دور حاضر میں پاکستان اقتصادی مشکلات کے سب سے خراب دور سے گزر رہا ہے۔ حالانکہ حالات سے نپٹنے کے لئے حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، معاشی نظام میں بہتری اور کساد بازاری سے نمٹنے کے لئے تمام پالیسیاں ہیں۔ ایک طرف وہ طبقہ ہے جو غریبی اور کم آمدنی اور بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری سے نبرد آزما ہے تو دوسری طرف وہ طبقہ، جسے پاکستان کی ترقی کا ضامن مانا جاتا ہے، اپنی چمک کھوتا جا رہا ہے۔ ان سب کے بیچ سیاسی جماعتیں اور ارباب اقتدار میڈیا رومن سمراٹ نیرو کی طرح چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ان مشکلات پر غور کرنے کے بجائے وہ بھولی بھالی عوام کو آئینی ترامیم اور سازش کی سیاست کی گھٹی پلانے میں مشغول ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اچھا آئین ملک کی ضرورت ہے لیکن اس سے غریب لوگوں کی تھالی میں کھانا نہیں پہنچے گا۔ ایک بہتر سیاسی ماحول اور حفاظتی نظام میں تبدیلی ملک کی ترقی کی اولین شرط ہے۔ملک کی سیاسی قیادت میں شامل افراداور میڈیا کو چاہئے کہ وہ ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کی سمت میں اپنی پوری طاقت خرچ کریں، تاکہ کروڑوں غریبوں اور بے روزگار لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہو سکیں۔کچھ ہی ایسے ملک ہیں،جن کو پاکستان کی طرح مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر پھر بھی ان مشکلات سے نمٹنے کے لئے بھر پور طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اپنی64سال کی تاریخ میں پاکستان نے ترقی کی رفتار کو جس سطح پر بنائے رکھا ہے، وہ دیگر ترقی پذیر ملکوں کے لئے نفرت کا سبب ہو سکتا ہے،جبکہ اس دوران اسے کئی مشکلوںکا سامنا کرنا پڑا۔ملک کی تقسیم ، جنگ، قومیت اور فوجی اقتدار کے کئی دور ، جس کے سبب ہر بار عوامی مسائل سے نمٹنے کے لئے عدلیہ میں تبدیلی آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام نے ملک کے معاشی نظام کو تمام مشکلات سے نکلنے میں اہم کردار اداکیا ہے۔ اس مضمون میں کئی ایسے مشورے دیئے جا رہے ہیں، جن پر عمل پیرا ہوکر حکومت ملک کے معاشی نظام کو موجودہ اقتصادی مصیبتوں سے نجات دلا کر اسے واپس پٹری پر لانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔سب سے پہلی بات، اقتصادی معاملوں سے وابستہ اہم وزارت جیسے مالیاتی اسکیموں کو لاگو کرنے اورمعاشیات کو سنبھالنے کے لئے ایک عالمی سطح کی ٹیم کی ضرورت ہے۔ 1960،1980 اور 2000کی دہائیوں میں پاکستان کی اچھی مالی حالت ہو ،یا گزشتہ دہائی میں کئی ایشیائی ممالک میں ہوئی تیز اقتصادی ترقی ،ان سب کے پیچھے جو سب سے محرک قوت تھی، وہ تھی اچھے ماہر اقتصادیات کی فوج۔ ان میں سے بیشتر بین الاقوامی تجربہ کار اقتصادی معاملات کے ماہرین تھے۔ان تجربہ کار لوگوں کی ٹیم میں وہ پانچوں خوبیاں تھیں، جو کامیابی کے لئے نہایت ہی ضروری ہیں جیسے صاف ستھری شبیہ،اہلیت،جرأت،ہمت اور بے باکی۔ ان دنوں میں جبکہ پاکستان میں مضبوط معاشی نظام تھا ان دنوں میں جو ٹیم پاکستان کو سنبھالتی تھی یعنی 60کی دہائی میں شعیب کی، 80کی دہائی میں جی آئی کے اور 2000کی دہائی میں شوکت عزیز وغیرہ۔ مذکورہ تمام ٹیمیں ان پانچوں شرائط پر کھری اترتی تھیں۔پڑوسی ملک کے نظریے سے دیکھیں تو گزشتہ ایک دہائی میں منموہن سنگھ کی قیادت میں ماہر اقتصادیات کی ٹیم نے اقتصادی نظا م کو بہتر بنایا ہے۔ اقتصادی معاملات سے وابستہ محکموں کا کام کاج دیکھنے والے وزراء اور ان کی ٹیم کے لئے مندرجہ ذیل باتیں بہت ضروری ہیں۔ 1۔ ان کا اخلاق اچھا ہو، جس سے وہ پالیسیوں کا استعمال خود کے فائدے کے لئے نہ کریں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکنے کے اہل ہوں۔ 2۔ تجربہ کار اورایماندار ہوں 3۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھروسہ مند ہوں۔ 4۔ غلط پالیسییوں سے انکار کرنے کی جرأت رکھتے ہوں۔ ان خوبیوں سے بھرپور ماہراقتصادیات کی ٹیموں نے کئی ممالک کے معاشی نظام کو نئی سمت دی ہے اور کوئی سبب نہیں کہ پاکستان میں بھی بہتری نہ آئے۔ دوسری ترقی کے کاموں کو غریب لوگوں کیجانب موڑنے کیلئے وزیر اعظم کو اپنا آدھا وقت اہم محکموں میں بہتری لانے کے لئے الگ رکھناہوگا۔ جیسے ایکسپورٹ ،معاشی پالیسیاں، پانی ،توانائی ،غریبی استحصال اور انتظامیہ۔ان حلقوںمیں بہتری لانے کی حالت اور سمت پر نظر رکھنے کے لئے وزارتی کمیٹیوں کی تشکیل ہونا چاہئے۔یہ ضروری ہے کہ پاکستان کی ترقی کے لئے بنائی گئی پالیسیاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پوری بحث کے بعد مقررہوں۔خود وزیر اعظم اور ان کی وزارت کو ان پالیسیوں کا علم میڈیا اور عام لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی لینی ہوگی۔ یاد رہے کہ صحت سے متعلق بہتری اور تبدیلی کو عوام تک پہنچانے کے لئے امریکی صدر براک اوباما بھی اسی حکمت عملی سے کام لے رہے ہیں۔ ہر 15دن میں ان کمیٹیوں کی میٹنگ ہو اور اس میں صوبہ کے وزیر اعلیٰ اور سینئر نوکر شاہ بھی شامل ہوں، کیونکہ صوبائی حکومتوں کے تعاون کے بغیر کسی بھی تبدیلی کو انجام تک پہنچانا ناممکن ہے۔وزیر اعظم کی ذاتی دلچسپی اور کمیٹیوں کی کارروائی سے ملک کی عوام، اور دیگر سرکاری ادارے متحرک ہوں گے۔ایکسپورٹ میں اضافہ کرنے کے لئے پاکستان کو بلا تاخیر نئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ توانائی اور خوراک کے شعبہ میں درآمد پر پاکستان کا انحصار کچھ ایسا ہے کہ اسے اکڑ غیر ملکی کرنسی کی کمی برداشت کرنی ہی پڑے گی،جب تک کہ امپورٹ ،ایکسپورٹ کے درمیان کا فاصلہ کم نہ کیا جائے۔غیر ملکی قرض اور تعاون پر پاکستان کے زیادہ تر انحصار کی سب سے بڑی وجہ قرض کی ادائیگی کرنا ہے۔گزشتہ ایک دہائی میں ہمارے پڑوسی ملک کی ایکسپورٹ کی شرح ترقی تقریباً دو گنی ہو چکی ہے اور سال 2009میں یہ جی ڈی پی کا 23فیصد تھا، لیکن پاکستان کے ایکسپورٹ کی شرح 14فیصد کی سطح پرہی رک گئی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کچھ سالوں سے پاکستان کے مقابلہبھارت میں غیر ملکی کرنسی کا سلسلہ بہتر رہا ہے اور اس کے چل رہے اکاؤنٹس میں کمی کی سطح بھی گھٹی ہے۔عالمی تجربہ بتاتاہے کہ تیز ترقی والے معاشی نظام میں ایکسپورٹ کا اہم کردار رہا ہے۔امپورٹ کے بجائے ایکسپورٹ پر مبنی ترقی کی حوصلہ افزائی کرنے سے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں۔مذکورہ کمیٹیاں ایکسپورٹ سے جڑی پالیسیوں کے تعین اور انہیں عملی جامہ پہنانے کا کام کر سکتی ہے۔1970اور 80کی دہائی میں کوریا کی طرح ان کمیٹیوں کی ماہ میں کم سے کم ایک میٹنگ ہونی چاہئے۔ترقی کی رفتار کوبلندی کی سطح پر بنائے رکھنے کے لئے مالی پالیسیوں میں تبدیلی درکار ہے،جس سے مالی نقصان اور قرض میں کمی ہو،سرکاری ٹیکس میں اضافہ ہو۔مالی معاملوں کی کمیٹی مالی بہتری پر نظر رکھ سکتی ہے۔پالیسیوں کو عمل میں لانے سے قبل قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اس پر بحث ہو، کیونکہ سرکاری ٹیکس میں اضافہ اور اخراجات میں کمی جیسے کاموں کے لئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ زراعت سے ہونے والی آمدنی کے لئے ٹیکس ادا کر کے وزیر اعظم ایک مثال پیش کر سکتے ہیں۔اگر لیڈر ان اپنے سبھی ٹیکسوں کی صحیح ادائیگی کریں تو ٹیکس ایجنسیاں عام لوگوں اور تاجروں کے خلاف قدم اٹھانے سے نہیں ہچکچائینگی۔تیزی سے بڑھتی آبادی اور پانی کے تنازعات سے بچنے کے لئے پاکستان کو اس معاملہ میں بھی سوچ سمجھ کر حکمت عملی ا پنانی ہوگی۔یہ منتازعہ معاملہ ریاستوں کو تقسیم کر سکتا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی رضامندی ہو اور پھر ایک وزارت کمیٹی اس کی مسلسل نگرانی کرے۔توانائی کے لئے بھی ایک وزارت کمیٹی کی تشکیل کی جانی چاہئے، تاکہ ترقی اور غریبی دور کرنے کی اسکیموں کے لئے توانائی وسائل کی کمی نہ ہو۔ غریبی اور بے روزگاری کے مدنظر یہ بے حد ضروری ہے کہ سماجی اور حفاظتی اسکیمیں اور صحت اور تعلیم کے میدان میں ملینیم ڈیولپمنٹ ٹارگیٹ سے جڑی اسکیموں کا صحیح عمل ہو۔1960کی دہائی تک پاکستان کے عام ادارے دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک رول ماڈل کی طرح تھے، لیکن بار بار حکومتوں میں تبدیلی کے سبب بعد کی دہائی میں انہیں کئی بار مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان کے مستقبل کے لحاظ سے معاشی نظام کو دوبارہ پٹری پر لانا اولین شرط ہے،لیکن اس کے لئے کوئی جادوئی چراغ نہیںمل سکتا۔ عرش سے فرش پر پہنچنے کے لئے پاکستان کے وزیر اعظم کو خود ہی محاذ پر آنا ہوگا۔ اہم معاملوں کی دیکھ بھال کرنی ہوگی،جس میں وزارتی کمیٹیاں ان کی مدد کر سکتی ہیں۔ تحریر : ایم اے تبسم