پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی آنکھ مچولی کے بعد اب شاید ہی کوئی سنجیدہ خو پاکستانی وفاقی حکومت کے اعلانات یا الطاف بھائی کے بیانات سے کوئی پر مغز تجزیہ کشید کرسکے یا پورے اطمینان قلب کے ساتھ یہ توقع باندھ سکے کہ کراچی کابانکپن پھر سے لوٹ آئے گا۔ گلہ اس لئے مناسب نہیں کہ دونوں الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں۔ دونوں کے اپنے اپنے اہداف و مقاصد ہیں اور دونوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کراچی کے حوالے سے اپنی اپنی حکمت عملی بنائیں۔ اگر ایم کیو ایم بظاہر دروازہ بند کرلینے کے بعد بھی کسی کھڑکی یا کسی روشن دان سے تاک جھانک کرتی رہتی ہے کہ کوئی اسے منانے آیا یا نہیں اور بظاہر آنکھیں موندے، گہری نیند کا تاثر دیتے ہوئے بھی اس کے کان کسی مانوس دستک پہ لگے رہتے ہیں تو کسی کو معترض نہیں ہونا چاہئے۔ اگر الطاف بھائی ایک ماہ کا راشن جمع کر لینے کی تلقین اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے اعلان اور بھارت سے مہاجرین کی واپسی کے لئے آغوش واکرنے کی اپیل کے چند گھنٹوں بعد کسی کی دلآزاری پر معذرت کرلیتے اور گورنر عشرت العباد کو پھر سے طواف کوئے ملامت کا اہتمام کرنے کا اذن دے دیتے ہیں تو کسی کو برہم ہونے کی ضرورت نہیں کہ اپنی جماعت کا قائد ہونے کے ناتے تقاضائے وقت کے مطابق اپنے قول و فعل کی تراش خراش کرنا ان کا استحقاق ہے۔ اور اگرجناب آصف علی زرداری، ایم کیو ایم کو حزب اختلاف کا مزا چکھانے کے لئے شاہی سید کے کام میں کوئی سرگوشی کرتے یا آفاق احمد کی طرف کوئی کبوتر روانہ کرتے اور چشم زدن میں ضلعی حکومتوں کے نظام کی بساط لپیٹ کر پرانا کمشنری نظام واپس لے آتے ہیں تو کسی کو جزبز نہیں ہونا چاہئے۔ سیاسی شطرنج میں ایسی چالیں روا خیال کی جاتی ہیں۔ کمشنری نظام کی واپسی پر جشن طرب منانے اور ایک عظیم الشان عشایئے کا اہتمام کرنے والی اے این پی کی مانگ اگر صرف ایک ہفتے بعد اجڑ جاتی ہے اور اسے حرم خاص کی خواب گاہ سے نکال کر پھر سے برتن مانجھنے پر لگا دیا جاتا ہے اور وہ دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھتے ہوئے چپ چاپ اپنے کام میں لگ جاتی ہے تو اسے بھی نشانہ طنز بنانے کے بجائے تقاضائے حکمت خیال کرنا چاہئے۔ یہ ہمارے یہاں کی سیاست ہے جسے آغا شورش کاشمیری نے تماش بینوں میں گھری طوائف کا نام دیا تھا۔ سو اس ماہ مقدس میں دل میلا کرنے اور خواہ مخواہ کڑھنے کے بجائے اسے روزہ بہلانے والا تماشا خیال کرنا چاہئے۔ میں نے ایم کیو ایم کی تازہ علیحدگی، بالخصوص گورنر عشرت العباد کے روٹھ جانے کے بعد لکھے گئے کالم میں غالب کے اس شعر سے مدد لی تھی۔ میرا خیال تھا کہ ماضی میں کئی بار روٹھنے اور پھر مان جانے کی روایت رکھنے کے باوجود اب کے ایم کیو ایم کی خفگی کا عالم کچھ اور ہے اور وہ کچھ بھی ہوجائے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھے گی۔ میرا ہی نہیں بیشتر تجزیہ کاروں کا اندازہ بھی یہی تھا۔ یہاں تک کہ اس کروٹ نے مسلم لیگ (ن) کے دل میں بھی ارتعاش پیدا کردیا اور وہ رومانویت بھری نگاہوں سے نائن زیرو کی طرف دیکھنے لگی لیکن آج اندازہ ہورہا ہے کہ میرے وطن کی سیاست ان رفعتوں سے ہم کنار ہوچکی ہے جہاں تک پہنچتے پہنچتے ہمارے تخیل کی سانسیں بھی پھول جاتی ہیں۔ کوئی کتنا ہی طرم خان بنے، یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ آصف علی زرداری جیسے شہ دماغ شاطر کی اگلی چال کیا ہوگی اور کوئی کیسی ہی افلاطونی دانش بگھارے، وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ الطاف بھائی کی آتش فشانی تقریر سے پھوٹتا لاوا کس آن جوئے نغمہ خواں میں بدل جائے گا۔ کم از کم میں تو اپنے عجز کا برملا اظہار کررہا ہوں۔ ایک معذرت عالی مرتبت ذوالفقار مرزا کی طرف سے آئی ہے ایک معذرت ابھی کل ہی الطاف بھائی کی طرف سے جاری ہوئی ہے اور ایک معذرت مجھے اپنے قارئین سے کرنی ہے کہ میں نے غالب کے شعر کا سہارا لے کر حکومت سے ایم کیو ایم کی علیحدگی کو حتمی اقدام سمجھ لیا تھا۔ یہاں تک کہہ دیا تھا کہ کم از کم اگلے انتخابات سے پہلے ایم کیو ایم واپس بارگاہ اقتدار میں نہیں آئے گی۔ بے شک میرا قیاس غلط تھا۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے، آصف زرداری کے معیار حکمت کی گرد کو بھی نہیں پاسکتا۔ رہے الطاف بھائی، تو ان کی طلسماتی زنبیل میں ایسے ایسے کرشمے ہیں کہ ہم جیسوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتے۔ مجھے اس نجومی کا قصہ یاد آرہا ہے۔ ٹھیک سے یاد نہیں۔ غالبا اورنگ زیب عالمگیر تک کسی نہایت ہی ہنر مند نجومی کا تذکرہ پہنچا۔ اورنگ زیب راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے ناتے ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ حکم صادر ہوا۔ نجومی حاضر کیا جائے۔ بادشاہ سات دروازوں والے ایک دربار ہال میں تخت نشین ہوا۔نجومی سے کڑک کر کہا۔ کاغذ قلم لو اور لکھو کہ میں ان سات دروازوں میں سے کس دروازے سے باہر نکلوں گا۔ نجومی نے کچھ دیر حساب کتاب کیا۔ پھر ایک کاغذ پر کچھ لکھا۔ کاغذ ایک لفافے میں بند کردیا گیا اور لفافہ وزیر باتدبیر کے حوالے ہوگیا۔ بادشاہ نے تخت پر بیٹھے بیٹھے حکم دیا۔ معمار بلا کر ایک آٹھواں دروازہ نکالا جائے۔ ذرا دیر میں آٹھواں دروازہ تیار ہوگیا۔ بادشاہ نے اپنا بھاری لبادہ سمیٹا، مسکراتے ہوئے ایک نگاہ نجومی پر ڈالی اور آٹھویں دروازے سے باہر نکل کر، ایک اور دروازے سے اندر آگیا۔ تخت پر جلوہ افروز ہوتے ہی حکم صادر ہوا۔ لفافہ کھولا جائے۔ وزیر باتدبیر نے لفافہ چاک کرکے اندر سے کاغذ نکالا اور سبز طشتری میں رکھ کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیا۔ بادشاہ کے چہرے پر ڈوبتے سورج کی شفق جیسا ایک رنگ آیا اور آنکھیں سلگنے لگیں۔ نجومی نے لکھا تھا۔ بادشاہ ان ساتوں دروازوں میں سے کسی سے باہر نہیں نکلے گا۔ ایک آٹھواں دروازہ نکلوائے گا۔ کہتے ہیں اورنگ زیب نے نجومی کو کڑی سزادی کہ وہ علم غیب کی خدائی حدوں میں کیسے داخل ہوگیا۔ہمارے پاس نجومی ہے نہ آنکھ۔ ہم تو تقریروں اور بیانات میں الجھے رہتے ہیں۔ لفظوں اور لہجوں سے اندازہ لگاتے اور نتائج اخذ کرتے رہتے ہیں۔ ہماری نظریں سات دروازوں سے کھیلتی رہتی ہیں اور الطاف بھائی ایک آٹھواں دروازہ نکال کر حجرہ اختلاف سے حجلہ اقتدار میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی دن ہمارے اندر اس نجومی والی صلاحیت پیدا ہوگئی تو اپنے قارئین کو سچی خبر ضرور دیا کریں گے لیکن اس صورت میں بھی ڈر ہے کہ الطاف بھائی ہمیں اسی انعام سے نہ نوازیں جو اورنگ زیب عالمگیر نے نجومی کو عطا کیا تھا۔ میں آج کا کالم بوجھل نہیں بنانا چاہتا۔ اگر کراچی اور حیدر آباد کا نظام باقی سندھ کے نظام سے مختلف ہوگا تو ہوا کرے۔ اگر اس سے واقعی سندھ کی دو صوبوں میں تقسیم کی راہ ہموار ہوگئی ہے تو بھلے ہو۔ اگر ڈاکٹر فاروق ستار صاحب کی پیش کردہ پانچ سو خوفناک گینگسٹرز کی فہرست اب داخل دفتر ہوجائے گی تو بے شک ہو۔ اگر اب کسی افریقی ملک کی طرف سے فراہم کردہ انتہائی اہم رپورٹ اور دہشت گردوں کی وہ فہرست جس کا تذکرہ رحمان ملک نے کیا تھا، کسی آبنوسی الماری میں بند ہو جاتی ہے تو میری بلا سے۔ اگر اس نئی ڈیل کے بعد کراچی کے تینوں تعلقداروں کے صف شکن سورما امن و آشتی کے ساتھ اپنی اپنی چھانیوں میں بیٹھ جاتے ہیں تو کسی کو کیا؟ اگر کراچی کو خون رنگ کرنے والے اسباب و محرکات جوں کے توں برقرار رہتے ہیں، سارے مافیاز پھر سے اپنے اپنے دھندے میں لگ جاتے ہیں، امن کے ایک نئے وقفے سے فائدہ اٹھا کر سب اپنی تلواروں کو سان پر چڑھانے اور اپنی بندوقوں کو تیل دینے میں جت جاتے ہیں اور اسرائیلی ہتھیاروں سمیت شہر میں اسلحہ کے انبار لگتے رہتے ہیں تو کسی کے پیٹ میں کیوں مرور اٹھے۔ سو آج میں دل جلانے والا کوئی مسئلہ نہیں چھیڑنا چاہتا۔ آج میں صرف صدر آصف علی زرداری کی سیاسی حکمت، ڈاکٹر بابر اعوان کی بصیرت اور سید قائم علی شاہ کی انکساری کو خراج پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اور ان سب سے بڑھ کر الطاف بھائی کے شاہانہ تدبر کے حضور نذرانہ عقیدت کہ وہ بڑے بڑے نجومیوں کو مات دے کر، تجدید تعلقات کے لئے اس عمدگی سے آٹھواں دروازہ نکال لیتے ہیں کہ ایک دنیا ششدر رہ جاتی ہے۔ اورنگ زیب نے یہ دروازہ صرف نجومی کو مات دینے کے لئے نکالا تھا۔ الطاف بھائی کو چاہئے کہ وہ بھی یہ نسخہ بار بار استعمال نہ کریں۔ زرداری صاحب کا کچھ پتا نہیں۔ کسی دن الطاف بھائی باہر نکلیں اور وہ سارے دروازے سیسہ بھری اینٹوں سے چنوادیں۔ اور ایک آخری درخواست۔زرداری صاحب اور الطاف بھائی باہم چندہ ڈال کر شاہی سید صاحب کو وہ رقم بھجوادیں جو انہوں نے کمشنری نظام کی بحالی پر، ایک پرتعیش عشایئے پہ خرچ کی تھی۔ تحریر : عرفان صدیقی