بقول سائرس دوسروں کے حالات ہمیں اور ہمارے حالات دوسروں کو اچھے معلوم ہوتے ہیں لگتا ہے کہ ساری دنیا مگر بالخصوص مسلم امہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اِس بات سے متفق رہ کر اِس حقیقت سے منہ چرا رہے ہیں کہ درحقیقت ایسا ہرگز نہیں ہوتا ہے جیسا نظرآتا ہے مگر پھر بھی ہم اپنی اپنی رنگینیوں میں کھوئے رہتے ہیں اور دور سے نظر آنے والے سیراب کو پکڑنے کی جستجو کرتے رہتے ہیں جبکہ وقت کے ہاتھوں حالات کے تھپیڑوں کا جو لوگ اور قومیں مقابلہ کررہی ہوتی ہیں اِس کی نزاکت تو یہی جانتی ہیں مگر دور سے سب کو ایک دوسرے کے حالات سندھر دکھائی دیتے ہیں۔
آج بھی دنیا کے بہت سے ممالک کے باشندے اپنے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانے کے خاطر امریکی قومیت کے حصول کو اولین ترجیح دیتے ہیں اِس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ امریکا میں زندگی کا مزاہی کچھ اور ہے جہاں ہر قوم اور مذہب وملت کے لوگ اپنے اپنے طور طریقے کے مطابق صدیوں سے زندگیاں گزاررہے ہیں اور جہاں اِنہیں ا مریکی قوانین کے مطابق اپنے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ ایسی تمام آزادیاں بھی حاصل ہوتی ہے جن کا انہیںاپنے ملک میں پابندی کا سامنہ ہوتا ہے ۔اگرچہ اِس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ امریکانے اپنے یہاں آباد ہر ملک و ملت اور دین و دھرم کے ماننے والوں کے حقوق کا ایک بڑے عرصے تک خاص خیال رکھااور اِنہیں اپنے اپنے دین و دھرم اور روایات کے مطابق زندگیاں گزارنے کی آزادی دے رکھی تھی مگر یہاں ہمیں بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ سانحہ نائن الیون (جو امریکیوں اور اسرائیلیوں کی ملی بھگت سے رونماہوا)کے بعد جب ہی سے امریکیوں نے اپنے یہاں آباد دنیاکے کسی دین و دھرم کے ماننے والوں کے لئے پابندی تو نہیں لگائی مگر اِن ہی امریکیوں نے دیدہ اور دانستہ طور پر اپنے یہاں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ ایسا ناروا سلوک اپنا رکھا ہے کہ آج جس کو امریکی خود بھی جھٹلانہیں سکتے ہیں ۔
Sam Brownback
سانحہ 9/11کے بعد امریکی انتظامیہ اور امریکی شہریوں نے اپنے یہاں عالمگیر دینِ اسلام کے پیروکاروں اور قرآن و حدیث کوماننے والوں کے لئے تعلیمی، اقتصادی، سیاسی اور اخلاقی شعبوں میں داخلوں پر پابندی لگاکر اِن کی ترقی کی راہیں مسدود کردی ہیں اور اِن کے مذہبی حقوق کی ادائیگیوں اور طور طریقوں کے مطابق زندگیاں گزار سے روکنے کے لئے اپنے یہاں قوانین میں ایسی ترامیم کر ڈالی ہیں جن کے نفاذ سے براہ راست نشانہ امریکا میں رہنے والی مسلم آبادی کے لوگ بن رہے ہیں جس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ امریکی ریاست کنساس کے گورنر سام براون بیک نے شریعہ نامی ایک مسودہ قانون پر دستخط کردیئے ہیں جس کے تحت اب کنساس کی عدالتیں اور اِنصاف فراہم کرنے والے اور دوسرے ادارے بھی اپنے فیصلوں کے لئے اپنا سینہ چوڑا کرکے اور گردنیں تان کرصرف امریکی قوانین کے سوا بالخصوص اسلامی یا دوسرے غیر امریکی قوانین کو ہرگز استعمال نہیںکر سکیں گے یعنی امریکی ریاست کنساس کے گورنر سام براون بیک نے امریکا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے اسلام اور اپنے یہاںعیسائیت کو چھوڑکر دین اسلام میں داخل ہونے والے مسلمانوں(افراد ) سے خوفزدہ ہوکر دیدہ و دانستہ طور پر اپنی ریاست میں اسلامی قوانین کے استعمال پر سختی سے پابندی عائد کردی ہے
american muslim women
اِس بل کی حمایت میں سام براون بیک کا کہناہے کہ اِس بل کی منظوری ریاست میں موجود بالخصوص مسلم اور غیر ملکیوں کے لئے اِس بات کو یقین دہانی ہے کہ اب اِن کے ہر حقوق کے تحفظ کے لئے صرف امریکی قوانین اور آئین ہی کافی ہے جبکہ اطلاع یہ ہے کہ امریکی ریاست کنساس کے گورنر کے ترجمان کے مطابق مذکورہ بل کے ذریعے ہم ہر صورت میں اِس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ریاستی عدالتیں ریاستی قوانین کی بالادستی کو ہر حال میں یقینی بنائیںگی جبکہ ریاست کنساس کے گورنر سام براون بیک کے اِس اقدام کے خلاف جس میں براہ راست مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے امریکا کی کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز نے بل کی منظوری کو چلینچ کرنے کا اعلان کردیا ہے جس میں اِنہوں نے اپنایہ پاورفل موقف اختیار کیا ہے کہ ریاست کنساس کے گورنر نے مسلمانوں کے خلاف اِس بل کی حمایت میں دستخط کرکے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے اور اِنہیں اِن کے مذہبی قوانین اور حقوق سے محروم کرکے ایک انتہائی ظالمانہ اقدام کردیاہے جو نہ صرف ریاست کنساس کے مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے بلکہ ساری مسلم امہ کے لئے بھی ایک المیہ ہے اوراِسی طرح ہمارے پڑوسی اور بقول ہمارے موجودہ مصالحت پسندحکمرانوں کے بھارت ایک پسندیدہ ملک ہے جی ہاں…!
Human rights violations India
اِن کے اِسی پسندیدہ سیکولر ملک بھارت سے متعلق بھی ہمارے پاس ایک خبر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے یہ آئی ہے کہ بھارت انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی بنیاد پر ترقی کی منازل طے کررہا ہے رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اِس بات کا کھلاٹلا انکشاف کرکے جہاں ایک طرف دنیا کو حیران کردیا تو دوسری جانب بھارت کے سیکولر ہونے کے ماتھے پر بھی ایسا کلنگ کا ٹیکہ لگا دیا ہے کہ اقتصادی ترقی کے نام پر بھارت اپنے شہریوں بالخصوص مسلمانوں کے بحیثیت انسانی حقوق غصب کرنے میں مصروف ہے اِس موقع پر لندن میں ایک پریس کانفرنس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل سلیل شیٹی نے بتایا کہ بھارتی حکومت ترقی کے لالچ میں کارپوریٹ سیکٹر کے احتساب سے ہچکچاتی ہے جبکہ یہی بھارت ہے جو مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر کشمیری مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرکے دنیاکے تاریخی مظالم کی داستانیں رقم کررہاہے۔اِس سارے منظر پس منظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسانہیں ہوتااگر امتِ مسلمہ متحد اور منظم ہوتی مگر کیا کریں ہم خود ایک نہیں ہوتے جس کا فائدہ آج ہمارے دشمن اٹھارہے ہیں آج بھی اگر ہم ایک ہوجائیں اور صحیح معنوں میں ایک خدا، ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایک قرآن و حدیث کو ماننے والے بنکر متحدہوجائیں تو ہم امریکاوبھارت اور اسرائیل کو ایک ڈگر پر چلنے سے روک سکتے ہیں۔مگر کیا کریں ہمارا المیہ تو بس یہی ہے کہ ہم ایک نہیںہوسکتے اور اِن سے دوستی بھی ختم نہیںکرسکتے۔