امریکا طالبان دوستی

Najeem Shah

Najeem Shah

پچھلے کئی دنوں سے امریکا کی عراق اور افغانستان بارے سوچ میں کافی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ امریکا کی سوچ اپنی پالیسی کے حساب سے بدلتی رہتی ہے۔ جہاں عراق میں طویل جنگ کے بعد امریکا کو اپنی فوج واپس بلانا پڑی وہیں افغانستان میں نیٹو افواج کے خلاف برسرپیکار طالبان کے بارے میں بھی نرم رویہ دیکھنے کو مل رہا ہے، جو ایک خوش آئند اقدام ہے۔ طالبان سے دس سالہ ناکام جنگ کے بعد آخر کار امریکا کے نائب صدر جوبائیڈن نے یہ کہہ کر دنیا کو حیران کر دیا کہ طالبان امریکا کے دشمن نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے امریکا کو خطرہ ہے۔ ان کا یہ بیان نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکا کے اس مؤقف کے بالکل برعکس آیا ہے جس میں انہوں نے طالبان کو اپنا اہم دشمن قرار دیا تھا۔ جوبائیڈن کے بیان کے بعد دیگر امریکی عہدیدار بھی طالبان بارے نرم گوشہ رکھے ہوئے ہیں جبکہ یہ خبر بھی آئی ہے کہ ایف بی آئی نے طالبان لیڈر ملا عمر مجاہد کا نام بھی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کردیا ہے اور اب طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کی خبریں بھی چل رہی ہیں۔ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق امریکا نے گوانتا ناموبے سے طالبان کے کئی رہنمائوں کو رہا بھی کر دیا ہے اور اس بارے مزید پیش رفت ہو رہی ہے۔  طالبان امریکا کے دشمن نہیں یہ ایک حقیقت ہے اور امریکا طالبان کا دشمن ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے، کیونکہ طالبان کی امریکا سے کوئی دشمنی نہیں تھی بلکہ خود امریکا نے ہی افغانستان کے طالبان سے دشمنی مول لی تھی۔طالبان نے تو امریکا کا کچھ نہیں بگاڑا تھا بلکہ وہ تو افغانستان میں حکومت کے خواہاں تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی طرز عمل سے پھر طالبان بھی امریکا کا دشمن ہو گیا ورنہ بنیادی اعتبار سے افغانی طالبان کو امریکا سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔خود امریکا نے ہی اس دشمنی کا آغاز کیا اور اب اس حقیقت کا اعتراف بھی کرلیا۔ کہتے ہیں امریکا کا کوئی اعتبار نہیں ، یہ دشمن اور دوست بدلتا رہتا ہے۔ اسی لیئے القاعدہ اور طالبان کے بارے میں امریکی پالیسی یہ تھی کہ دونوں ہر برائی کی جڑ ہیں اور ان کی بیخ کنی کے بغیر دنیا میں امن کا قیام ممکن نہیں کیونکہ یہ شاندار مغربی تہذیب کے دشمن ہیں لیکن اب امریکا اپنی اس پالیسی سے منحرف ہو گیا ہے۔ امریکی عوام کو اس پر احتجاج کرنا چاہئے کہ ہمارے کھربوں ڈالر ضائع کرکے اب آپ کو یہ باتیں یاد آ رہی ہیں۔ جنگ کے کچھ اُصول ہوتے ہیں اور بات چیت کے بھی کچھ اصول اور وقت ہوتے ہیں۔ یہ جنگ بظاہر افغانستان میں طالبان کی سرنگونی اور القاعدہ کی نابودی کے مقصد سے شروع کی گئی تھی۔امریکا کا خیال تھا کہ طالبان یا تو قتل کر دیئے جائیں گے یا انہیں پکڑ لیا جائیگا بلکہ طالبان روز بروز مضبوط ہوتے چلے گئے۔ اگرچہ جنگ کے ابتدائی چند ہفتوں میں ہی طالبان حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا لیکن مٹھی بھر طالبان ختم نہ ہو سکے۔ افغانستان کی جنگ ایسے حالات میں گیارہویں سال میں داخل ہو چکی ہے کہ یہ جنگ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ بن گئی ہے۔ امریکی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ افغان جنگ کے دس برسوں میں اٹھارہ سو امریکی فوجی ہلاک ہوئے جبکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ پانچ سالوں کے دوران دس ہزار شہری مارے گئے اور ڈھائی ہزار غیر ملکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔اب جبکہ دس سال کی مسلسل کوشش کے بعد امریکا ہر طرح سے ناکام ہو گیا۔ آئے روز طالبان نئی کامیابی حاصل کررہے ہیں اور امریکا کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ باعزت واپسی کے راستے اس کے لئے مسدود ہو گئے ہیںجبکہ اس کے اتحادی بھی ایک ایک کرکے اپنی فوجیں واپس بلا رہے ہیں۔  اس جنگ کا جب آغاز ہوا تھا اُس وقت طالبان حکومت نے امریکا اور مغربی دنیا کے سامنے یہ واضح کر دیا تھا کہ افغانستان کو قبضہ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، امریکا کو چاہئے کہ وہ طاقت اور زور آزمائی کے بجائے تفاہم اور معقولیت کی راہ اپنائے اور افغانستان کو ہضم کرنے کی خواہش دل سے نکال دے۔ اپنی تمام عسکری قوت اور سرمایہ زیر استعمال لانے کے بعد بھی امریکا افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں شکست و ریخت کا شکار ہے، اپنی ناک رگڑتے ہوئے اب وہ افغانستان سے اس حالت میں فرار چاہتا ہے کہ اس کی شکست کو ”فتح” سمجھا جائے۔پہلے امریکا اپنی ناکامی کو پڑوسی ممالک کی مداخلت کا شاخسانہ قرار دیتا رہا اور اب طالبان سے پینگیں بڑھا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ اُس کا مقصد صرف القاعدہ کا خاتمہ کرنا تھا اور اُسامہ بن لادن کی ہلاکت سے یہ مقصد پورا ہو چکا ہے۔ دس سالہ ناکامی کے بعد امریکی سوچ بدل گئی لیکن طالبان آج بھی اپنے ایجنڈے پر قائم ہیں۔ افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج دس سال بعد ایک ایسی بند گلی میں آ کھڑی ہیں جہاں انہیں واپسی کی راہ دکھائی نہیں دے رہی۔کیا زبردست قلابازی بلکہ اُلٹ بازی ہے کہ امریکا نے طالبان کو اپنا دوست قرار دے دیا ہے جبکہ دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے کہ یہ سب جہاد کی برکت اور اللہ کی رحمت ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے فتحیاب کیا ہے۔ امریکا سَر پر رسوائی کا ٹوکرا اُٹھائے افغانستان سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے جس کے ساتھ ہی دنیا کا منظر بھی بدل رہا ہے۔نائن الیون کا سب سے بڑا سانحہ بھی یہی تھا کہ امریکی قوم نے اس سانحہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ عراق اور افغان جنگ کی وجہ سے آج امریکا معاشی طور پر تباہی کی طرف گامزن ہے۔ معاشی بدحالی اور افغانستان کے اندر بڑی واضح شکست کے بعد اب امریکی حالت بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتی ہے ۔امریکا دونوں جنگوں کے سبب معاشی سونامی میں ایسا پھنس چکا ہے کہ آج صدر اوباما بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اب ہمیں جنگوں کے بجائے معاشی بہتری پر توجہ دینا ہوگی۔ دنیا امریکا کو ابھی تک اس لیئے سپر پاور تسلیم کرتی ہے کہ اسکے پاس پوری دنیا کی فوجی طاقت سے زیادہ اسلحہ اور قوت ہے لیکن افغانستان سپرپاور کیلئے ایسا قبرستان ثابت ہوا کہ ایک حالیہ گلوبل رپورٹ کے مطابق امریکا آئندہ دہائی میں سپر پاور نہیں رہے گا ۔حالیہ برسوں میں چین نے خود کو علاقائی سپر پاور ثابت کر دیا ہے اور اب وہ عالمی سپر پاور بننے کی منزل پر پہنچنے والا ہے۔چین ایشیا کی سب سے بڑی ابھرتی ہوئی اقتصادی قوت بن کر اُٹھا اور اس نے جدید اسلحہ کے میدان میں بھی امریکی سائنس دانوں کیلئے چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ ایک عالمی سروے کے مطابق ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کی اکثریت نے توقع ظاہر کی ہے کہ بہت جلد چین امریکا سے سپرپاور کی حیثیت چھین لے گا۔ امریکی حکمران افغان جنگ سے تو کچھ حاصل نہ کر سکے بلکہ اپنی ہی معیشت کا کباڑہ کروا دیا۔ دنیا کے نوے فیصد عوام امریکی پالیسیوں کیخلاف ہیں، اس لیئے امریکی حکومت کو نئے سرے سے اپنی پالیسیاں ترتیب دینا ہوں گی۔ امریکا اب طالبان کے بارے میں جو بیان دے رہا ہے اگر یہی بیان دس سال پہلے جاری کر دیتا تو آج دونوں ملکوں کے حالات مختلف ہوتے۔
تحریر:  نجیم شاہ