اقبال بانو غزل کی لاجواب گائیکہ سمجھی جاتی تھیں۔ غزل کے ساتھ ساتھ انھیں نیم کلاسیکی میں بھی ایک انفرادی مقام حاصل تھا۔
اقبال بانو 1935 میں دہلی میں پیدا ہوئیں۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور آئیں اور بعد میں ملتان آکر مستقل سکونت اختیار کی۔ انھوں نے سب اردو اساتذہ کو گایا، لیکن فیض اور غالب ان کے پسندیدہ شاعر رہے ۔
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے جوشِ قدح سے بزم چراغان کیے ہوئے
والدہ کے انتقال کے بعد، ایک عرصے سے اقبال بانو نے موسیقی کی محافل، ریڈیو، ٹیلی ویژن پر گانا چھوڑ دیا تھا اور صرف گھر کے حوالے ہو گئی تھیں۔ والدہ کے مقام کے بارے میں یہ وہ مقام ہے جو سمجھنے والوں کے لیے ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ میں ماں کی دعائیں ایک ٹانک کا کام کرتی ہیں۔
اقبال بانو کی دشت تنہائی میں اور ہم دیکھیں گے غزلوں کا ذکر کیا، جو شائقین میں آخر تک بہت ہی مقبول تھیں۔ اقبال بانو جب چھ سات برس کی تھیں دہلی میں ان کے خاندان کے ہندو ہمسائے کی دو لڑکیاں گانا سیکھا کرتی تھیں۔ والد صاحب سے اجازت لیے بغیر ہم عمر سہیلیوں کے استاد سے گانا سیکھا۔ ہندو استاد کا نام چاند صاحب تھا۔ شروع میں والدہ سے اجازت نہ ملنے کا قصہ بھی بیان کیا، اور اجازت کے حصول کے لیے بڑے جتن کیے۔
پاکستان آنے کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور سے موسیقی کے پروگرام کیے، پھر ملتان چلی گئیں۔ وہیں ان کے والد کا انتقال ہوا۔
ریڈیو پروگرام کے ساتھ ساتھ انھوں نے پڑھائی جاری رکھی اور ادیب عالم تک پڑھا۔ اِسی لیے گیتوں غزلوں کا انتخاب شستہ اور شائستہ انداز میں خود کیا کرتی تھیں۔ ان کے کہنے کے مطابق، میں ہمیشہ انتخاب اور تلفظ کا خیال رکھتی تھی۔
جب فلم والوں نے پلے بیک سنگر کے طور پر رابطہ کیا تو ایک بار پھر مسئلہ خاندان سے اجازت کا آیا۔ ان کے لفظ تھے: کہ ماحول خود بنانا پڑتا ہے، اور جِس طرح کا کوئی چاہے ماحول میسر آجاتا ہے۔
اقبال بانو کا پہلا فلمی گانا: پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے، تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے تھا، جو کہ لاہور کے شاہ نور اسٹوڈیو میں ریکارڈ ہوا۔ اس وقت تین ساڑھے تین منٹ کا گانا ڈائریکٹ ریکارڈ ہوا کرتا تھا۔ جب پہلے ہی ٹیک میں گانا مکمل ہوا، تو ملکہ ترنم نورجہاں مٹھائی لے کر آئیں۔ مجھے سینے سے لگا کر کہنے لگیں کہ، بچی، تم بہت نام حاصل کروگی۔ پھر جب یہ گانا فلم میں آیا تو فلم دو دو سال تک لگی رہی۔
الفت کی نئی منزل کو چلا، ڈال کے بانہیں بانہوں میں، دل توڑنے والے دیکھ کے چل، ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
قاتل فلم یہ گانا سپر ہٹ ہوا، فلم قاتل کوئی ڈیڑھ سال تک لگی رہی۔ اس کے بعد موسیقی کی محافل میں بلائی جانے لگیں۔
ستر کی دہائی میں مہدی حسن ،استاد نزاکت و سلامت کے ساتھ ایک وفد میں وہ جشنِ کابل کی تقریب میں شرکت کے لیے افغانستان گئی تھیں جہاں انھوں نے حافظ شیرازی جیسے فارسی اساتذہ کی ستر غزلیں شاہی خاندان کے سامنے، اورکئی ایک محافل میں، چالیس ہزار تک کے مجمعے میں گائیں اور داد حاصل کی۔
اقبال بانو کی آواز کو ٹھمری اور دادرہ جیسے نیم کلاسیکی آئٹمز کے لیے زیادہ موزوں سمجھا گیا۔ اقبال بانو کی 1952 میں شادی ہوئی۔ 1974 میں ان کو حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا۔ ریڈیو پاکستان کی یادگار موسیقی کی محفلوں میں گانے کے علاوہ اِس ادارے میں معروف شعرا کا کلام گایا اور اپنے انتقال سے چند برس پہلے تک باقاعدہ موسیقی کی محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں۔