امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان میں تعینات نیٹو فورسز کے ہاتھوں قرآن جلائے جانے کے واقعے پر معافی مانگی ہے۔افغان صدر حامد کرزئی کے نام ایک خط میں اوباما نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ غیر ارادی طور پر پیش آیا۔ دریں اثنا افغانستان کے دارالحکومت کابل میں نیٹو افواج کے ہاتھوں قرآن کے نسخے جلائے جانے کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں میں نیٹو افواج کے دو سپاہیوں سمیت مزید آٹھ افراد ہلاک ہو گئے۔
ان مظاہروں کے دوران متعدد دوسرے افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں جبکہ مسلح افراد نے دو فوجی تنصیبات پر حملے کیے۔مظاہرین نے امریکی صدر باراک اوباما مردہ باد کے نعرے لگائے، پتھرا کیا اور امریکی پرچم نذرِ آتش کیے۔دوسری جانب افغانستان میں موجود طالبان کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان شہری احتجاج ترک نہ کریں بلکہ وہ فوجی اڈوں کو نشانہ بنائیں تاکہ غیر ملکیوں کو سبق سکھایا جا سکے اور وہ آئندہ کبھی قرآن کی بے حرمتی کرنے کی جرات نہ کریں۔ دریں اثنا افغان صدر حامد کرزئی قبائلی رہنماں اور سیاستدانوں سے ملاقات کر کے اس واقعے کے بعد پیدا ہونے والی بے چینی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
افغان سکیورٹی حکام کو تشویش ہے کہ یہ احتجاجی مظاہرے مزید پھیل سکتے ہیں کیونکہ دوسرے شہروں اور قصبوں میں رہنے والے افراد پر دبا ہے کہ وہ بھی احتجاج کریں۔افغان حکام کابل کو ان مظاہروں سے محفوظ کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملک میں نمازِ جمہ کے دروان مذہبی رہنماں نے امریکہ پر شدید تنقید کی۔پولیس اور قبائلی رہنماوں نے بتایا کہ افغانستان میں نو مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہوئے جس میں متعدد افراد شریک ہوئے۔
افغانسان کے صوبے ننگر ہار میں ایک شخص نے نیٹو کے دو سپاہیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ صوبہ لغمان کے دارالحکومت میتھرلم میں تین ہزار سے زیادہ افراد نے احتجاجی مظاہرے میں امریکی صدر باراک اوباما کا پتلا جلایا۔اس سے پہلے افغان صدر حامد کرزئی نے افغان افواج سے کہا تھا کہ وہ تشدد کا راستہ اختیار نہ کریں اور شہریوں کی زندگی اور جائیدادوں کی حفاظت کریں۔افغانستان کے اراکینِ پارلیمان نے قرآن جلائے جانے کے واقعے کی مذمت کی ہے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب امریکی وزیرِ دفاع لیون پینیٹا نے کہا ہے کہ انہوں نے اور نیٹو فورسز کے امریکی کمانڈر نے افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کے ہاتھوں قرآن جلائے جانے کے واقعے پر معافی مانگی ہے۔ایک بیان میں جنرل جان آر ایلن نے واقعے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔