اگر آپ برانہ مانے تو میری یہ بات ٹھنڈے دل سے تسلیم کرلیں کہ آج ہم مسلمانوں کی اصل کمزروی زر، زمین اور زن ہوکررہ گئی ہے جِسے موجودہ دور میں دہشت گردِ اعظم امریکا سمیت آج اِس جیسے اور بہت سے اسلام دشمن عناصر خوب سمجھتے ہیں اور انہوں نے ہر موقعہ پر مسلمانوں کی کمزوری کی اِس رگ پر ہاتھ رکھ کر اِنہیںاپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور کہیں کہیں تو اِنہوں نے مسلمانوں کو اِس لالچ کے علاوہ بھی ڈرا دھمکا( جیسے آ ج امریکا پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے )کر اپنے ان تمام عزائم کی تکمیل کرنی ضروری سمجھی جنہیں یہ مسلمانوں کواپنے ساتھ ملائے بغیرنہیں کرسکتے تھے اور دوسری طرف مسلمان جو اپنی خصلت اور جبلت کے ہاتھوں مجبورہوئے اوراِنہوں اپنی اسلامی روایات کا خیال کئے بغیر ہی اپنی کم عقلی اور نہ سمجھی کے باعث ہمیشہ اغیار کی چکنی چپڑی باتوں اور ان کی چاپلوسی کے سحر میںگرفتار ہونے کے بعدوہ سب کچھ کرنے کا تہیہ کرلیاجس کی وجہ سے امریکااور یہودونصاری کے عزائم کی تکمیل یقینی ہوئی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ امریکا کی ہمیشہ سے ہی یہ خصلت رہی ہے کہ وہ اپناکام نکل جانے کے بعد اپنے اہم ترین دوست کو بھی ٹشوپیپر جتنی بھی حیثیت نہیں دیتاہے اور اِن سے کام لے چکنے کے بعداپنے ہاتھ پونچھ کر یہ ٹشوپیپر کو پھینک دیتاہے یکدم اسی طرح یہ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی کرتاہے اور آج جنہوںنے امریکا کی اِس فطرت کو سمجھ لیاہے وہ امریکا سے ہاتھ ملاناتو درکنار یہ اِس کی جانب نظریں اٹھانابھی اپنی تباہی کا سامان سمجھتے ہیں اور یقین جانیئے کہ امریکا آج بھی اپنی خصلت کے ہاتھوں اپنی اِس روش پر مجبور ہے اور اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکاکا وہ منظورِنظر حقانی نیٹ ورک جو ماضی میں اِس کا عزیز ترین نیٹ ورک گرداناجاتاتھا آج افغانستان میں پلنے بڑھنے اور پروان چڑھنے والا یہی منظورِ نظر حقانی نیٹ ورک امریکا کے نزدیک انتہائی بدنظر ہو کر رہ گیاہے جس کی آج امریکا بہت سے ایسی وجوہات بیان کررہاہے جس پرکسی بھی صورت میںہم پاکستانیوں کا یقین کا ہوناممکن ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے جیسے امریکا کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں قائم حقانی نیٹ ورک کے دہشت گرد گزشتہ دنوں افغانستان کے شہر کابل میں اِس کے سفارخانے اور نیٹوافواج پرہونے والے حملوں میں ملوث ہیں۔ حالانکہ پاکستان میں حقانی کاکوئی نیٹ ورک قائم نہیں ہے یہ سب افغانستان ہی میں موجود ہیں مگر پھر بھی اِن واقعات کے بعد سے مسلسل امریکی انتظامیہ اور امریکی افواج سمیت امریکی انٹیلی جنس کے سربراہوں کی جانب سے ایسے من گھڑت اور بے بنیاد الزامات پاکستان پر لگائے جارہے ہیں کہ جس سے یہ اندازہ لگاناکوئی مشکل نہیں رہاہے کہ امریکا اِ س جنگ میں اپنی ناکامی اور شکست کا ساراملبہ پاکستان پر ڈال کر اپنی عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے راہیں تلاش کررہاہے اور اپنے عوام پر یہ بارور کراناچاہتاہے ہم تو جنگ جیت جاتے یاجیت رہے تھے مگرپاکستان جو ہماری اِس جنگ میں فرنٹ لائن تھا اِس نے ہمیں دھوکے میں رکھاتھاکیوں کہ اِس کے دہشت گردوں سے رابطے تھے جبکہ حقیقت اِس کے بلکل برعکس ہے وہ یہ ہے کہ امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو خود افغانستان میں اپنے ہاتھوں کے نیچے پناہ دے رکھی ہے امریکا کی اِس حوالے سے پاکستان پر مسلسل کی جانے والی الزام تراشیوں کے جواب میں اب بعض امریکی حکام اور ماہرین میں پائے جائی جانے والی اختلاف رائے کے واضح ہوجانے کے بعد امریکی صدر اوبامہ اور اِن کی انتظامیہ سمیت امریکی مسلح افواج اور امریکی انٹیلی جنس کے سربراہان کیا اپنی عوام کو پاکستان کے دہشت گردوں سے رابطوں سے متعلق من گھڑت اور جھوٹے الزامات لگاکر منحرف کرسکیں گے۔ جیساکہ امریکی حکام اور ماہرین کا یہ کہناہے کہامریکاکو پاکستان کی اب تک دی جانے والی قربانیوں کو دہشت گردوں سے رابطے جیسے الزامات لگاکر مایوس نہیں کرناچاہئے امریکا جو ایک دہائی سے افغانستان میں برسرپیگار ہے اِسے چاہئے کہ جس حقانی نیٹ ورک کی یہ پاکستان میں موجودگی کی بات کررہاہے اِسے پہلے خود افغانستان میں تلاش کرناچاہئے یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے….؟ کہ حقانی نیٹ ورک کے دہشت گردہزاروں میل کا سفر طے کرکے افغانستان کے شہر کابل میں آسانی سے داخل ہوکر امریکی سفارخانے او رنیٹوافواج پر حملے کرکے چلے جائیں اور لاکھوں امریکی ، نیٹوافواج اور خود افغانستان کی مسلح افواج کی موجودگی میں ایساہوجائے…..؟؟ یہ نہ ممکن ہے ایسانہیں ہوسکتاہے….. امریکی حکام کو پاکستان پر من گھڑت الزامات لگانے سے پہلے اِس کی اِس جنگ میں پیش کی جانے والی انتھک قربانیوں کو بھی ضرور دیکھناچاہئے اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہ اِس جنگ میں افغانستان ، امریکااور پاکستان کے علاوہ اور کون سی طاقت کارفرماہے جو افغانستان میں اپنی دلچسپی تو ظاہر کررہی ہے مگر کھل کر سامنے نہیں آرہی ہے جیسے بھارت جو دہشت گردوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں شامل تو نہیں ہے مگر افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے لئے خرگوش کی طرح اپنی چل چلتاہوا اِس سے متعلق ہر امور میں گھس تو ضرور رہاہے اور ممکن ہے کہ پاکستان کو امریکی اتحاد یوں کی نظر میں گرانے کے لئے بھارت ہی کچھ ایسی کارروائیاں کروارہاہوجس سے پاکستان کا امریکا کی نظر میں امیج خراب ہواور امریکی پاکستان کی دوستی پر شک کریں۔ بہرحال! امریکا کی جانب سے پاکستان پر حد سے زیادہ کی جانے والی بیجاالزام تراشیوں کے حوالے سے اب یہ ضرور دیکھاجارہاہے کہ پاک امریکا تعلقات ایسے انتہائی نازک موڑ پر آگئے ہیں کہ جہاں اب دبنے اور امریکی حکامات ماننے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اب تو ضرورت اِس امرکی ہے کہ امریکا کی جانب سے بیجااور من گھڑت کی جانے والی طرح طرح کی الزام تراشیوں کے بدلے میں اِس سے دوٹوک الفاظ میں اِس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے ایسے ہی جیسے گزشتہ دنوں پاکستانی خاتون وزیرخارجہ حناربانی کھر نے کہہ دیاہے کہ اگرامریکانے ریڈلائن عبور کی تو ہمارے پاس بھی آپشنز کھلے ہیںہم بھی تمام جھوٹے الزامات کا جواب مکمل طور پر حق و سچ کے ساتھ دیں گے ہماری مشکلات بھی خود امریکا کی ہی پیداکردہ ہیںانہوں نے یہ بھی کہاہے کہ پاکستان کی اپنی نہیں ،تعلقات پر بات ہوگی تو یہ بھی بات ہوگی کہ ماضی میں کس کے تعلقات کس سے تھے امریکا اپنی ناکامیوں پر پاکستان کو قربانی کا بکرانہ بنائے اور اِس کے ساتھ انہوں نے انتہائی صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ پاکستان بیانات ار الزامات کے جواب میں بیانات اور تردیدی موقف کی ڈپلومیسی نہیں چاہتا۔ بلکہ مسائل اور معاملات کا مذاکرات کے ذریعے حل چاہتاہے اِن کا کہناتھا کہ مگر اِس کے لئے تالی دونوں ہاتھوں سے بجنی چاہئے۔بلاشبہ پاکستان نے ہمیشہ مصالحت کی پالیسی کو اپنایاہے اور آج بھی جب کہ امریکا پاکستان پر دہشت گردوں سے رابطوں کا الزام لگاکرافغانستان میں اپنی ہاری ہوئی جنگ کا ساراملبہ پاکستان کے سر ڈال کر اپنی عوام اوردنیاکے سامنے پاک و صاف ہوناچاہتاہے تو اِس کے لئے ایساکرنا ناممکن ہے کیوںکہ امریکا اپنی ناکامی کا ساراالزام پاکستان کے سر ڈال اپنی عوام کے سامنے کبھی سرخرو نہیں ہوسکتا ۔ کیوںکہ پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے بھی اِن امریکی الزامات کی نفی کرتے ہوئے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہاہے کہ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ایڈمرل مائیک مولن کے الزامات من گھڑت اور حقائق کے منافی ہیںاور امریکا پاکستان پر کسی قسم کی الزام تراشی سے پہلے افغانستان میں اپنی اب تک کی کارکردگی کا خود جائزہ لے کے اِس نے افغانستان میں کیا ، کیا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اِس سارے منظر اور پس منظر میں یہ بات واضح طور پر سامنے آچکی ہے کہ امریکا جس میں اب خود سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت یکدم ختم ہوچکی ہے اور اِسی کے ساتھ ہی یہ بھی کہ اب وہ خود سے کچھ کرنے کے قابل نہیں رہاہے وہ اب بھارت یا کسی اور کی زبان بول کر پاکستان پر الزام تراشیوں کا جو بازار گرم کئے ہوئے ہے اِس سے امریکا بھارت کو تو خوش کرلے گامگر پاکستان جیسے اپنے ایک معصوم اور مخلص دوست سے ضرور محروم ہوجائے گا جس کے تعاون سے یہ بار بار جنوبی ایشیامیں اپنے قدم جمانے کا موقع حاصل کرچکاہے۔بہرکیف! بھارتی چکر میں پھنس نے کے بعد دیکھتے ہیں کہ سات سمندر پار سے آئے ہوئے یہ امریکا بہادرکو بھارت سے کیا ملتا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ سانحہ نائن الیون کے بعد امریکیوں پر موت کا ایساخوف طاری تھا کہ اِنہیں اپنی بقا اور سالمیت کا ایک رتی برابر بھی یقین نہیں تھاکہ اِن کا جاہ وجلال باقی بھی رہے گایایہ چند، دنوں ، ہفتوں ، مہینوںاور سالوں میں مٹ جائے گا یہاں ہم بیان کرتے چلیں کہ 9/11کے روز کئی گھنٹوں تک امریکیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس اور گمان ہوتاتھا کہ جیسے دنوں ، ہفتوں اور مہینوں کی کیابات ہے اب یہ چندگھنٹے یاایک ، دو دن بھی اِس روئے زمین پر زندہ رہ پائیںگے یا نہیں مگر جیسے جیسے ٹریڈ سینٹرز کی تباہ ہونے والی عمارتوں میں لگی آگ اور گرتی ہوئی اِن بلند وبالا عمارتوں کی خاک سے اٹھنے والی دھول کم ہوتی گئی ویسے ویسے اِن ہواس باختہ ا مریکیوں کے دل و دماغ اپنے اپنے ٹھکانوں اور اِن کی کبھی تیزی اور کبھی رکتی سانسیں بھی اپنی اپنی جگہہ پر آنے لگیں اور یوں جیسے ہی اس وقت کے ڈرسہمے اور انتہائی خوفزدہ امریکی صدر مسٹر بش کے شاطر اور اعیار دماغ نے بڑی تیزی سے کام کرنا شروع کیا تو اِس نے اپنے اردگرد جمع پریشان حال امریکی چمچوں کو ہوش میں لانے کا کام کیا اور اِس کے بعد بش نے اپنی انتظامیہ کے حواریوں کو اپناہم خیال بنانے کے بعد سب سے پہلے اِس نے جوکام کیاوہ یہ تھاکہ اِس نے ترت سانحہ نائن الیون کی ذمہ داری اپنے ماضی کے منظورِ نظر اسامہ بن لادن اور اِس کے جنگجووں کے کاندھوں پر ڈالی دی۔ پھر جب اِس سے بھی کام نہ بناتو امریکی انتظامیہ اور امریکی صدر بش نے یہ فیصلہ کیاکہ افغانستان روس جنگ میں روس جیسی سپرطاقت کو شکست دینے والے اسامہ بن لادن جیسے طاقتورجنگجوسے مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کو فوری طور پر ڈرادھمکایااِسے امداد اور قرضوں کی لالچ دے کر اِس سے اپنی مدد کے لئے کہاجائے تواِس طرح اس وقت کے پاکستان کے آمر صدرپرویزمشروف جوامریکی آشیرواد سے پاکستانی عوام پر امریکی عزائم کی تکیمل کے خاطر حکمران قابض ہوئے تھے مسٹرہش (بش )نے اِنہیں فورافون کیا اور کہاکہ مسٹر مشروف اب وقت آگیاہے کہ تم اپنا حق اداکرو اور صاف صاف بتاو کہ تم سانحہ نائن الیون میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف شروع کی جانے والی امریکی جنگ میں ہمارے ساتھ ہو یا ان کے ساتھ اِس کا فیصلہ مجھے ابھی اور اِسی فون کال میں چاہئے اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی یادرکھو اگر تم نے انکار کیاتو ہم تمہیں پتھر کے دور میں لے جائیں گے۔ ہاں اور اگر ہمارے ساتھ مل کردہشت گردوں سے جنگ لڑنے کی حامی بھری تو ہم تم کو اِس جنگ میں فرنٹ لائن کا رول اداکرنے پر اتنا کچھ دیں گے کے جس کا تم سوچ بھی نہیں سکوگے اور اِس کے ساتھ ہی امریکی صدر نے یہ بھی کہہ دیاکہیہ جنگ جو امریکا شروع کرناچاہ رہاہے یہ صلیبی جنگ ہے جس میں امریکا دنیاکا نقشہ بدل کررکھ دے گا اور بالآخر فتح امریکا ہی ہوگاجس کے بعد امریکی دباو میں آئے ہوئے پاکستانی صدر پرویزمشروف نے بغیر چوںوچراکئے امریکی صدرپش کو اِس کا ساتھ دینے کی حامی بھری اور ہر وہ کچھ کرنے کا وعدہ کیا جو امریکا چاہتاتھا ۔تب ہی سے پاکستان امریکا کے لئے کررہاہے جس کا کوئی حساب ہی نہیں ہے۔یہاں یہ امرانتہائی افسوسناک ہے کہ سانحہ نائن الیون کو گزرے دس سال کا ایک بڑاعرصہ گزرچکاہے مگر افغانستان میں گھسنے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف لڑی جانے والی اِس امریکی جنگ میں امریکا سے کہیں بلکہ کئی گنازیادہ پاکستان کا مالی، سیاسی، اقتصادی، اخلاقی ومذہبی اور جانی نقصان ہواہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اِس جنگ کا ایک فیصد بھی امریکا کا نقصان نہیں ہوا ہے مگر اِس کے باوجود بھی امریکااِس بات پر مرغی کی ایک ٹانگ جیسی ضد پر قائم ہے اور ہربار ڈومور، ڈومور کی رٹ لگائے ہوئے ہے اور ہم سے توقع رکھتاہے کہ ہم اِس کی اِس ضد پر اپناسب کچھ قربان کرکے بھی اِ س کی ڈومور کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے اِس کی جنگ میں غرق ہوتے رہیں۔ یہ اپنی زبردستی کی چھیڑی جانے والی اِس جنگ میں اپناایک بھی فوجی ہلاک کئے بغیراپنی فتح کا جھنڈاگاڑنے کا خواب دیکھ رہاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اِس موقع پر امریکا کو یہ ضرور سوچناچاہئے کہ وہ اپنی شکت تسلیم کرے اور پاکستان پر طرح طرح کی منفی اور سراسر جھوٹ پر مبنی الزام تراشیاں جاری رکھنے جسیے عمل سے نہ صرف اجتناب برتے بلکہ اپنے امریکی عوام کو بھی اِس حق اور سچ سے ضرور آگاہ کرئے کے ہم کو افغان جنگ میں شکست ہوئی ہے اور ہم اِ س جنگ میں اپنی سبکی کے باعث پاکستان کی پیش کی جانے والی قربانیوں پر بھی اِس کے دہشت گردوں سے رابطے جیسے من گھڑت اور جھوٹے الزامات لگا کر اِس کے سارے کئے دھرے پر پانی پھیرتے رہے تاکہ اِس طرح یہ ہمارے دباو میں رہے اور ہماری ہاری ہوئی جنگ کو فتح میں تبدیل کرکے اوبامہ کو امریکا میں سرخروکردے اور اوبامہ اگلے انتخابات میں عوام کے سامنے جب پیش ہوں تو وہ یہ بتاسکیں کہ انہوں نے سابق صدربش دہشت گردوں کے خلاف شروع کی گئی جنگ کو فتح کی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچادیا ہے۔ ویسے ہمیں نہیں لگتاہے کہ امریکا اِس میں کامیاب ہوپائے گا اور اپنے عوام کو یہ سمجھا پائے گا کہ وہ جنگ جیت گیاہے اور اِس کے علاوہ یہ بھی کہ پاک امریکا تعلقات کسی فیصلہ کن موڑ پر آگئے ہیں ہمیں اِس صورت حال میں اِس بات کا بھی یقین ہے کہ کوئی کچھ بھی کہہ لے.؟ یا کچھ بھی کرڈالے..؟ امریکا ،پاکستان کو اور نہ ہی پاکستان، امریکا کو چھوڑے گا….آج نہیں تو کل،کل نہیں تو برسوں ، ہفتوں اور مہینوں میں یہ بات ضرور کھل کر سامنے آجائے گی کہ امریکا نے پاکستان پر جتنے بھی من گھڑت اور منفی جھوٹے جھوٹے الزامات لگائے تھے اِس کے پیچھے بھارت ملوث تھا اور پھر امریکاپاکستان سے معافی مانگنے اوراِس سے اپنے کئے پر شرمندہ ضرور ہو گا۔