اقلیتوں کے ساتھ پاکستان میں جس قدر بہتر برتائو کیا جاتاہے ۔اس قدر بہتری کا ہندوستان میں کوئی مسلمان تصور ہی بھی نہیں کر سکتا ہے۔وہاں تو ہرروز پورے ہندوستان میں قریباََ دوسو مسلمان لڑ کیوں کو اغوا کر کے زبر دستی ہندو بنا لیا جاتا ہے اور پھر اُس کو لئو میرج کا نام دیدیا جاتا ہے۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ وہاں پر مسلمان تنظیمیں جن کی تعداد سو سے زائد بتائی جاتی ہے ،میں سے چند ایک اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں جبکہ اکثریت خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔وہ مسلمان اگر پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کا مطالبہ بھی کریںتو ہمارے حکمرانوں کے غبارے میں سے ہوا ہی نکل چکی ہوگی۔ابھی حال ہی میں آسام میں مسلمانوں کے ساتھ جو ہندو بربریت ہوئی وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔مگر انہوں نے پاکستان کی جانب ہجرت کا تصور بھی نہیں کیا۔اگر غلطی سے کوئی یہ بات کہہ بھی دیتا تو وہ پاکستان کا ایجنٹ نبا کر سلاخوں کے پیچھے یہ کہہ کر ڈالدیا جاتا کہ یہ آئی ایس آئی کا رکن ہے۔جبکہ ہندواستا کا میڈیا اس پروپیگنڈے کو خوب اچھالنے میں سب سے زیادہ پیش پیش ہے اوروہ لوگ جو پاکستان کا کھا رہے ہیں ۔وہ بھی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈ ے میںسب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔پاکستان نے جس قدر سہولتیں اقلیتوں کو دی ہوئی ہیں کوئی اور ملک اس قدر سہولتوں کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہے۔مگر اس کے باوجود کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان کوبد نام کر کے بعض ہندو شائد ہندوستان کی بہتر معیشت کو دیکھتے ہوے وہاں سیٹل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ہندوستان ان ہندووں کو اپنے ہاں جگہ دینا چاہتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
بعض ہندو لڑکیاں اسلام میں بہتری دیکھتے ہوے اپنی عاقبت سنوارنے کی غرض سے یا اپنی نجی زندگی اپنی مرضی کے ساتھ گذارنے کی خاطرمسلمان ہوجاتی ہے تو عاقل بالغ ہونے پر وہ ہر قانوں کے لحاظ سے ایسا کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ اگربعض ہندو لڑکیاں مسلمان ہو جاتی ہیںاور کسی مسلمان لڑکے کو پسند کر کے اُس کے ساتھ جائز رشتہازدواج میں بندھ جاتی ہیں اورشادی کر لیتی ہیں تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ مگر عجب تماشہ یہاں یہ لگا ہے کہ پوری ہندو کمیونیٹی اُس غریب مسلمان لڑکے کے پیچھے لگ جاتی ہے جس نے جائز طریقے سے کسی مسلمان ہوجانے والی لڑکی سے شادی کرلی ہوتی ہے۔ اور پھر مسلمان لڑکوں پر ہندو کمیونیٹی جھوٹے اغوا کے مقدمات بنا کر عدالتوں میں لیجاتی ہیں۔مگر جب مسلمان ہونے والی لڑکی یہ بیان دیدیتی ہے کہ نہ تو اُسے اغوا کیا گیا ہے اور نہ اُ س پر کسی قسم کا پریشر ہے۔وہ بالغ ہے وہ اپنی مرضی سے مسلما ن ہوئی ہے اور جائز طریقے سے شادی کے بندھن میں بندی ہے ۔ مگر اس کے باوجواُس کی پوری برادری عدالتوں تک پر الزام لگانے سے نہیں چوکتی ہے۔یہ سب کچھ ہندوستان میں پاکستان سے کہیں بڑھ کر ہو رہا ہے۔یہاں تو لڑکیاں اپنی مرضی سے اسلام قبل کر رہی ہیں مگر ہندوستان میں تو یہ سب کچھ بزور کروایا جاتا ہے۔وہاں تو زبردستی اغوا کی گئی لڑکیوں کو عدالتوں تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا ہے۔اگر مسلمان احجاج کریں تو ہندو غنڈے خون کی ندیاں بہا دیتے ہیں۔
صدر کے ترجمان کی یہ منطق سمجھ سے باہر ہے کہ ہندو خاندانوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت انہیں تحفظ فراہم کرنے میں نا کام ہوچکی ہے۔ جس کی تحقیقات کے لئے صدر زرداری نے ایک کمیٹی بھی قائم کردی ہے جس میں وفاقی وزیر مذہبی امور مولا بخش چانڈیو،سینیٹر ہری رام اور ایم این اے لعل چند شامل ہیں۔بتایا جارہا ہے کہ ہندوستانی ہائی کمیشن نے 250 ہندووں کو ویزے جاری کر دیئے ہیں کہ وہ ہندوستان میں جا کر پاکستان کے خلاف جی بھر کر پروپیگنڈہ کریں۔
115ہندووں کو بار ڈر پار کرانے کے بعد دوسرے دن بقیہ ہندووں کو بھی ہندوستان پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کی غرض سے بھیجدیا گیا۔کوئی دیکھے نہ دیکھے شبیر تو دیکھ گا کے مصداق ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ یہ پا کستان کی سا لمیت کے خلاف کھیلے جانے والے ڈرٹی گیم کا حصہ ہے۔پاکستان کے اداروں کو اس ضمن میں ہائی الرٹ رہنا چاہئے۔ کیونکہ را، سی آئی اے اور موساد کے ساتھ خاد کو بھی شاملِ رکھ کر اس گندے کھیل پر ہمارے اداروں کو نظر رکھنا ہوگی۔پاکستان میں امریکن مفادات کی حامل وہ تمام این جی اوز اس معاملے کو ابھی تو کم مگر آگے چل کر خوب خوب اچھالیں گی۔وہ ہندو جو پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں اور اس ملک اور اس کے آئین سے وفادار ہیں انہیں چاہئے کہ ان بد معاشوں پر نظر رکھیں جو ان کی وفادایوں کو مشکوک بنانے کی کوششوں میں ہندوستانیوںکے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔پاکستان ہے تو سب ہیں ۔پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔ہر پاکستانی کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کوئی موقعہ پاکستان کو تباہ کرنے کا ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔وہ ہندو جو ہندستان جانے کے شوق میں پاکستان کو نقصان پہچانے کی سازشوں میں مشغول ہیں کل کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کا جاسوس ہونے کی سزائیں ہندوستان میںیہ لوگ نہ بھگت رہے ہوں۔وہ موقعہ ایساہوگاکہ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا،لہٰذاان لوگو ں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں جو آج پاکستان کے خلاف سازشوں میں مشغول ہیں۔اور ہندوستان کے میڈیا کی لے میں لے ملا کر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اقلیت ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔جبکہ ساری دنیا اس بات کو مانتی ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں جس قدر محفوظ ہیں اس قدر ہندوستان جو اپنے چہرے پر سیکولر زم کا نقاب چڑھائے ہوے ہے نہیںہیں ۔
اس وقت دنیا کی تمام کفر کی قوتیں پاکستان کے خلاف بر سر پیکار ہیں ان میں ہندوستان کو پہلانمبر، امریکہ کو دوسرا نمبر اور اسرائیل کوتسیرا نمبر دیا جا سکتا ہے۔ہندوستان پاکستان کے خلاف ضد اور ہٹ دھرمی پر ہے۔ جبکہ امریکہ اور اسرائیل اس کے مسلمان ملک ہونے پر معترض ہیں۔پاکستان سے اسلام کو دیس نکالا دیدیں تو یہ سب تہمارے بھائیو ں سے زیادہ ہمدرد ہو کر سامنے آجا ئیں گے۔
ہندوستان جانے والے ہندووں کا تیسرا گروپ جو 30 افراد پر مشتمل تھا،اُس نے بھی ہندوستان سے باقاعدہ سیاسی پناہ کی درخواست کردی ہے اور انہوں نے واپس پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے۔ان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں ہماری جان ومال کی کوئی حفاظت نہیں ہے۔ہماری زندگیاں وہاں پر خطرے میں ہیں۔ایک ہندوستانی چینل پر بات کرتے ہوے ان ہندووں نے کہا کہ پاکستان میں انہیں زبردستی مذہب تبدیل کر نے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے۔ایک ہندو کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام نے ان سے بیان ھلفی لیا ہے کہ وہ واپس پاکستان آجائیں گے مگر ہم پاکستان واپس نہیں جانا چاہتے ہیں۔ ہمیںہندوستان میں سیاسی پناہ فراہم کی جائے۔ایک اور ہندو خاندان کے سر براہ نے ٹی وی پر بیان دیا ہے کہ پاکستان میں ہندووںکو اغوا کرنا، ان کا قتل کرنا اور ان کے ساتھ مار پیٹ روز کا معمول بن گیا ہے۔ان کے خاندان کے ایک فرد روی کو اغوا کے بعد پانچ کروڑ کاتاوا ن مانگا گیا تاوان نہ ملنے پر روی کو قتل کر دیا گیا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تقریباََ پانچ ہزار خاندان پا کستان سے نقلِ مکانی کے لئے تیار ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے بچوں کی پاکستان میں زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔
ہندوستان کے نائب صدر حامد انصاری نے کہا ہے کہ اقلیتوں کا تحفظ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ہندوستانی نائب صدر کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کا معاملہ ملکوں کا اندرونی معا ملہ ہے تاہم اگر مظالم کی وجہ سے لوگ نقلِ مکانی کر رہے ہیں تو اس معاملے پر بات کی جا سکتی ہے۔ مگر جناب کیا ہندستان میں مسلمانوں پر مظالم پرپاکستا ن نے کبھی اس قسم کا مطالبہ کیا!!!مگر ہندوستان کے نتائوں نے ہمیشہ پاکستان کو دبانے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے۔جو بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
نوشتہِ دیوار اقلیتوں کے ساتھ کہاں ظلم نہیں ہو رہا ہے؟