دیکھو اِس کو کہتے ہیں چوری اور اوپر سے سینہ زوری اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے وہ امریکا جس نے سانحہ نائن الیون کے بعد اپنا سارا غصہ خاص طور پر جنوبی ایشیا کے ملک پاکستان پر افغانستان کو جواز بنا کر کچھ یوں اترا ہے کہ پاکستان اِس کے عتاب سے معاشی واقتصادی اور سیاسی و اخلاقی طور پر ریزہ ریزہ ہو کررہ گیا ہے پاکستان کو اِس نہج تک پہنچانے والے امریکاکی اِس پر بھی ہٹ دھرمی یہ ہے کہ امریکا پاکستان کو مزید دھمکیاں دے رہاہے کہ پاکستان امریکی بقا و سا لمیت کے خاطر دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کا حصہ رہ کر اپنی ذمہ داریاں اداکرے اور خطے سمیت دنیا بھر سے دہشت گردوں کے خاتمے تک اپنی کارروائیاں بھرپور طریقوں سے جاری رکھے اِس سے بے پرواہ رہ کر کے اِن کارروائیوں سے اِس کا کتنا جانی و مالی اور سیاسی و اقتصادی نقصان ہوتا ہے پاکستان کی بس یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امریکی دوستی نبھاتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار اداکرتا رہے اور ہم سے اپنے علاقوں میں ڈرون حملوں کی بندش کا معاملہ بار بار نہ اٹھائے ہمیں اپنے علاقوں میں وہ کرنے دے جوہم کرنا چاہ رہے ہیں اور یا جو ہم نیٹو فورسز سے کرانا چاہتے ہیں اگر اِسے ہم سے اپنی ضرورتوں اور جانوں کے بدلے میں امداد کی مدد میں جو ڈالرز طلب کرنے ہوں وہ ہم سے لیتا رہے مگر ہمارے مفادات کی جنگ میں ہم سے بڑھ کر اپنا حصہ ڈالتا رہے ۔
یہ امریکا کی وہ منصوبہ بندی ہے جس پر یہ عمل کرکے ہم سے اپنے مفادات کی جنگ میں اپنے عزائم کی تکمیل چاہ رہا ہے اِس کی اِس جنگ میں ہم نے خود کو جھونک کر دس سالوں میں اپنا سب کچھ تباہ کردیا ہے مگر اِس کے باجود بھی ہم اِس کی آنکھ کی تارے نہیں بن پائے ہیں اور اب اِس موقع پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا میں اتنا حوصلہ اور ہٹ دھرمی اِس لئے پیدا ہوگئی ہے کہ یہ ہماری کمزرویوں اور خواہشات سے واقف ہے اور یہ ہمارے مسائل بھی جانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے جو ہم نہیں جانتے ہیں یہ ہمارے یہاں مسائل بھی خود پیدا کرتا اور کراتا ہے تو یہ اِن کا حل بھی خود ہی نکالتاہے اور نکلواتا ہے غرض کہ یہ ہماری ہر ضرورت اور ہماری مجبوری سے خود بھی کھیل رہا ہوتا ہے اور اپنے حواریوں کوبھی کھیلا رہا ہوتا ہے اور یہ امریکا ہی ہے جوہمیں اپنی چٹکی پر لٹو کے مافق نچانے کی بھی خوب مہارت رکھتا ہے اوراِس کے ساتھ ہی اِسے یہ بھی معلوم ہے کہ اپنے کس مفاد کے حصول کے خاطر ہم پاکستانیوں اور ہمارے حکمرانوں کو کس چیز کا جھانسہ دے کر اپنا مفاد حاصل کیا جائے اور ہماری کس خواہش کو فورا پوری کردیا جائے اور کس بڑی خواہش کو اپنے اگلے اہداف اور مفاد تک ٹلادیا جائے۔
leon panetta
مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم سے امریکی تعلقات کی تاریخ بتاتی ہے کہ امریکا ہماری اکثرخواہشات اور ضرورتوں کو اپنے مفادات کے خاطر ہی صحیح فورا ضرور پوری کرکے ہمیں اپنے سر اپنے قدموں پر کسی پالتو جانور کی طرح رکھنے پر ضرور مجبور کردیا ہے ۔اور آج شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کی منہ سے نکلی ہر فرمائش کو ترنت پوری کرنے والی امریکی انتظامیہ کے وزیردفاع لیون پنیٹا نے گزشتہ جمعرات کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں افغان ہم منصب کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران پاکستان کو سخت ترین لہجے میں خبردار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان شدت پسندوں کے محفوظ پناہ گاہوں کی وجہ سے( دنیابھر میں دہشت پھیلانے ا ور معصوم اِنسانوں بالخصوص امت مسلمہ کا خون بہانے کے حوالے سے جارحیت پسندانہ فیصلے کرنے والے ہمارے )واشنگٹن کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہورہاہے لیون پنیٹا نے کابل کی اپنی کئی حوالوںسے گرماگرم پریس کانفرنس میں اِس کی وضاحت میں پاکستان پر کھلے لفظوں میں الزام لگاتے ہوئے یہ بھی کہہ دیاہے کیوں کہ مزاحمت کاروں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف پاکستان کی کارروائیوں میں ناکامی پر امریکی انتظامیہ اور امت مسلمہ کو موت باٹنے والے ہمارے واشنگٹن کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور اِس کے ساتھ ہی ساتھ اپنی انہتائی ہٹ دھرمی اور غنڈہ گردی کا بھی مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی وزیردفاع لیون پنیٹا نے یہ تک کہہ ڈالا ہے کہ مزاحمت کار سرحد پر امریکی اور نیٹوفورسز پر حملے کررہے ہیں جب یہ سب کچھ ہورہا ہوتو پھر ایسی صورت حال ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے ایسے میں واشنگٹن پر لازم ہے کہ یہ اپنے (امریکی) اور نیٹو(یعنی کرائے )کے فوجیوں کی حفاظت کے لئے اپنا ہر قدم اٹھائے لیون نے غصے سے اپنے دانت پیستے ہوئے کہا کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ اسلام آباد حقانی نیٹ ورک کے خلاف ہر صورت میں کارروائی کرے مزاحمت کاروں کی غلیلوںکی کارروائی سے خوفزدہ امریکی وزیردفاع لیون پنیٹا کا اِس موقع پر یہ بھی کہناتھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جب تک عسکریت پسندوںکی پناہ گاہیں موجود ہیں افغانستان میں نہ تو امریکی اور نیٹوفورسز کو چین اور سکھ نصیب ہوسکے گا اور نہ ہی افغانستان میں امن قائم ہوپائے گا۔
nato supplies
اِس پر امر واقع یہ ہے کہ وہ امریکا جو سانحہ سلالہ پوسٹ کے بعد پاکستان سے نیٹو سپلائی کی بندش کے بعد صیاد کے پنچڑے کے بلبل کی طرح پھڑپھڑاکر رہ گیا ہے مگر اِس کے باوجود بھی اِس کے ہوش ٹھکانے نہیں آئے ہیں یہ ہم سے نیٹوسپلائی کھلوانے کے لئے ہم سے معافی مانگنے اور ہمارے سامنے اپنی ناک رگڑنے کے الٹا ہم کو دھمکیاں دے رہا ہے اور ہم پر امداد کی بندش کے پروگرام تیار کرکے ہم پر دباو ڈال رہا ہے اِس پرہم یہ کہیں گے کہ بس باب امریکا ہمیں دھمکی نہ دے ہماری خود مختاری اور سا لمیت کا احساس کرے اور ہم سے برابری کی سطح پر آکر بات کرے پہلے تو دوچار ڈالر کی مدد کرکے دس سالوں کے دوران ہمارے یہاں سے نیٹو سپلائی سے لاکھوں کنٹینرز افغانستان لے گیامگر اب جب ہم اِس کی قیمت وصول کرناچاہ رہیں ہیں تو ہم پر دباو ڈالنے کے لئے طرح طرح کی دھمکیاں دے رہاہے اور کہہ رہاہے کہ ہماراصبرکا پیمانہ لبریز ہورہا ہے اِس ہم یہ کہیں گے کہ ارے امریکا تیرا کونسا پیمانہ لبریز ہوگا آج جو پیمانہ ہمارا لبریز ہورہاہے۔