملک واپس لائیں۔ تاہم انہوں نے کہا ہم کیا نہیں کرنا چاہتے وہ یہ کہ ہم اس کام کو ایسے نہ کریں جس سے انخلا جلدبازی میں ہو۔ افغانستان میں شدت پسندوں نے منگل کو ایک سرکاری وفد پر حملہ کیا جو قندھار میں اس مقام کا دورہ کررہا تھا جہاں ایک امریکی فوجی نے سولہ شہریوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔
سرکاری وفد میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے دو بھائیوں سمیت اعلی سرکاری افسران شامل تھے جو قندھار کے علاقے پنجوانی کا دورہ کررہا تھا۔ اس حملے میں ایک افغانی فوجی ہلاک اور دو دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ وفد قندھار شہر کی جانب روانہ ہوگیا ہے۔ براک اوباما نے کہا کہ بین الاقوامی فوجوں کو یقینی بنانا ہوگا کہ افغانی اپنی سرحدوں کی حفاظت کرسکیں اور القاعدہ کو ملک میں واپس آنے سے روک سکیں۔ افغانی پارلیمان کے اراکین نے ایک قرارداد کے ذریعے کہا ہے کہ اب افغانیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔
سولہ شہریوں کی ہلاکت کے تناظر میں طالبان نے انتقامی حملوں کی دھمکی دی ہے تاہم قبائلی سرداروں نے ذرائع کو بتایا ہے کہ وہ اس واقعہ کے خلاف احتجاج کی کال نہیں دے رہے۔گزشتہ ماہ کابل میں فوجیوں کے ہاتھوں قرآن کے نسخے جلائے جانے کے بعد افغانستان میں پرتشدد واقعات ہوئے تھے اور اب بھی وہاں امریکہ کے خلاف جذبات برانگیختہ ہیں۔
منگل کی صبح کوئی چھ سو کے قریب طالبِ علموں نے جلال آباد کے مشرقی علاقے میں ایک احتجاجی ریلی نکالی اور اس دوران انہوں نے قندھار کے افسوسناک واقعہ کی مذمت کی۔ اس دوران امریکہ کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی۔اس سے قبل امریکی صدر براک اوباما نے یقین دلایا تھا کہ ایک امریکی فوجی کی مبینہ فائرنگ سے سولہ شہریوں کی ہلاکت کے بعد بھی بین الاقوامی فوج افغانستان چھوڑنے میں جلد بازی نہیں کرے گی۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی فوج کا افغانستان سے انخلا ذمہ دارانہ انداز میں ہوگا۔ صوب قندھار میں ہلاکتوں کے واقعہ سے افغانستان اور بین الاقوامی فوج کے درمیان تعلقات میں تناؤ آ چکا ہے۔
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ مشتبہ فوجی اگر ملوث پایا گیا تو اسے سزائے موت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے واقعہ میں ملوث فوجی کا مقدمہ امریکہ کی فوجی عدالت میں چلائے جانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ جس فوجی نے اپنے آپ کو حوالے کیا ہے آیا اس نے اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے جس پر وزیرِ دفاع نے کہا مجھے لگتا ہے کہ یہ کیس ایسا ہی ہے۔
حالیہ فائرنگ کے واقعہ کی تفصیلات اب تک واضح نہیں ہیں لیکن اطلاعات یہ ہی ہیں کہ واقعہ میں مبینہ طور پر ملوث امریکی فوجی جنوبی قندھار میں واقع امریکی اڈے سے باہر آیا اور قریبی گاؤں میں جا کر فائرنگ کردی۔ مقامی افراد نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ لوگ کس قدر خوفزدہ تھے اور کس طرح وہ فوجی گھروں میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا۔ ایک عینی شاہد نے کہا میں نے دیکھا کہ اس نے ایک خاتون کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اور اس کا سر دیوار پر دے مارا اور یہ عمل دہراتا رہا اور اس خاتون نے ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ اطلاعات ہیں کہ امریکی فوجی تین مکانات کے دورازے توڑ کر داخل ہوا اور سولہ افراد کو ہلاک کیا جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ ہلاک کرنے کے بعد اس نے ان کی لاشوں کو نذرآتش کردیا۔ دوسری جانب امریکی وزیر دفاع نے واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا وہ علی الصبح نکلا اور ان گھروں میں گیا اور وہاں موجود لوگوں پر فائرنگ کی اور پھر اس کے بعد وہ فوجی اڈے واپس آیا اور دراصل اس نے اپنے آپ کو حوالے کردیا جہاں اس نے بتایا کہ اس نے کیا کیا۔
پینٹاگون کے اہلکاروں نے کہا ہے کہ جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوجاتیں اس وقت تک وہ مشتبہ فوجی کا نام ظاہر نہیں کریں گے۔ اطلاعات ہیں کہ مشتبہ فوجی تیس کے پیٹے میں ہے اور اس کے تین بچے ہیں۔ واقعہ میں مبینہ طور پر ملوث امریکی فوجی کو افغانستان میں دسمبر میں تعینات کیا گیا تھا۔ عراق میں تین بار تعیناتی کے بعد اس کی افغانستان میں پہلی بار تعیناتی تھی۔