قندھار : ( جیو ڈیسک) افغانستان کے صوب قندھار میں ایک امریکی فوجی کے ہاتھوں سولہ افغان شہریوں کی ہلاکت کے بعد ملک میں تعینات امریکی افواج کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ امریکی حکام نے افغانستان میں تعینات افواج کو متنبہ کیا ہے کہ ان کے خلاف جوابی کارروائی ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ ایک امریکی فوجی نے صوب قندھار میں ایک فوجی اڈے سے باہر نکل کر شہریوں پر فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجے میں سولہ افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں نو بچے بھی شامل تھے۔
اس سے پہلے امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے افغان ہم منصب حامد کرزئی کو فون کر کے ان ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا تھا جبکہ امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ فائرنگ کرنے والے امریکی فوجی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ امریکی سارجنٹ ہیں اور انہوں نے اتوار کو فوجی اڈے سے نکل کر الکوزئی اور نجیبان نامی گاؤں کے تین گھروں پر فائرنگ کی۔ اطلاعات ہیں کہ نجیبان کے ایک گھر سے گیارہ افراد کی لاشیں ملیں۔ امریکی فوج کے مطابق اطلاعات ہیں کہ امریکی سپاہی فائرنگ کرنے کے بعد فوجی اڈے میں واپس آ گئے۔دوسری جانب پینٹاگون کے ترجمان کیپٹن جان کربی نے بتایا کہ تفتیش کاروں نے حملے کے بعد اس جگہ کا معائنہ کیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ واقعہ کا ذمہ دار امریکی فوجی قندھار میں زیرِ حراست ہے اور امریکی فوج واقعہ میں زخمی ہونے والے کم سے کم پانچ افراد کا اعلاج کر رہی ہے۔خبر رساں ایجنسی نے امریکی حکام کی بابت بتایا کہ زیرِ حراست سپاہی کی نشاندہی نہیں کی گئی تاہم ان کا کہنا ہے کہ متعلقہ سپاہی کا تعلق امریکی ریاست واشنگٹن کی لیوس میکارڈ بیس سے ہے۔ حکام کے مطابق امریکی فوجی شادی شدہ ہے اور اس کے دو بچے بھی ہیں۔ حکام کے مطابق واقعہ کا ذمہ دار امریکی فوجی اس سے پہلے عراق میں تین بار خدمات انجام دے چکا ہے اور اسے افغانستان میں پہلی بار تعینات کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ افغانستان میں ہونے والے یہ ہلاکتیں اس وقت ہوئیں جب گزشتہ ماہ ہی کابل میں قرآن کے نسخے جلائے جانے کے بعد امریکہ کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوا تھا۔ اگرچہ امریکی حکام نے قرآن جلائے جانے کے واقعہ پر معذرت کی تھی تاہم وہ افغانستان میں ہونے والے مظاہروں کو کچلنے میں ناکام رہے تھے۔ ان مظاہروں میں چھ امریکیوں سمیت کم سے کم تیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔
کابل میں موجود نامہ نگار کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعہ نے کابل اور واشنگٹن کے پہلے سے کشیدہ تعلقات کو ابتر کر دیا ہے۔ نامہ نگار کے مطابق طالبان نے فائرنگ کے واقعہ کو اپنی پروپیگینڈا فتح قرار دیا ہے جس نے صدر حامد کرزئی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ افغانستان میں ناراض قبائل نے امریکہ کی جانب سے افغان شہریوں کے گھروں میں رات کے چھاپوں کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ نامہ نگار کے مطابق قبائلیوں نے انصاف کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور ان کا موقف ہے کہ امریکہ کی معافی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ دوسری جانب کابل میں موجود امریکی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ایک بیان میں امریکی سفارت خانے نے امریکی فوجیوں کے خلاف ممکنہ حملے کی تنبیہ جاری کی ہے۔ سفارت خانے نے اپنے سٹاف کی نقل و حرکت کو مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجے تک محدود کرنے کو کہا ہے۔ افغان سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ طالبان لوگوں کو امریکہ مخالف مظاہرے کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ دریں اثنا وائٹ ہاؤس نے اتوار کو ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ امریکی صدر براک اوباما نے افغانستان کے صوبہ قندھار میں ایک امریکی فوجی کے ہاتھوں سولہ افغان شہریوں کی ہلاکت کے واقعے کوالمناک قرار دیا ہے۔ صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی کے ہاتھوں ہلاکتوں کا واقعہ امریکی فوج یا امریکہ کی افغانیوں کے لیے عزت کی نمائندگی نہیں کرتا۔ دوسری جانب افغان صدر نے عام شہریوں کی ہلاکت کو ناقابلِ معافی قرار دے کر واشنگٹن سے اس واقعہ کی وضاحت طلب کی ہے۔