امریکا ، یورپ اور اسرائیل مسلم اُمہ کو بھی اِنسان سمجھیں , اِمکان پلس اِمکانات

America and israel

America and israel

مسلم اُمہ کے لئے حیات تنگ کرنے اور اِس کے خون کا پیاسہ رہنے والا امریکا، اسرائیل اور یورپ کے لو گوں کاہجوم جو اپنے قول و فعل کے لحاظ سے آدم خور بھیڑیاہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنی بے شمار برائیوںکے باوجود بھی اِن ممالک کے لوگوں کا یہ ہجوم پھر بھی خود کو اِنسان سمجھتاہے ہم اِن لوگوں سے یہ عرض کرناچاہیں گے کہ یہ صرف خود کو اِنسان سمجھنے والی اپنی روش کو بدلیں اور مسلم اُمہ کو بھی اِنسان سمجھیں جو رب تعالی کی طرف سے تکمیل انسانیت کے بعد سب سے افضل دین کے ماننے والے ہیں اور سب سے افضل و اعلیٰ انسان بھی ہیں بحیثیت مسلمان یہ ہمارا ایمان ہے کہ خالقِ کائنات نے اِنسان کو اپنی سب سے عظیم تخلیق قرار دیاہے جس کو بنانے کے بعد میرے اللہ رب العزت نے ساری کائنات بنائی ہے ۔

اِس کے سامنے ہر اِنسان برابر ہے مگر افسوس ہے کہ آج تمہارے اور دنیا کے دیگر ادیان کے نزدیک اِنسان کی تعریف ہمارے جذبہ ایمانی سے مختلف ہے وہ اِنسان کو وہ مقام اور درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں جو مقام اور مرتبہ ہم مسلمانوں کے نزدیک ہے دیگر ادیان کی اِسی ضد اور اختلاف نے آج انسان کو انسان کے خون کا پیاسہ بنا دیا ہے اِس کے اِس تیور کی وجہ سے ہمیںیہ ڈر کھائے جارہاہے کہ اگر امریکا، اسرائیل اور یورپ نے اپنی اِس روش کو نہ بدلا تو کہیں آنے والے دنوں میں ایسانہ ہوجائے کہ امریکا، اسرائیل ، یورپ اور دیگر ادیان کے طاقتور اِنسانوں کا پسندیدہ مشروب اُمت مسلمہ کے اِنسانوں کا خون نہ بن جائے اور کمزور اور اکائیوں میں بٹا اِنسان طاقتوراور خونخوار اِنسانوں کے لئے اِس کے مشروب کا حصہ ثابت ہوجائے حضرت شیخ سعدی کا قول ہے کہ” اگر تجھے دوسروں کی تکلیف کا احساس نہیںہے تو تُو اِس قابل نہیں کہ تجھے اِنسان کہاجائے” اوردانا کہتے ہیں کہ خداکے ساتھ محبت کادعویٰ اُس وقت تک غلط رہتا ہے کہ جب تک آپ انسانوں کے ساتھ محبت کو اہم نہیں سمجھتے ۔

یقینا اِنسان کی شرافت اور قابلیت اِس کے لباس سے نہیں بلکہ اِس کے بہترین کرداراور فعل وگفتار سے ہوتی ہے اورپھرجب ہماری اِس فکر نے امکان سے نکل کر اِمکانات کی شکل اختیار کر لی تو ایک عر صے سے ہم میں اِنسان کی کوئی ایسی نئی تعریف دریافت کرنے کی جستجو اور بڑھ گئی جو دیگرادیان کے پیروکاروں کے لئے قبل قبول ہواور جس سے آج کے اِس خونی دور کے انسان پر اِنسان کی اصل حائق آشکار ہوجائیں اور اِسے یہ معلوم ہوجائے کہ اِنسان کو اِنسان کے لئے کیوں قابل احترام بنایا گیا ہے اور ہر اِنسان دوسرے اِنسان کے لئے کتنا اہم ہے مگر ہمیں ایسی کوئی تعریف نہیں مل پائی جو ہمیں مطمئن کردیتی کہ اِنسان کیوں کر بنا اورآج کے اِس پُرآشوب دور میں انسان کی صحیح تعریف کیا ہے..؟ جس سے ہمارے بے قرار دل کو سکون مل جاتااور ہم دنیا کے دیگر ادیان کے ماننے والوں کو یہ بتادیتے کہ اِنسان کیا ہے ۔

جس کے یہ خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں بالآخرہماری یہ جستجو ایک روز رنگ لے ہی آئی اور ہم اِنسان کی مختصر مگر کسی حد تک جامع تعریف ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گئے جب ہم اِس نتیجے پرپہنچے کہ” اِس روئے زمین پر بہت زیادہ لوگ اور بہت کم اِنسان بستے ہیں” پھر ہمیں یہ احساس بھی ہواکہ ہمیںاصل میں اُن لوگوں کو ہی یہ بتاناہے جو بہت زیادہ ہیں مگر انسان نہیں بلکہ لوگ ہیں یعنی ہمیں اِن لوگوں کو اِنسان کی مثبت تعریف بتاکر بہت کم اِنسان کی تعداد کو بڑھاناہے تو ایسے میں ہمیں اِنسان کی ایسی بہت سی تعریفیں نظر آئیں جن کو یہاں ہم بیان کررہے ہیں ”آج دنیا میں سب سے بڑا اِنسان وہ ہے جس نے بلارنگ و نسل مذہب و سرحد زبان و تہذیب خالصتاََ اِنسانیت کی خدمت کی ہو اِس جذبے سے مزین انسان کا درحقیقت اِنسان بن جانا اِنسانیت کے لئے اِنسان کی فتح ہے اگر تمہارایہ دعوی ٰ ہے کہ تمہیں زندگی سے محبت ہے ۔

israel

israel

تو بس تم پر لازم ہے کہ تم انسانیت سے محبت کرو”ممکن ہے کہ آپ ہماری اِس بات سے متفق نہ ہوں مگرہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کوئی ضروری نہیں کہ آپ ہماری پیش کردہ اِن باتوں سے متفق ہوں۔مگر ہم اہلِ یورپ بالخصوص امریکا ، اسرائیل یورپ اور اُن ممالک کے لوگوں سے یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کی ترقی کے بہت سے دعوی اپنی جگہہ ٹھیک ہوںمگر اِن ممالک کے رہنے والے اپنی مفاد پرستی اور موقع پرستی کے خود سے باہر نکلیں اور ضروری ہے کہ بحیثیت اِنسان آپ کا رشتہ صرف خون کے رشتوں تک محدود نہ ہو اور آپ کا سانس جب تک آپ کے وجود میں قید رہے اور آپ خود کو ایک جیتا جاگتا اِنسان تصور کریں توآپ پر لازمی ہے کہ آپ حقیقی معنوں میں رنگ و نسل، مذہب و سرحد اور زبان و تہذیب سے بالاتر ہوکر ایک ذی شعور انسان کی طرح انسانیت کی خدمت کریں اور وہ بھی بے لوث انسانیت کی معراج سمجھ کرتے رہیں۔

اَب ایسے میں آج افسوس کا مقام یہ ہے کہ دین اِسلام کے ماننے والوں کے علاوہ دنیا میں جتنے بھی ادیان ہیں اورجو اپنے طورطریقوں اور اصولوں پر اپنے معاشرے اور تہذیبیں قائم کئے ہوئے ہیں اُن کے نزدیک اِنسان کی قدر کیٹرے مکوڑوں سے بھی حقیر ہے وہ اپنے یہاں بظاہر توکیٹرے مکوڑوں کی زندگیوں کا تحفظ اور اِن کی بقاکا سامان مہیاکرتے تو بہت کرتے نظر آتے ہیں مگر درحقیقت آج یہی ا پنے یہاں اِنسان کو جتنانقصان پہنچانے اور اِس کی تباہی کے جتنے راستے تلاش کرنے میں متحرک ہیں اِس کی ایک مثال امریکا،یورپ ،اسرائیل اور اِن جیسے بہت سے ممالک میں بھی نظرآتی ہے جو دنیامیںاپنے بلیک واٹر کے دہشت گردوں ، خفیہ ایجنسیوں اور آدم خور قاتلوں کے ذریعے پہلے خودد ہشت گردی کروارہے ہیںاور پھر اِن دہشت گردوں کے خلاف اُٹھنے والوں کو دہشت گردگردان کر اِن پر اپنے جدیداورمہلک ہتھیاروں کا استعمال کرکے دنیا بالخصوص مسلم اُمہ پر اپنی بادشاہت کے قیام کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔

اِن لوگوں سے متعلق مارکس نے کہا ہے کہ” بیل کی کھال والا انسان ہی غریب انسانوں کے مصائب سے بے پرواہوسکتاہے اور صرف اپنی کھال کی فکر میں زندگی گزارسکتاہے لیکن میرے جیساحساس انسان اِنسانیت کی مسلسل چیخیں سُن کر خاموش نہیں بیٹھ سکتا”یعنی آج دنیا میں امریکااور اسرائیل میں رہنے والا ہجوم جو خود کو انسان اور تہذیب یافتہ انسان کہلانے میں فخرمحسوس کرتاہے دراصل یہی انسانوں کے خول میں بندوہ لوگ ہیں جن کی زندگی کا اولین مقصد دنیامیں اسلام کے ماننے اورحقیقی امن کے متلاشی انسانوں کا خاتمہ کرنا رہ گیاہے اِن مسلم دشمن قوتوں کے نزدیک مسلمانوں سے دوستی اور انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے۔

اَب ایسے میں ہم ایک بار پھر اپنی اِس بات کو دھرائیں گے کہ اگر امریکا، یورپ اور اسرائیل جیسے ممالک نے انسانیت اور بالخصوص اُمت مسلمہ کی تباہی اور بربادی کے لئے ایٹمی ہتھیاروں اور جدیدجنگی سامان بنانے اور اِنہیں دنیا بھر میں اپنی داداگیری قائم کرنے کے لئے استعمال کرنے کی روش نہ بدلی تویہ امکان ضرور امکانات میں بدل جائے گاکہ دنیاکی کمزور طاقتیں بھی اپنی بقاو سا لمیت کے خاطر اکٹھاہوکراِن ممالک کو ضرور سبق سکھانے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوں گیںاوریہ امریکا، یورپ اور اسرائیل جیسی خونخوار طاقتوں کو اِنسانیت کی قدر کرناسکھادیں گیں اور بتادیں گیں کہ یہ بھی انسان ہیں۔

تحریر محمد اعظم عظیم اعظم