امریکہ اور اس کے اتحادی تین برس کے بعد، افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کے لیے پر تول رہے ہیں، اور افغانستان میں ایک بار پھر خانہ جنگی شروع ہونے کے امکان کا خدشہ پیدا ہور ہا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ طالبان نے شہری علاقوں میں اپنے حملے تیز کر دیے ہیں اور ممتاز شخصیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے حالیہ قتل سے اسی پریشان کن رجحان کی عکاسی ہوتی ہے۔یو ایس آرمی وار کالج کے پروفیسرلیری گڈسن کہتے ہیں کہ موجودہ جنگ کا نتیجہ کیا نکلے گا، اس بارے میں کوئی واضح تصویر سامنے نہ آنے کی وجہ سے اس خونریزی کا امکان بڑھ گیا ہے جس نے 1990 کی دہائی میں ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔مجھے ڈر ہے کہ ایک بار پھر خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے ۔ میں افغانوں کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ ہم جنگ سے تنگ آ چکے ہیں۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ ہم نے اب تک افغانستان میں فیصلہ کن جنگ نہیں دیکھی ہے۔ مثلا ہم نے طالبان کی مکمل شکست نہیں دیکھی ہے اور نہ ہی موجودہ حکومت کو پوری طرح شکست ہوئی ہے۔حال ہی میں امریکی کانگریس کے سامنے بیان دیتے ہوئے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سابق چیئر مین، ایڈمرل مائک ملن نے بھی سول وار کے امکان کے بارے میں انتباہ کیا، اگر صدر حامد کرزئی اپنی حکومت میں بے تحاشا کرپشن پر قابو نہیں پاتے۔ انھوں نے کہااگر ہم اپنی فوجیں تیزی سے نکالتے رہتے ہیں اور ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن پر قابو نہیں پایا جاتا، تو خطرہ یہ ہے کہ ہم افغانستان کو ایسی حکومت کے ہاتھوں میں چھوڑدیں گے جس پر افغانوں کو کوئی اعتماد نہیں ہو گا۔امریکہ کی حکمت عملی یہ ہے کہ طالبان کو اس حد تک کمزور کر دیا جائے کہ وہ مذاکرات کرنے پر مجبور ہو جائیں اور اس کے ساتھ ہی افغان فوج اور پولیس کو تربیت دی جائے تا کہ مرکزی حکومت خود سیکورٹی فراہم کر سکے۔اس حکمت عملی کا ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ حکومت اور کم از کم طالبان کے کچھ عناصر کے درمیان مصالحت کے مذاکرات شروع کیے جائیں ۔ لیکن حملوں کی حالیہ لہر سے بہت سے لوگوں کو یقین ہو گیا ہے کہ طالبان کو مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں۔افغانستان کے لیے یورپی یونین کے سابق خصوصی نمائندے فرانسس وینڈرول کہتے ہیں کہ مصالحت کا عمل ختم تو نہیں ہوا لیکن وہ نزع کے عالم میں ضرور ہے۔ ربانی کے قتل نے نسلی اور علاقائی اختلافات کو اور گہرا کر دیا ہے اور مصالحت کا عمل انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ اگر حالات جیسے آج کل ہیں، تین سال کے عرصے میں بھی ویسے ہی رہتے ہیں تو خانہ جنگی کے امکانات بہت زیادہ ہیں کیوں کہ ربانی کے قتل سے شمال کے لوگوں کا یہ یقین پختہ ہو گیا ہے کہ طالبان ان کے خلاف ہیں، اور ان کے ساتھ مصالحت نہیں ہو سکتی۔وینڈرل کہتیہیں کہ طالبان اس انتظار میں ہیں کہ امریکہ اور نیٹو ،افغانستان سیچلے جائیں تا کہ وہ اپنی کارروائی شروع کریں۔ امریکی عہدے دار یہی کہہ رہیہیں کہ حالات ان کے حق میں جا رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کے سامنے بیان دیتے ہوئے وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے کہا کہ حالیہ حملے، جن میں کابل میں امریکی سفارت خانے پر حملہ بھی شامل ہے، زیادہ اہم نہیں ہیں۔مجموعی طور پر ، باغیوں نے اپنے حربوں میں جو تبدیلی کی ہے وہ ان کی کمزوری کی علامت ہے۔ افغآنستان میں مجموعی تشدد میں کمی آئی ہے، خاص طور سے ان علاقوں میں جہاں ہم نے اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ادھر پاکستان علاقے میں ایسا متنازعہ کردار ادا کر رہا ہے جس سے افغانستان کا مستقبل کا لائحہ عمل کسی نہ کسی طرح متاثر ہو سکتا ہے ۔ امریکہ نے پاکستان کی انٹیلی جنس سروس پر الزام لگایا ہے کہ وہ طالبان یا طالبان سے وابستہ گروپوں کی حمایت کر رہی ہے جنھوں نے حالیہ حملے کیے ہیں۔ صدر حامد کرزئی نے کہا کہ وہ طالبان سے بات چیت نہیں کریں گے، بلکہ پاکستان سے بات کریں گے جسے انھوں نے دوسرا فریق قرار دیا۔ اس کے بعد، افغان لیڈر ، پاکستان کے قدیمی حریف ، بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کے سمجھوتے پر دستخط کرنے کے لیے نئی دہلی پہنچ گئے ۔فرانسس وینڈرل کو تشویش ہے کہ صدر کرزئی کے ان اقدامات سے ایسا نہیں ہوگا کہ پاکستان افغانستان کے معاملات سے لا تعلق ہو جائے، بلکہ وہ وہاں زیادہ مہم جوئی کی راہ اختیار کرے گا۔میرے خِیال میں اس دورے سے پاکستان کے اس خوف کو تقویت ملے گی کہ بھارت اور افغانستان اس کے خلاف محاذ بنا رہے ہیں۔ اور اگر یہ صحیح ہے کہ افغانستان اپنی فوج اور پولیس کے لیے بھارتی ٹرینر قبول کر رہا ہے، تو یہ اچھا نہیں ہو گا کیوں کہ یہ پاکستان کو دیوار سے لگانے کے مترادف ہو گا۔وینڈرل کی تجویز یہ ہے کہ ایک چیز جس سے پاکستان کو افغانستان کے بارے میں اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کی ترغیب ہو سکتی ہے یہ ہے کہ امریکہ بھارت پر دباو ڈالے کہ وہ آنے والے مذاکرات میں بھارت اور پاکستان کے دو طرفہ مسائل ، خاص طور سے کشمیر کے متنازع علاقے کے بارے میں زیادہ مثبت رویہ اختیار کرے۔ لیکن کشمیر کا مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان شدید اختلافات موجود ہیں ۔